کہ ‘دانا’ اٹھ گئے سجدے سے جب وقت قیام آیا

اشرف بستوی

15 جولائی کی رات ترک عوام کے لیے قیامت بن کر آئی جب فوج کے ایک حصے نے بغاوت کر دی ، لیکن بیدار مغز قیادت کی اپیل پر ترک عوام نے اپنی دانائی کا ثبوت دیتے ہوئے بہادری اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور فوجی بغاوت کو کچل کر تاریخ رقم کر دی اور دنیا کو یہ پیغام بھی پہونچا دیا کہ نہتے عوام میں بھی پرطرح کی قوتوں کا مقابلہ کر نے طاقت آج بھی ہے ۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد سے دنیا بھر سے لوگ ترک عوام کی بہادری اور سیاسی قیادت کی حکمت عملی کی داد دے رہے ہیں ، داد و تحسین پیش کرنے والوں میں اب وہ لوگ بھی شامل ہو چکے ہیں جو پہلے 12 گھنٹوں تک فوجی بغاوت کی کامیابی کی دعائیں کر رہے تھے ، میڈیا کے وہ حلقے جو بغاوت کی خبر آتے ہی ترکی کی حکومت کی پالیسیوں میں کیڑے نکالنے لگ گئے تھے وہ بھی اب شرما شرمی میں یہ کہتے دیکھے جارہے ہیں کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا ، لیکن اس کے باوجود اب بھی میڈیا کا ایک حصہ بغض و عناد اپنے اداریوں تبصروں میں بین السطور ظاہرکر رہا ہے ۔ کچھ نے اسے حکمراں طبقے کا ڈرامہ بھی قرار دے ڈالا یہ لوگ دنیا کو خبر دار کر رہے ہیں کہ اتا ترک کمال پاشا کا ترکی اپنی راہ سے بھٹک گیا ہے وہاں سیکولرزم (لادینیت ) کا خاتمہ ترکی کو تاریکی کے دلدل میں دھکیل دے گا ، انہیں ترکی حکومت کی اسلام پسندی گوارہ نہیں ہے ۔
فاکس نیوز ڈاٹ کام امریکہ کا بڑامیڈیا گھرانہ ہے یہ دنیا کے ان 6 میڈیا گھرانوں میں شامل ہے جن کا تسلط دنیا کے 90 فیصد میڈیا پر براہ راست تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ فاکس نیوزکو ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی سے سب سے زیادہ صدمہ پہونچاہے ۔
فاکس نیوز ڈاٹ کام کے اسٹریٹیجک تجزیہ کار رالف پیٹرس جو کہ امریکی فوج کے سابق افسر ہیں نے 16 جولائی کے اپنے تجزیے میں ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کیاہے اپنے تجزیے کی کی سرخی دی ہے ‘ ترکی کی آخری امید بھی معدوم ہو گئی’ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ” جمعے کی رات ترکی میں فوجی بغاوت کے ناکام ہونے کے ساتھ ہی ترک حکومت کو ترکی کو اسلام کی طرف لے جانے سے روکنے اور ترک معاشرے کو تاریکی سے نکالنے کی آخری امید بھی اب ختم ہو گئی ۔ صور ت حال کو سمجھے بغیر فوری طور پر مغربی رہنما فوجی بغاوت کی مذمت میں لگ گئے ، ترک حکومت کی تائید یہ تائید یورپ کے دروازے پر خطرناک اسلامک حکومت کے قیام میں معاون ثابت ہوگی ” ۔ مبصر نے جم کر کوسا ہے رافیل نے امریکہ کو بھی ترکی کا ساتھ دینے کی بات پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ” ہمارے لیڈر بھی صورت حال سمجھنے سے قاصر ہیں "۔
یہ خبر آتے ہی مصر کا فوج نواز میڈیا نے بھی خوشییوں سے جھوم اٹھا وہاں بھی ترکی میں فوجی بغاوت کی حمایت میں تبصرے اور تجزیر انے شروع ہو گئے ۔ البتہ حال ہی میں ترکی سے معاہدہ پر دستخط کر نے والے اسرائیل کا لہجہ ذرا نرم دکھائی دیا ، ترکی میں فوجی بغاوت کو غلط قرار دیا، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فوری طور پر سیاسی حکمت عملی کے تحت اپنے نئے نویلے اسٹریٹیجک پارٹنر اسرائیل کی تائید کا خیر مقدم کیا ۔ لیکن اس کے باوجود دبے لہجے میں ٹائمس آف اسرائیل نے اپنے تجزیوں میں لکھا کہ وہاں کی حکومت کو اندرونی خلفشار اور بے چینی کے اسباب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اب ایک نظر ہندوستانی میڈیا پر بھی ، جیسا کہ ہم سبھی واقف ہیں کہ عالمی معاملات میں ہندوستانی میڈیا کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ وہی راگ الاپنے کی مہم شروع کر دیتا ہے جو مسلم اور اسلام دشمن قوتوں کا ہوتا ہے ، یہاں یہی ہوا خبر آنے کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا نے اردگان کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا اور ان کی کامیابیوں کو ناکامیوں کے طور پر پیش کیا جانے لگا ، اسلامی اقدار کے ساتھ حکمرانی کی تنقید شروع کر دی گئی ۔ اخبارات نے اگلے روز بغاوت کی ناکامی کی با تصویر خبریں تو شائع کیں لیکن اس کے ذریعے یہ بھی پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ترکی کی عوام نے انتہائی سخت دلیکا مظاہرہ کیا۔ پہلے دن چینلوں پر ہونے والے مباحثوں میں بیشتر کو یہ گمان تھا کہ بغاوت کامیاب ہو جائے گی اس لیے مبصر حضرات مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی اور رجب طیب اردگان میں خامیاں تلاش کرتے دیکھے گئے ۔ ترکی کی ناکام فوجی بغاوت نے دنیا بھر کے فوجی ڈکٹیٹروں کو ایک خاموش انتباہ اورعوام کو ایک خاموش پیغام دے دیا ہے ، مظلوم عوام کی راہنمائی بھی کی ہے اور ترکی کے غیور اور بہادرعوام نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ” کہ دانا اٹھ گئے سجدے سے جب وقت قیام آیا! ذرا سوچیں اگر خدا نخواسطہ یہ بغاوت کامیاب ہو جاتی تو اندازہ لگائیے کیا دنیا کے رہنماوں کے یہی بیانات ہوتے ، ہر گز نہیں! مصر میں بھی تو ایک منتخب عوامی حکومت تھی لیکن بغاوت کی کامیابی کے ساتھ ہی میڈیا اور عالمی رہنماوں نے کیا رخ اختیار کر لیا تھا ، ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد آنے والے تبصروں اور تجزیوں سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ موجودہ دنیا اپنے آپ کو بھلے ہی کتنی مہذب کہے لیکن اسلام اور مسلمان کا نام آتے ہی اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے ، ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد میڈیا کی عیاری اور مایوسی قابل دید ہے انہیں تو بس وقت کا انتظار ہوتا ہے موقع پاتے ہی اسلام کے تئیں دنیا کا عدم برداشت کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔
[email protected]

تبصرے بند ہیں۔