اے جذبہِ دل

ڈاکٹر شکیل احمد خان

 تیز رفتاری کا عالمی ریکارڈقائم کرنے کسی شخص کے پاس کونسی چیز سب سے طاقتور اور مضبوط ہونی چاہیے؟  پیر، پنڈلیاں، پنجے ؟  اگر آپ بھی یہی سوچ رہے ہیں تو آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ واقعتا جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے فولادی قوتِ ارادی، ضد، جنون اور جوش و جذبہ۔ یہ چیزیں ہوں تو ایسا شخص بھی یہ کام کر سکتا ہے جس کا نچلا دھڑ ایک طویل عرصہ تک مفلوج و بے حس و حرکت رہ چکا ہو۔ یہ کوئی مفروضہ، تھیوری یا داستان نہیں ہے۔ اگر آپ ثبوت چاہتے ہیں تو آئیے ہم آپ کا تعارف ایسے ہی ایک  بچہ سے کرواتے ہیں۔

 امریکی ریاست کینساس کے شہر اٹلانٹا میں اسکول میں حادثاتی طور پر آگ لگنے سے دو بھائی بری طرح جھلس جاتے ہیں۔ بڑا بھائی فو ت ہو جاتا ہے اور ۸ سالہ چھوٹے بھائی کو شدید زخمی حالت میں اسپتال میں شریک کیا جاتا ہے۔ غنودگی کی حالت میں بچہ ڈاکٹر کی گفتگو سنتا ہے کہ پیروں کا بیشتر گوشت جل چکا ہے۔ رگوں کو نا قابلِ تلافی نقصان پہونچ چکا ہے۔ نچلا دھڑ تقریبا ناکارہ ہو چکا ہے۔ یہ یقینا مر جائے گا، اور یہی بہتر ہے۔ یہ ڈاکٹر کا خیال تھا لیکن بچہ کا خیال کچھ اور تھا۔ اس نے خود سے کہا مجھے مرنا نہیں ہے۔ اور پھر حیرت انگیز طور پروہ بچ گیا۔ خطرے سے باہر ہونے کے بعد اس نے پھر سنا کہ ڈاکٹر ماں سے کہہ رہا ہے ’’بچہ نہ بچتا تو زیادہ بہتر ہوتا، کیونکہ اس کا مقدر اب ایک ایسے اپاہج کے طور پر زندگی گزارناہے جس کا نچلا حصہ ہمیشہ  کے لئے بے جان و بے حس ہوچکا ہے ‘‘۔ لیکن بچہ نے پھرخود سے کہا مجھے اپاہج بن کر نہیں رہنا ہے۔ اس کی التجا پر ماں نے پیر کاٹ ڈالنے سے روک دیا۔ اسپتال سے خارج ہونے پر مانباپ ہر روز  اسکی منحنی ٹانگوں کی مالش کیا کرتے لیکن ان میں کوئی احساس اور جان محسوس نہ ہوتی۔ وہ بیشتر وقت وہیل چیر سے بندھا رہتا۔ لیکن خود سے کیا ہوا  وعدہ ہمیشہ اس کے ذہن میں رہتا۔ ایک دن ماں نے اسے کھلی ہوا کے لئے باہر لان میں چھوڑ دیا۔ تنہائی میں اس نے خود کو کرسی سے نیچے لڑھکا دیا۔ گھانس کو پکڑ پکڑ کر وہ خود کو گھسیٹنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں وہ بے دم ہو گیا۔ اس نے یہ کام جاری رکھا۔

