شامی انقلاب – منظر وپس منظر

آفتاب عالم فلاحی

آج سے ٹھیک پانچ سال قبل جب تیونس سے انقلاب کی آگ اٹھی تو کسی نے یہ امید نہیں کی تھی کہ عرب ملکوں میں کئی دہائیوں سے کرسی پر براجمان یہ حکمراں ایک ایک کرکے اس کی لپٹ میں آکر اپنی کرسی گنوادیں گے اور عوامی غصہ ان کو ملک سے راہ فرار پر مجبور کردیگا۔ مگر ہم نے دیکھا کہ تیونس میں زین العابدین ملک سے در بدر ہوگئے اور جب وہاں آمریت کے بعد پہلی دفعہ جمہوری طرز پر الیکشن ہوا تو عوام نے اسلام پسند جماعت النھضہ کو منتخب کیا۔ یہی حال مصر کا ہوا جہاں 30سال سے حسنی مبارک آمر بن کر خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرتارہا مگر عوام کی آزادی کو طاقت کے زور سے دبائے رکھا اور مصر میں بڑھتی بے روزگاری کا خاطرخواہ حل پیش نہ کرسکا جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھتی گئی اوربالآخر عوام نے اس کوبھی تختہ اقتدار سے اکھاڑ پھینکا اور مصر کی تاریخ میں پہلی بار صاف شفاف الیکشن ہوا جس میں عوام نے وہاں کی مقبول ترین اسلام پسند جماعت اخوان المسلمین کو منتخب کیا۔ یمن میں بھی عبداللہ صالح عوامی مظاہرہ کے سامنے نہیں ٹک سکے اور حکومت چھوڑ کر ملک سے فرار ہوگئے۔ لیبیا بھی اس انقلابی لہر سے نہ بچ سکا جہاں معمر قذافی نے اس لہر کو فوجی طاقت سے روکنے کی ناکام کوشش کی اور نیٹو کی مداخلت سے قذافی کو اس دنیا سے ہی رخصت ہونا پڑا۔ پھر یہ انقلاب دیگر ممالک سے ہوتے ہوئے شام میں جا پہنچاجہاں عوام دہائیوں سے اسد خاندان کے  ظلم وستم اور ناانصافی کا شکار تھی لہذا بشارالاسد کے خلاف عوام بغاوت پر اتر آئی اورتاحال عوام اور بشار حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے مگر ابھی تک اس انقلاب کا فیصلہ نہیں ہو پایا ہے اورظالم بشار اب تک لاکھوں لوگوں کو قتل کر چکا ہے مگر حکومت کی اس کی بھوک ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

عرب بہاریہ کے نام سے اس مشہور انقلاب نے سارے عالم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے اورہم نے دیکھا کہ انقلاب سے متاثر بعض ممالک میں انتخابات ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر اسلام پسند جماعتوں کو عوام نے منتخب کرلیا اور بعض ممالک میں اتحادی حکومت کی کشمکش اب تک جاری ہے مگر شامی انقلاب کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بشار الاسد اب تک لاکھوں لوگوں کو شھید کر چکا ہے اور لاکھوں لوگ ملک سے چھوڑ کر دیگر عرب ممالک یا یورپ میں مہاجر بن کر زندگی گزار رہے ہیں اور بشارالاسد ظلم وستم کی ساری انتہاوں کو عبور کرچکاہے مگر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ بشارالاسد کے ظلم کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کررہی ہیں۔ روزآنہ بشارالاسد اور روسی فوج شام پر بم برسارہی ہے مگرشامی عوام کی مدد کے لئے کوئی ملک کھڑا نہیں ہورہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دیگر عرب ممالک میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے مداخلت کے ذریعہ یا تو وہاں جمہوری حکومت لانے میں تعاون کیا ہے یا عوامی خواہش کے مطابق وہاں کے حکمراں کو فوجی طاقت کے ذریعے کچل دیا ہے مگر شام کے معاملے میں تا حال نہ تو کسی حکومت کی تشکیل ہوسکی ہے اور نہ وہاں کی عوام کی مدد کے لئے بشارالاسد کے خلاف فوجی کاروائی کر رہی ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ شامی انقلاب عرب کے دیگر انقلاب سے الگ کیوں ہے۔

