والی کے رشتہ سے بھتیجا منور رانا

حفیظ نعمانی

            جس کے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے تو بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ میں نے پہلی بار انھیں کہاں دیکھا تھا، یا پہلی ملاقات ان سے کب ہوئی، میں نے عزیز گرامی منور رانا کو پہلی بار اس دن تو نہیں دیکھا تھا جس دن وہ میرے عزیز دوست والی آسیؔ سے مشاعرہ کے پاس مانگنے آئے تھے، ہاں اس کے بعد اس لیے بار بار دیکھا کہ اس مشاعرہ کے بعد والیؔ اس نئی دریافت کا ہر کسی سے تذکرہ کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ اگر اس کے معدہ نے شہرت ہضم کرلی تو وہ ایک دن بڑا شاعر بنے گا۔

            وقت بھی گزرتا گیا اور ملاقاتیں بھی ہوتے ہوتے بے تکلفی بھی بڑھتی گئی، ایک دن پریس کھلنے سے پہلے والیؔ مخصوص آواز  ’’حفیظ بھوائی‘‘ آئی، وہ پریس کے صحن میں کھڑے تھے اور میں اوپر مکان کے زنانے حصہ میں چائے پی رہا تھا، ایک بچی نے دفتر کی چابی پھینکی اور جواب دیا کہ ابو چائے پی کر آرہے ہیں، بچی نے بتایا کہ کوئی صاحب ان کے ساتھ ہیں، نیچے چائے کے ساتھ آیا تو دیکھا منور بھی ہیں، چند جملوں کے بعد والیؔ نے کہا کہ منور ٹرانسپورٹ کے کام ساتھ لکھنؤ سے ایک اخبار نکالنا چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ آپ اس اخبار کی ذمہ داری لے لیں، اور یہ اس وقت کانپور کے قریب فتح پور سے آرہے ہیں، رات تین بجے جیپ سے گئے تھے، راستہ میں انائو، اس کے بعد کانپور رُکے، پھر فتح پور صبح ساڑھے پانچ بجے پہنچ گئے، اور اب لکھنؤ میں آپ کے پاس بیٹھے ہیں، یہ سفر انھوں نے اس لیے کیا تھا کہ اگر اخبار اپنی جیپ سے ۳بجے چھاپ کر بھیجا جائے تو لکھنؤ کے علاوہ انائو، کانپور اور فتح پور تک صبح ۶؍ سے پہلے پہنچ سکتا ہے۔

            میرے عزیز منور ماشاء اللہ لکھنؤ میں ہی موجود ہیں، وہ اس کی تصدیق کریں گے کہ انھوں نے کہا تھا کہ میں خود بھی لکھا کروں گا اور نہ والی نے کہا کہ ان کے شعر ہی نہیں ان کی نثر بھی ایسی ہے کہ لوگ پڑھیں گے اور مکرر سہ کرر پڑھیں گے، بلکہ گفتگو کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے مسئلہ یہ ہے کہ پیسے وہ جتنے بھی ہوں منور لگا دیں گے، اس کے چھپنے اور مختلف شہروں میں بھیجنے کا انتظام بھی وہی کریں گے، آپ کو اخبار کی ذمہ داری لکھنے اور لکھوانے تک لینا ہے، اگر اس وقت والیؔ مجھے منور کی نثر ’’اگر میرا بھی اک بھائی لڑکپن میں نہیں مرتا‘‘ اور ہم خود ادھڑنے لگتے ہیں ترپائی کی طرح‘‘…یا اس سے کم درجہ کی یا بہت کمتر درجہ کی بھی دکھادیتے تو میں بے ساختہ کہتا کہ والی تیرا شکریہ، اور شاید آج بھی وہ اخبار نکل رہا ہوتا، لیکن یا تو میرے ان جملوں کا ردّ عمل تھا یا منور نے غزل کا قلعہ فتح کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اب نثر بھی ایسی لکھوں گا کہ حفیظ جیسے خود آکر کہیں کہ کیوں نہ ایک اخبار نکالا جائے؟ جس کے ایڈیٹر منور رانا ہوں اور معاون حفیظ نعمانی، مجھے وہ اپنے کہے ہوئے جملے آج بھی یاد ہیں، میں نے کہا تھا کہ منور اگر اللہ نے دولت سے نوازا ہے اور تفریح کرنے کو جی چاہ رہا ہے تو لندن چلے جائو، پیرس کی سیر کرلو، امریکہ کے واشنگٹن گھوم آئو مگر یہ شوق نہ کرو، اس میں زندگی بس اس کی ہوکر رہ جاتی ہے۔