کئی دنوں کی جان لیوا مشقت کے بعد ایک دن وہ لان کی بائونڈری کی تار فینسنگ تک پہونچ گیا۔ تار کو پکڑ کربہ ہزار دقت وہ کھڑا ہوا۔ پھر تار کے سہارے کنارے کنارے گھسٹتے ہوئے قدم بڑھانے لگا۔ مہینوں یہ مشق جاری رہی۔ اسکی زندگی کا ایک ہی مقصد اور دھن تھی کہ اس کے بے حس پیروں میں جان پیدا ہو جائے۔ فولادی قوتِ ارادی کا استعمال، مانباپ کی تیمارداری اور مالش و علاج جاری رہا۔ نتیجہ وہ پہلے کھڑا رہنے  لگا، پھر بغیر سہارے چند قدم چلنے لگا۔ ۔ طویل مشق کے بعد نارمل افراد کی طرح چلنے لگا۔ پھر اسکے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جی ہاں ! وہ دوڑنے لگا ! اسے اتنا جنون تھا کہ وہ اسکول بھی دوڑتے ہوئے جاتا۔ فبروری ۱۹۳۴ کو نیو یارک کے مشہور میڈیسن اسکوائر گارڈن میں اس بچہ نے، جس کے بارے میں سوچا جاتا تھا کہ وہ زندہ نہیں رہ پائے گا، کھڑا نہیں رہ پائے گا، چل نہیں پائے گا، ۴ منٹ، ۸ سیکنڈ میں ایک میل دوڑ کر تیز رفتاری کا عالمی ریکارڑ قائم کیا۔ بعد ازاں ۱۹۳۶ اور ۱۹۳۸ میں بھی اس نے عالمی ریکارڑ قائم کئے۔ اسے امریکہ کے ٹاپ غیر معمولی ایتھلیٹ کے طور پر  AUUکی جانب سے مشہور  جیمس سلیوان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس نے نیو یارک یونیورسٹی سے  پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور کھیلوں سے ریٹایئر منٹ کے بعد کورنویل کالج میں فیزیکل ایجوکیشن کے ڈایریکٹرکے طور پر کام  کیا ۔ آج دنیا اس بچہ کو  گلین کننگم  (1909-1988) Glenn Cunninghamکے نام سے یاد کرتی ہے۔

اب غور طلب بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک گلین کنگم موجو دہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے پہچانے، پروان چڑھائیں  یا  ا ندر ہی اندر ختم ہو جانے دیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں، ہر کام میں ترقی کرنے، کامیابی حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے،  وہ ہے ضد، جنون اور فولادی قوتِ ارادی۔ یہ جنون و اعتماد ہی تھا جس نے انسان کو پہاڑ کی چوٹیوں پر پہونچایا، یہ قوتِ ارادی و ضد ہی تھی جس کے باعث سمندر کی اتھاہ گہرایئوں کے راز اس پر منکشف ہوئے۔ کامیابی کے اسباب پر تحقیق کرنے والے ماہرِ نفسیات جوش کے مقابلہ میں قابلیت اور صلاحیت کو بھی دوسرا مقام دیتے ہیں۔ امریکہ کی پینسلوانیا  یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ڈاکٹر انجیلا ڈک ورتھ کی ایک تحقیقی کتاب  Grit  (جوش و استقلال) کے عنوان سے 2016  میں شائع ہوئی ہے جس میں اس بات کی تشریح اور ثبوت کے طور پر کئی مثالیں اورواقعات درج ہیں۔ گلین کنگم نے نامی برطانوی صحافی  والٹر بیجیٹ((1826-1877  کے اس قول کو سچ ثابت کر دیا کہ’’ دنیا میں سب سے زیادہ  پر لطف چیز وہ کام کرنا ہے جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ وہ نہیں کرسکتے‘‘۔ حالات ناگفتبہ ہیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے  اپنے اندر امید اور اعتماد کے عقاب کو جگایئے۔ یاد کھیئے، یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ ہر چیز کر سکتے ہیں اگر آپ واقع اسے کرنا چاہتے ہیں۔ اٹھیئے، ا پنے کپڑے جھٹکیے، وہ کیفیت پیدا کیجئے کہ آپ بہزاد لکھنوی کے الفاظ میں خود سے یہ کہ سکیں :

  اے جذبہِ دل  گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے

منزل کے لیے دو گام چلوں،  اور منزل  سامنے آ جاے  

تبصرے بند ہیں۔