شام میں ابتدا ہی سے فرانس کا اثرورسوخ رہا ہے اورہمیشہ اس کی پالیسی رہی ہے کہ حکومت کی باگ ڈور وہاں کے اقلیتی طبقہ کے ہاتھ میں رہے تاکہ یہ اقلیتی طبقہ مستحکم حکومت کے لئے ہمیشہ فرانس کا محتاج رہے جب کہ وہاں اکثریت سنیوں کی ہے مگر شام میں وہاں کی آبادی کا صرف 10 فیصد پر مشتمل علوی طبقہ حکومت کرتا آرہا ہے۔ علویوں میں اسد خاندان کی بالادستی رہی ہے۔ اسد خاندان نے اکثریتی طبقہ پر بہت مظالم ڈھائے ہیں۔ طاقت اورخفیہ خدمات کے ذریعہ بشارالاسد وہاں کی عوام کے دلوں میں خوف پیدا کیے ہوئے تھا مگر انقلاب کی وجہ سے جب یہ خوف نکل گیا تو عوام کھل کر بشار کے خلاف بغاوت پر اتر آئی جسے کچلنے کی ناکام کوشش اسد کی جانب سے تا حال جاری ہے۔

چونکہ شام میں اکثریت سنیوں کی ہے اس لئے اسد کی فوج میں بھی بڑی تعداد سنیوں کی ہے۔ جب عوامی بغاوت کے خلاف بشار بمباری کرنے لگا اور بے قصور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے لگا تو سنی فوج بشار کے خلاف ہوگئی اور مختلف اتحاد بنا کر بشار حکومت کے خلاف لڑنے لگی۔

 شام میں جب سے بغاوت شروع ہوئی ہے، متعدد اپوزیشن جماعتوں اوراتحاد کی تشکیل ہوچکی ہے جس میں نیشنل کولیشن اور فری سیرین آرمی شروعات میں قابل ذکرتھیں۔ نیشنل کولیشن میں شامل حضرات چونکہ لندن، فرانس اور واشنگٹن میں اپنا بیشتر اوقات گذارتے ہیں اس لیے زمینی سطح پر ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی، جہاں تک فری سیرین آرمی کا تعلق ہے تواسے بعد میں بننے والے دوسرے اتحادوں نے کمزور کردیا۔ شام میں اب تک دو سب سے بڑے اتحاد نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

1۔ ستمبر2013 میں لواء التوحید کے جاری کردہ بیان کے مطابق 11 شامی باغی تنظیموں پر مشتمل ایک اسلامی اتحاد کی تشکیل ہوئی جس میں فری سیرین آرمی، سیرین اسلامی فرنٹ اور جبہۃ النصرہ جیسے نہایت طاقتور دھڑوں کو بھی شامل کیا گیا۔ اس اتحاد کا مقصد بالکل واضح تھا یعنی جنگ کے اختتام کے بعد اسلامی ریاست کا قیام ہوگا اور حکمرانی کے لئے شریعت مرجع ہوگی۔

2۔ چند روز بعد اس سے بھی بڑے اتحاد کی تشکیل ہوئی جب دمشق کے گردونواح میں لڑنے والے تقریبا 50 گروپ نے جیش الاسلام کے نام سے ایک اتحاد کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد سب سے مضبوط سمجھی جانے والی باغی جماعت فری سیرین آرمی کے اثرورسوخ کو سخت نقصان پہونچا۔ اس نئے اتحاد نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اس نے نیشنل کولیشن کا بھی اعتراف کرنے سے انکار کردیا اور قانون سازی کے لئے اسلام مرجع ہوگا پر زور دیا۔ جیش الاسلام کے بیان میں مذکور 30 سے 40 بریگیڈیراوربٹالین اس سے قبل لواء الشام میں تھے۔ اس اتحاد میں احرارالشام، جبہۃ النصرہ، صقورالشام اور داعش جیسے دھڑوں کو بھی شامل نہیں کیاگیا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس اتحاد کی تشکیل میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے کیوں کہ اس کے چیف زہران علوش کے سعودی کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں۔

