اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی

عبیدالکبیر

پندرہ اگست کو حسب روایت وزیر اعظم نے تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے ہندستان کی عوام کو مخاطب کیا۔ یوم آزادی کے موقعہ پر بھارت کے وزرائے اعظم کے خطابات ہمیشہ سے اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ لوگ ان تقریروں کو بڑے تپاک سے سننے کے عادی بھی رہے ہیں۔ اس موقعہ پر عوام وخواص ہر کوئی اپنے منتخب وزیر اعظم کی باتوں میں تقریر کی لذت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس بار بھی لوگوں کو اس اہم اور یادگار موقعہ پر بہت کچھ سننے کی تمنا تھی اور اسی آرزو کے ساتھ لوگ لال قلعہ کے سامنے جمع ہوئے تھے مگر          ع     اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

 وزیر اعظم کی تقریرکے تئیں  امسال کچھ اس لئے بھی وفور شوق کا جذبہ دیکھنے کو ملا کیونکہ ملک کی صورت حال پراپنے معمول کے برخلاف  ایک عرصے کی خاموشی کو توڑتے ہوئے پچھلے دنوں انھوں  نے دلت برادری کے حوالے سے ہمدردی سے لبریز ایک بیان دے دیا تھا۔ دلتوں کے تعلق سے وزیر اعظم کے بیان نے اگرچہ  کچھ زیادہ اثر نہیں دکھایا بلکہ اس بیان کے بعدانھیں  خود اپنے  ہم خیال حضرات کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا  مگر پھر بھی اتنا ضرور ہوا کہ اس سے ان کی خاموشی کا تسلسل ٹوٹا اور سوا سو کرور عوام کی چشم امیدایک بار پھر ان کی جانب اٹھی۔ اس کے علاوہ کشمیر کے دگر گوں حالات کو دیکھتے ہوئے بھی اس قسم کی توقعات وابستہ کی جارہی تھیں کہ شاید موصوف اس جنت ارضی کے حوالے سے کچھ گل افشانی کریں گے۔ مگر وزیر اعظم کی تقریر میں اس قسم کی باتوں کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں آیا۔ انھوں نے اپنے خاص انداز میں ظلم وتشدد کے لئے بھارت کے ماحول کو ناساز گار قرار دیا  اور پھر اس کے بعد انہی نکات کو واضح کیا جن پر وہ ایک عرصے سے روشنی ڈالتے آئے ہیں۔ انھوں نے گڈ گورننس کا تذکرہ کیا اور سڑک، ریلوے ٹریک کی تعمیرات میں تیز رفتار پیش رفت کا ذکر کیا۔ علاوہ ازیں  ان کی تقریر میں جن دھن یوجنا، افراط زر کی شرح کا تذکرہ بھی ہوا۔ جہاں تک اپنی سرکار کی حصولیابیوں کا ذکر ہے تو اس کے لئے غالباً یہ کوئی موزوں موقعہ نہیں تھا۔ این ڈی اے کی حکومت ملک کی ترقی کے لئے جو بھی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے یا دینے کا ارادہ رکھتی ہے اس کا ذکر تو اس سے پہلے بھی وہ بارہا کرتے رہے ہیں۔ ان کے بیان میں جن مشترک اہداف کا چرچا ہوتا ہے وہ تقریباً ہر جگہ بیان کئے جاتے ہیں۔ اس سے قبل پارلیامنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں وہ ان چیزوں کا تعارف کرا بھی چکے ہیں۔ اس لئے سننے والوں کے لئے اس میں کچھ نیا نہیں تھا بلکہ ان کی یہ تقریر سن کر کچھ لوگ مایوس بھی ہوئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کے بقول وزیر اعظم کے خطاب میں ججوں کی تقرری کے مسئلے پر روشنی ڈالی جانی چاہئے تھی۔ واضح رہے کہ ججوں کی تقرری میں سستی کی بنا پر زیر التوا مقدمات کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے عدالتی نظام ایک قسم کے تعطل کا شکار ہے۔ وزیر اعظم کے خطاب کو پورے طورپر  وہی ڈفلی وہی راگ کا مصداق بھی  نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ انھوں نے اپنی تقریر میں پاکستان میں ہونے والے حادثات کا ذکر بھی کیا اور بلوچ قوم کی طرف سے وزیر اعظم کی  پذیرائی کو پورے ملک کے لئے سرمایہ فخر قرار دیا ہے۔ ملک کی داخلی صورت حال، فرقہ وارانہ کشیدگی اور مسلم اقلیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے مسئلے پر اس بار بھی مودی جی خاموش ہی رہے، البتہ تشدد کے ضمن میں انھوں نے کچھ مخصوص عوامل کا تذکرہ کیا۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں پرورش پانے والے تشدد کے علم بردار نوجوانوں کو انھوں نے صحیح راہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ وزیر اعظم کے اس خطاب پر اپوزیشن لیڈروں نے تنقید بھی کی اور اسے مایوس کن قرار دیا۔ وزیر اعظم کی باتوں سے اتفاق یا ختلاف سے قطع نظر اتنی بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ان کی یہ تقریر مجموعی طور پر ملک کے باشندگان کے لئے کچھ امید افزا نہیں رہی۔ ملک کی اتنی بڑی تعداد کی نمائندگی کرنے والے کی حیثیت سے ان کی تقریر بہت ناکافی اور تشنہ تھی ۔ انھوں نے انتہائی اہم اور حساس مسائل سے کنارہ کشی اختیار کرکے کچھ غیر ضروری مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ  ملک میں بد امنی کی جو تشویش ناک صورت حال پائی جاتی ہےاس کے سامنے وہ بے  بس ہیں۔ گجرات میں دلتوں کا آندولن ہو یا کشمیر میں پیلیٹ گن کی تباہ کاریاں انھوں نے سبھی ترجیحی مسائل کو سرد بستے میں ڈال  رکھا ہے۔ ان حساس مسائل پر ان کی خاموشی نے ان کے گڈگورننس کے دعوے کو اور بھی مشکوک کر دیا ہے۔ کیا گڈگورننس میں ملک کے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ شامل نہیں ہے یا پھر جن لوگوں کی شمع حیات گل ہوگئی وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ مودی جی پاکستان کے معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے جس   تمطراق سے پاکستان سے جواب طلب کرنے کی بات کررہے ہیں کیا انھیں یہ احساس نہیں کہ خود ان کے ملک میں کشیدگی کے جو واقعات آئے دن سر ابھارتےرہتے  ہیں اس کی جواب دہی بھی تو کسی پر عائد ہونی چاہئے۔ آخر کون ہے اس کے لئے جواب دہ اور اس پر جواب طلب کرنے کا وقت کب آئے گا، مودی جی کو ان  سوالات پر بھی اظہار خیال کرنا  چاہئےتھا ۔ ملک کی سلامتی اور ترقی میں فرقہ وارانہ کشیدگی بہت مہلک ثابت ہوگی مودی جی کو خود بھی اس کا احساس ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ فرقہ پرستی کی بیخ کنی کے لئے بلا تفریق من و تو ضروری اقدامات عمل میں لائیں اور اپنی حلیف جماعتوں کے نمائندگان کو ایسی حرکتوں سے روکیں جن سے فرقہ پرستی کو فروغ ملتا ہے۔ کوئی شخص اپنی پسند اور نا پسند کی حد تک جس پارٹی اور نظریہ کو اپنائے یہ اس کا معاملہ ہے مگر جب پوری  قوم کی نمائندگی کا مسئلہ ہو تو اسے ہر قسم کی سیاست سے اوپر اٹھ کر کی اپنی پالیسی وضع کرنی چاہئے۔ مودی جی کا انتخابی نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس جس کے تانے بانے اب بکھرتے نظر آرہے ہیں اس کی روشنی میں مذکورہ مسائل کی جواب دہی ان پر عائد ہوتی اور دنیا جہان کے مسائل سے بھر پور ان کی تقریروں میں جب یہ نکات فراموش کر دئے جاتے ہیں تو ملک کا باشندہ زبان حال سے یہی کہنے پہ مجبور ہوتا ہےکہ۔

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