            پاک پروردگار نے حافظہ کی نعمت عطا فرمائی ہے، مجھے منور کے چہرے کے وہ اتار چڑھائو اب تک یاد ہیں جو بنائے ہوئے قلعہ کے منہدم ہوجانے کے بعد بڑے بڑوں کے ہوجاتے ہیں، مگر میں روز نامہ تحریک اور پھر ندائے ملت کی تلخ یادوں سے اس وقت چھٹکارہ نہیں پاسکتا تھا، اور دونوں اخباروں کی ذمہ داری کی وجہ سے پریس کے کاروبار کے ساتھ نا انصافی کا جرم کرچکا تھا، میرا کوئی بچہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ وہ مجھے فارغ کردے اور پریس کو سنبھال لے۔

            اور میں نے اخبار کی عیاشی 1990میں اسوقت کی جب حضرت دل نے ہتھیار ڈال دئے اور کارڈیا لوجی میں ڈاکٹر دویدی نے پیس میکر لگادیا، اور چھ مہینے تک ہر طرح سے آزما کر کہا کہ اب جائیے آرام کیجئے اور سب سے بڑا پرہیز ٹینشن اور چلنا ہے، جس کے لیے منور نے کہہ دیا کہ

            ع  زندگی ابلے ہوئے کھانے تلک تو آگئی

            ظہیر اقبال کے والد کے میرے اوپر بڑے احسان تھے اور میں احسان فراموشی کو سب سے بڑی گالی سمجھتا ہوں، ظہیر نے ضد کی کہ ان دونوں کی سرپرستی قبول کرلیجئے۔ اورجب میں نے پرہیز بتایا اور کہا کہ میں نے پریس بچوں کے سپرد کردیا ہے کہ وہ ٹینشن کا دوسرا نام ہے اور اخبار کا ٹینشن تو پریس سے بھی زیادہ ہے، اس کے جواب میں ظہیر اقبال نے یقین دلایا کہ آپ کو اگر ایک بات بھی ٹینشن کی محسوس ہو تو واپس آجائیے گا، اور انھوں نے دس سال تک کرکے دکھادیا کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہے اور جب میرا پیس میکر اپنی موت آپ مرگیا تو دوسرا پیس میکر لگا اور مجھے ہر رشتہ ختم کردینا پڑا۔

            اب چند برس سے جو کچھ ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اب پیس میکر کی عادت ہوگئی ہے اورذمہ داری صرف اتنی ہے کہ دن میں ایک مضمون لکھنا ہوتا ہے باقی وقت ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل، اور پوتوں پوتیوں کے ساتھ خوش رہنے کی کوشش، کیوں کہ 24 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور منہ سے یہ نہیں نکلتا کہ یہ یا وہ کیسے ہوگا؟

            میری بیوی نے ہر طرح صحت مند ہونے کے باوجود اپنے کسی بچے کو گود میں نہیں لیا تھا اگر اتفاق سے کوئی بچہ رویا تو جا کر اس کے پاس لیٹ گئیں اور اسے افطار کا وقت ہو تو افطارکرادیا، اور سحری کا وقت ہوا تو سحری کھلادی، اگر میں نے سفارش کی کہ گود میں لے لو تو ناگواری سے کہہ دیا کہ میں گود کے سخت خلاف ہوں، اب جبکہ عمر 84 سال سے بھی تین مہینے زیادہ ہوگئی تو ۳۱؍ جولائی کو ایک نوجوان ایک موٹی سی کتاب لیے ہوئے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور سلام کے بعد کتاب یہ کہتے ہوئے ہاتھ میں دی کہ یہ منور رانا صاحب نے بھیجی ہے، کتاب ہاتھ میں لی تو محسوس ہوا جیسے خوش حال گھرانے کا کھایا پیا بچہ ہو جو دیکھنے میں تو عام بچوں کی طرح صحت مند ہو مگر وزن دو گنا ہو، اوپر کا کور ہٹایا تو اندر کے صفحہ پر نظر پڑی، لکھا تھا:

            ادب اور بے پناہ عقیدتوں کے ساتھاپنے عہد کی تاریخ ساز شخصیت، جناب حفیظ نعمانی صاحب کی خدمت میں جن کی شخصیت کی ادبی جادوگری نے مجھے نثر لکھنے اور پڑھنے کی توفیق عطا کی۔ آپ کا نالائق بھتیجا

            دستخط) منور رانا  ۳۱؍جولائی،       (جاری(

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