ان اتحادیوں کے بیانات سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ شام میں بشارالاسدکی حکومت گرانے کے بعد عوام ایک ا سلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہاں کی عوام جمہوریت اور آمریت دونوں کو ناپسند کرتی ہے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ جمہوریت سے بھی ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور اگر الیکشن ہوا تو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ ان پر پھر کوئی ایجنٹ حکمراں مسلط کردے گا جو عوام کے مفادات کے بجائے خطہ میں امریکی مفادات کا پاس ولحاظ رکھے گا۔ اس لئے عوام اور باغی گروہ کھل کر اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے حکمرانوں کے لئے تشویش کا باعث ہے جس کا اظہار سارے حکمراں اپنی تقریروں اورپریس کانفرنس میں کرچکے ہیں۔ 2013 میں شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ: "ہم جانتے ہیں جو شام کے لئے برا منصوبہ رکھتے ہیں اور جو اسلامی خلافت کا مطالبہ کررہے ہیں وہ شام کے بارڈر تک محدود نہیں رہیں گے۔ تو ہم (بشارحکومت) دراصل ان کے(شامی عوام)کے خلاف لڑکر اردن، لبنان اور ترکی کا دفاع کر رہے ہیں”۔ شامی عوام کا یہی وہ جذبہ ہے جس نے دنیا کے سارے حکمرانوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ ایران، حزب اللہ اور روس کھل کر بشارالاسد کا دفاع کررہے ہیں جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس وجہ سے ڈرے ہوے ہیں کہ بشار کے بعد آنے والی حکومت (خلافت) اور بھی خطرناک ہوگی لہذا امریکہ جو کی شروع میں بشارالاسد کے خلاف باغیوں کی مدد کر رہا تھا مگر عوام کے اسلامی جذبہ کو دیکھ کراپنی حمایت واپس لے لی اور اس اپوزیشن گروپ کی حمایت کرنے لگا جو سیکولر ہے اور امریکی پالیسی کے مطابق جمہوریت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اب تک جینوا میں تین کانفرس ہوچکی ہے مگر کوئی حل نہیں نکلا، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ریاض فرید حجاب کی قیادت والی جس اپوزیشن کی حمایت کر رہا ہے زمینی سطح پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنا زیادہ تر وقت پیرس، لندن اورامریکہ کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں گذارتے ہیں، جب کہ شام کی سرزمین پر لڑنے والے گروہ امریکی حل کو تسلیم نہیں کررہے ہیں اورمیدان جنگ میں امریکہ کی حمایت یافتہ فری سیرین آرمی کے زیر کنڑول علاقوں پر قبضہ کرکے اسے بالکل ناکارہ بناچکے ہیں۔ اس لئے امریکہ اور اقوام متحدہ نے بشار کو کھلی چھوٹ دے رکھی رہے تاکہ شامی عوام پر اس کی بمباری ہوتی رہے اور آخر میں عوام تھک ہار کر امریکی متبادل کو قبول کرلے۔

