بابا کا بلڈوزر اب کس پر چلے گا؟

امام علی مقصود فلاحی

 اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت دوبارہ آنے پر بلڈوزر والوں میں خوشیوں کی لہر دوڑ پڑی ہے اور ہر وہ شخص جو بی جے پی کا نام لیوا ہے، جو بی جے پی سے سہمت ہے وہ بلڈوزر کی رٹ لگائے ہوئے ہے، اور ہر طرف یوگی آدتیہ ناتھ کو بلڈوزر والے بابا کے نام سے یاد کیا جارہا ہے کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ نے کئی مرتبہ اپنی ریلی میں بلڈوزر کا نام لیا تھا، اور کہا تھا دس مارچ کے بعد پھر بلڈوزر چلے گی، جسکی وجہ سے بہت سی جگہوں پر بھی یوگی آدتیہ ناتھ کی ریلی کو بلڈوزر کے ذریعے کیا گیا تھا اور انکو بلڈوزر والے بابا کا خطاب دیا گیا تھا۔

اب چونکہ اتر پردیش میں دوبارہ یوگی حکومت آچکی ہے اسی وجہ سے ہر جگہ بلڈوزر کا پرچار کیا جا رہا ہے اور خوشی کے مارے جو جشن منایا جارہا ہے اس میں بھی ڈوبلیکٹ بلڈوزر کا استعمال کیا جارہا ہے، ہر شخص بلڈوزر لیے کھڑا نظر آرہا ہے اور اسکے ساتھ تصویر لیتے ہوئے نظر آرہا ہے۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ بابا کا بلڈوزر تو آ چکا ہے لیکن یہ بلڈوزر چلے گا کس پر؟ اور بلڈوزر کا جو اتنا چرچا کیا جا رہا ہے اسکا پس منظر کیا ہے؟ کہیں یہ بلڈوزر ہندو مسلم کے درمیان تفریق کرنے کے لئے تو نہیں چلے گا؟ کہیں یہ بلڈوزر مسجد مدرسوں کے زمینوں پر تو نہیں چلے گا؟ کہیں یہ بلڈوزر مسلم رہنماؤں پر تو نہیں چلے گا؟ کہیں یہ بلڈوزر دہشتگردی اور غنڈہ گردی کو بڑھاوا دینے کے لئے تو نہیں چلے گا؟  کہیں یہ بلڈوزر کسی اور بابری مسجد مسجد پر تو نہیں چلے گا؟ کہیں یہ بلڈوزر کسی اور مسلم کالج پر تو نہیں چلے گا؟

ایسے بے شمار سوالات ہیں جو معصوموں کے اذہان کو سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں، ایسے بے شمار سوالات ہیں جو مسلمانوں کے اچھے خاصے ذہنوں کو گندگی سے روند رہے ہیں۔

کیونکہ اس بلڈوزر کے پس پردہ مختار انصاری اور عتیق احمد جیسے لوگوں کا نام‌ بھی لیا جا رہا ہے، کہ جس طرح مختار انصاری کے قریبی ساجد صدیقی کے میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل پر بلڈوزر چلایا گیا ، جس طرح عتیق احمد کے آفس اور انکے بھائی اور رشتے داروں کے گھروں کو زمیں بوس کیا گیا، کیا اسی طرح دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھی تو نہیں ہوگا، جس طرح جوہر یونیورسٹی کی زمین کو ہڑپ لیا گیا، کیا اسی طرح کہیں دوسرے مسلم کالج یا یونیورسٹی کی زمین پر بھی نشانہ تو نہیں بنانا جاے گا؟

میرے خیال سے یہ بلڈوزر ہر اس جگہ چلے گا جہاں مسلمانوں کا ہی نقصان ہوگا، کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ کی جو سیاست ہے وہ سیاست اسی پر مبنی ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو گھر واپسی کیا جاے؟ کس طرح انھیں نقصان پہنچا کر دوسرے نمبر کا شہری بنایا جائے، کس طرح مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کیا جاے، کس طرح انہیں آگے بڑھنے سے روکا جائے۔

کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس بات سے بیحد خوف ہے کہ اگر کہیں مسلم آبادی بڑھتی چلی گئی اور انکے بچے درس و تدریس میں، پڑھائی لکھائی میں آگے چلے گئے تو وہ دن دور نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا صفایا ہو جائے، وہ دن دور نہیں کہ بی جے پی کے اصولوں پر پانی پھر جائے، اسی لئے بابا جی  ڈرے ہوئے ہیں اور بلڈوزر چلانے کی باتیں کر رہے ہیں‌۔