گذشتہ پانچ سالوں کے دوران شام کی صورتحال میں بہت ساری پیش رفت ہوئی ہیں۔ 2014 میں داعش کی اعلان کردہ خلافت اور امریکی منصوبہ کے مطابق اس کے خاتمے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا 34 مسلم ممالک کا اتحاد قابل ذکر ہیں۔ شام میں داعش 2012 میں جبہۃ النصرہ کے قائد ابومحمد جولانی کے ساتھ بشارالاسد کے خلاف جنگ میں شریک ہوئی جن کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام تھا مگر اپریل 2013 میں ابوبکر البغدادی نے جبہۃ النصرہ اور القاعدہ سے الگ ہوکر داعش نام کی تنظیم کی بنیاد رکھ دی۔ 2014 میں بغدادی نے عراق اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کرکے خلافت کا اعلان کردیا۔ انقلاب کے ابتدائی مرحلے میں داعش کے جنگجودوسرے گروہوں کے ساتھ مل کر بشار کے خلاف لڑ رہے تھے مگر جبہۃ النصرہ سے علیحدگی کے بعد ان کا نشانہ باغی گروہ ہوگئے جس کے نتیجے میں باغی گروہوں کے درمیان آپسی جھڑپیں شروع ہوگئیں اوربشارجو باغیوں کے حملوں سے کراہ رہاتھا اور دن بدن اس کے ہاتھوں سے اہم علاقے جارہے تھے، باغیوں کی آپسی لڑائی سے اسے پھر سے اپنی فوجی قوت کو منظم کرنے کا موقع مل گیا۔ جین انٹلیجنس کے مطابق نومبر 2013 سے نومبر 2014کے درمیان داعش کے 64 فیصد تصدیق شدہ حملوں کا نشانہ دوسرے باغی گروہ تھے جب کہ صرف 13 فیصد حملے شامی حکومت کے خلاف کئے گئے۔ داعش اپنی قائم کردہ غیرشرعی خلافت کے مخالفین، نیز اپنے زیرتسلط علاقوں میں لوگوں کو ناجائز طریقہ سے قتل کرنے لگی۔ یہی وہ وقت ہے جب عالمی میڈیا نے داعش کی سرگرمیوں کو سب سے زیادہ نشرکیا اور اس کے قتل کے واقعات کو اس قدر ہولناک بناکر پیش کیا گیا کہ شام کے انقلاب کی حقیقی تصویر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ امریکہ کو شام میں داعش کی آڑ میں اسلام پسند جنگجووں کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم ہو گیا۔ امریکہ نے شام میں اپنی فوج بھیجنے کے بجائے مسلم ممالک کو یہ ذمہ داری دی لہذا سعودی عرب کی قیادت میں 34 ملکوں کا اتحاد بناجس میں ترکی سمیت تقریبا سارے اہم مسلم ممالک شامل تھے۔ 2015 کا سال باغی گروہوں کے لئے بہت نتیجہ خیز رہا جس میں انھوں نے بشار فوج کو دمشق تک ڈھکیل دیا تھا۔ امریکہ باغیوں کی اس پیش رفت سے سخت پریشان ہوگیا چنانچہ اس نے اپنے من پسند اپوزیشن فوجیوں کو تربیت اور مسلح کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا مقصد اسلامی ریاست کی خاطر لڑنے والے گروہوں کی پیش قدمی کو روکنا تھا۔ اس ٹریننگ پروگرام کے تحت پانچ ہزار باغیوں کو مسلح کرنا تھا۔ اس ٹریننگ پروگرام کی میزبانی کی ذمہ داری سعودی عرب، ترکی اور دیگر خلیجی ملکوں نے نبھائی۔ جب یہ نئی فورس مسلح ہوکر میدان جنگ میں اترنے کے لئے تیار ہوگئی تو اسے دوٹکڑیوں میں بھیجنے کا فیصلہ ہوا، لہذا 54 جنگجووں پرمشتمل پہلی ٹکڑی کو میدان میں اتاراگیا جسے جبہۃ النصرہ نے فورا جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس کے بعد 70 جنگجووں پر مشتمل دوسری ٹکڑی کو ترکی کے راستے داخل کیا گیا مگر اس گروپ کا حال گذشتہ سے بھی برا ہو کیونکہ یہ گروپ لڑنے کے بجائے اپنے تمام امریکی اسلحے اور گاڑیاں چھوڑکر فرارہوگئے جس پر جبہۃ النصرہ نے قبضہ کرلیا۔ اس ہزیمت سے امریکہ اتنا کھجلا گیا کہ پنٹاگن نے صاف صاف کہا کہ اس نے دوسری ٹکڑی کو ٹریننگ ہی نہیں دی۔

ایک رپورٹ کے مطابق2015  کے اواخر میں جب بشار کا کنڑول صرف 13 فیصد علاقوں میں سمٹ کر رہ گیا تھا، ٹھیک اسی وقت روس بشار کی مدد کے لئے میدان جنگ میں کود پڑااورتب سے مسلسل شام کے معصوم مسلمانوں پر بماری کررہا ہے اور اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہیں۔ شامی عوام مدد کی آس لگائے ہوئے ہے مگر کوئی مسلم ملک بشارالاسد سے ان کو نجات دلانے کے لئے کوشش نہیں کررہا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں جمہوریت یا آمریت کے بجائے اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