رجحان کے مطابق یہ بلڈوزر مسلمانوں پر ہی خاص طور سے چلنے والا ہے، کیونکہ اگر دوسری قوموں پر بھی چلنا ہوتا تو آج منظر عام اسد اویسی کی کار پر گولی نہیں چلتی، اگر یہ بلڈوزر ہر مافیا کے لئے ہوتا تو ہاتھرس جیسا سانحہ پیش نہ آتا، اگر یہ بلڈوزر انصاف پر مبنی ہوتا تو جبر دستی رام مندر کو تعمیر نہ کیا جاتا، اگر یہ بلڈوزر عام ہوتا تو ظالم کے ہر گھر پر چلتا۔

اگر یہ بلڈوزر واقعی سچائی پر مبنی ہوتا تو یوگی آدتیہ ناتھ کی زبان سے کبھی یہ بات نہ نکلتی کہ بات سے نہیں مانیں گے تو گولی سے تو مان ہی جائیں گے۔

 اسی وجہ سے آج بے شمار لوگ بلڈوزر والے بابا سے سہمے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ بلڈوزر کسی کی جان نہ لے لیوے۔

قارئین! کیا ہی اچھا ہوتا کہ بابا جی بلڈوزر کی جگہ کوئی اور نعرہ لگا لیتے، ترقی یا تعلیم کا نعرہ لگا لیتے، لیکن نہیں یوگی جی نے ایک ایسا نعرہ اپنایا جو بابا جی کو بحیثیت ایک چیف منسٹر اور ایک سیکولر اور ڈیموکریٹک ملک میں زیب نہیں دیتا۔

آج اتر پردیش میں تعلیمی نظام بالکل ٹھپ پڑ چکا ہے، ترقی کا نام و نشان مٹ چکا ہے، نوجوان ڈگریاں لیکر مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انھیں کو نوکری دینے کے لئے تیار نہیں ہے، نہ جانے کتنے سرکاری عہدے یونہی خالی پڑے ہیں لیکن اس پر کسی کو بٹھایا نہیں جا رہا ہے، لیکن یوگی جی ان خالی عہدوں کی بات نہیں کریں گے کیونکہ اگر وہ خالی عہدے کسی دوسری پارٹی یا کسی دوسری قوم یا سماج کے ہاتھ لگی تو انکی جگہ خالی ہوسکتی ہے۔

آج یوگی حکومت وکاس اور ترقی کی بات اور لوگوں کو انکے حقوق دینے کی بات نہیں کر رہی ہے بلکہ انہیں لالچ میں پھنسا رہی ہے۔ کیونکہ اگر لوگوں کو انکا حق دے دیا جائے گا تو یوگی بابا کی جگہ خالی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاے گا،  اسی لیے حق کی بات مساوات کی بات بابا کی زبان سے کبھی نہیں نکلے گی۔

 صرف عورتوں کو ہی الیکشن کے وقت تھوڑا راشن پانی دے کر اور انھیں پھسلا کر ان سے ووٹ لے گی، یعنی کہ آج کے وقت بھولی بھالی عوام  کو صرف لالچ دیا جارہا ہے، حق دینے کی باتوں سے باز رکھا جارہا ہے، اور اسی لالچ میں آکر یہ بھولی بھالی عوام بھٹک جاتی ہے اور اسے اپنا جانشین بنالیتی ہے۔

 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بابا جی بلڈوزر کے بجائے کوئی اور نعرہ لگاتے، تعلیم و ترقی کا نعرہ لگاتے۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا  کہ لوگ آج بابا کو بلڈوزر والے بابا کے بجائے ترقی والے بابا یا تعلیم والے بابا یا حق و صداقت والے بابا کے نام سے یاد کرتے۔

بہر حال اب جب بابا جی نے بلڈوزر کا نام لے ہی لیا ہے اور بلڈوزر والے بابا کا خطاب حاصل کر ہی لیا ہے تو آج فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں بلکہ یہ سوال کرتا ہوں کہ ذرا آپ ہی بتائیں کہ اب یہ بلڈوزر والے بابا اپنی بلڈوزر کس پر اور کہاں چلائیں گے؟

کیا یہ بلڈوزر ذات پات اور مذہب کے مابین چلائیں گے؟ یا پھر واقعی دہشتگردوں کے خلاف چلائیں گے؟ فیصلہ آپ کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