فتاوی شامی کا مختصر تعارف

محمد ناظم القادری جامعی

(دارالعلوم منظر اسلام شاہ پور نگر حیدرآباد)

یوں تو بے شمار ائمہ وفقہاے کرام نے اپنی تصانیف سے فقہ کے گیسو سنوارے ہیں,اورخداے برتر وبالا کا بےپایاں شکر واحسان ہے کہ ایسی ہستیوں سے ہمیں نوازاہے, جنھوں نے فقہ کے زلف برہم سنوارے ہیں،جنھوں نے اسلام کو دائمیت دی، جھونپڑیوں میں رہ کربڑےبڑےکج کلاہوں کو للکارا، اندھیرے گھروں میں بیٹھ کر دنیا کو اسلام کی روشنی دکھائی، ان کے مسائل حل کیے اور ان کی تاریک راہوں کو  شریعت کے ابدی اصول کی روشنی سے منور ومعطر کیا۔

انہی مقدس اور اولو العزم ہستیوں میں علامہ شامی محمد امین بن عمیر المعروف بابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہمایوں ہے۔ آپ نے اپنی حیات مستعار کا لمحہ لمحہ دین متین کی خدمت اور اشاعت وترویج کے لیے وقف رکھا اور تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں کارہاے نمایاں انجام دیا اور متنوع علوم میں انتہائی قیم اور قابل فخر کتابیں، حواشی اور شروحات کو زیور تصنیف سے آراستہ وپیراستہ فرمایا۔یوں توآپ کی ہر تصنیف قبولیت کی نگاہ دیکھا جاتا ہے لیکن ردالمحتار کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ردالمحتارنصف النہار کے سورج پر شہرت میں فوقیت حاصل کرچکی ہے۔یہ مشہورزمانہ کتاب ہے، دنیاے سنیت کی کوئی دارالافتاء اس کتاب سے خالی نہیں ملے گا۔

علامہ شامی المعروف ابن عابدین متوفی1252ھ اس قیمتی تصنیف کونے 12/جلدوں میں مرتب کرکے عالم اسلام کے سامنے پیش کیا، جسے فتاوی شامی بھی کہاجاتا ہے۔یہ فتاوی شامی درحقیقت علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الدرالمختار”کی شرح ہے اور الدرالمختار علامہ تمر تاشی رحمۃ اللہ علیہ کی” تنویر الابصار "کی شرح ہے۔

ردالمحتار پر امام وعشق ومحبت اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے انتہائی مفید تحقیقی حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ جو جد الممتار کے نام سے مشہور ہے۔ ردالمحتار اس وقت فقہ حنفی میں سب سے مقبول اور مستند مجموعہ ہے جس میں متقدمین ومتاخرین کے اقوال کا نچوڑ آگیا ہے، صاحب اتقان کے لیے صرف فتاوی شامی کو دیکھ کر فتوی دینا درست ہے۔

اس کتاب کو لکھنے کی وجہ

علامہ شامی خود تحریر فرماتے ہیں:یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب متاخرین فقہا کی اکثریت ایک دوسرے کی کتابیں نقل کرنے میں مصروف تھی، اور اکثر اس میں سہواور خطا  واقع ہوئے ، جو ان میں سے کسی سے پہلی بار صادر ہوئی تو آپ نے کمال ہمت اور جہدمسلسل کے ساتھ فقہی اقوال کو ان کے اصول کی روشنی میں دیکھا اور متقدمین کی طرف رجوع کرکے ان کی امہات الکتب کے ساتھ موازنہ اور مقابلہ کیا اس طرح جہاں کہیں بھی بھول اور خطا کا احساس ہوا اس کاازالہ فرماکر راہ صواب کو اختیار کیا، آپ سے قبل متاخرین فقہا میں سے کوئی بھی اس مقام پر فائز نہیں ہوسکا۔

آپ نے شیخ سعید حلبی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس درمختار کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے شیخ کے حکم اور اجازت ہی سے "ردالمحتار”کی تالیف کا آغاز کیااورمسلسل کئی سال تک بلکہ دم وصال تک اس پر کام جاری رکھا۔ چناں چہ ڈاکٹر ابوالیسر کی بیان کردہ اختصار پیش خدمت ہے:”ابن عابدین نے باب الاجارہ سے اپنے حاشیہ کا آغاز کیا اور آخر تک اسے پہلے مکمل کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ عموما فقہ حنفی کی مبسوط کتب جیساکہ فتح القدیر وغیرہ باب الاجارہ تک مکمل ہوسکیں ،بعدازاں یاتو مؤلف کو پیام اجل آپہنچا، یا پھر شیخ اور استاد گرامی مرتبت کا وصال ہو گیا اور وہ  تشنہ تکمیل کام رہا تو آپ نے فرمایا ان شاءالله العزیز میری یہ کتاب "الاجارۃ”سے آخر تک مکمل ہونے کے سبب اس نقصان اور کمی کو پوری کردے گی، اگر موت نے مجھے مہلت نہ دی،اور اللہ کریم  سے مہلت عطاہوئی توپھر ابتدا سے میں خود اسے پایہ تکمیل تک پہنچاؤنگا۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، جب آپ آخر تک مکمل کرنے کے بعد ابتدا کی طرف آئے تو اسے باب الاجارہ تک مکمل کرنے کی فرصت نہ ملی اور آپ داعی اجل کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ،اور تکیمل کا شرف آپ کے صاحبزادے کو حاصل ہوا۔ آپ نے اس حاشیہ کی تسوید میں 1225/ھ سے لے کر 1230/ھ تک مکمل پانچ برس صرف کیےاور جہاں تک اس کی تبیض کا تعلق ہے، اسے چارمراحل میں مکمل کیا گیا جن پر مجموعی طور پر ربیع الثانی 1239ھ کے اواخر تک بائیس سال کی مدت صرف ہوئی اور انتھک شبانہ روز محنت کے ساتھ کام جاری رہا۔

پہلے مرحلے میں آپ نے کتاب الاجارہ سے کتاب الفرائض کے باب المخارج کے آخر تک دو سال اور نو ماہ میں مسودہ کی تبیض کا کام مکمل کیا، دوسرے مرحلے میں مقدمہ سمیت کتاب الطہارت سے لے کر کتاب الحج کے آخر تک تبیض کا کام کیا، جس کا آغاز ربیع الاول 1233ھ میں ہوا اور اختتام جمادی الاولی 1243ھ میں ہوا۔ پس یہ مرحلہ دس سال اور تین مہینے میں تکمیل پذیر ہوا۔ تیسرے مرحلے میں کتاب النکاح سے کتاب الوقف کے آخر تک تبیض کا کام کیا جو جمادی الثانی 1243ھ میں شروع ہوا اور سترہ شعبان 1249ھ میں اختتام پذیر ہوا۔ اس کی مدت تقریبا چھ برس اڑھائی مہینے ہے۔ اور چوتھے مرحلے میں کتاب البیوع سے لے کر شتی القضاء تک یعنی کتاب الشهادات سے تھوڑا پہلے تک کام کیا اور یہ شعبان 1249ھ سے لےکر آپ کے یوم وصال 21 ر بیع الثانی1252ھ تک تین سال اور پندرہ دن میں مکمل ہوا اور شتی القضاء کا تتمہ اور کتاب الشهادات سے لے کر باب الہبہ کے آخر تک باقی رہا جسے آپ کے صاحبزادے سید علاء الدین نے آپ کی اپنی تسویدکی روشنی میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

منہج ابن عابدین

علامہ شامی رحمۃ اللہ نے کچھ خاص چیزوں کا اہتمام فرمایا ہے۔
1. درمختار میں آپ نے اصل مراجع کی طرف رجوع کا التزام کیا ہے اور ساتھ ہی دیگر کتب سے ان کی تائید اور اثبات کا اہتمام کیا تاکہ قیود وشرائط میں سے کوئی نہ رہ جائے۔

وقوع پذیر ہونے والے مختلف واقعات وحوادث، فوائد وابحاث، نکات ،مشکل مقامات کا حل نئے مسائل کے استخراج اور اہم ترین مسائل کی وضاحت اور اضافہ کابھی اہتمام کیا ہے۔

مختلف اصحاب حواشی کی جانب سے صاحب درمختار علامہ حصکفی پر کیے جانے والے بے محل اعتراضات کا ازالہ کیا، معترضین کی صواب نمائی کرکے صاحب درمختار کی اعانت فرمائی ہے۔

آپ نے حاشیہ میں ہر فرع کی نسبت اس کی اصل کی طرف کی ہے، اور ہرشئی کو حتی کہ حجج ودلائل اور مسائل کی تعلیلات کو بھی اپنےمحل کی طرف لوٹانے کا اہتمام کیا ہے۔

آپ نے اقوی، مفتی بہ اور قول راجح بیان کرنے میں خوب محنت سے کام لیا ہے۔

جو نئی چیز مؤلف کی طرف سے ہو اس کی طرف "نبہ علیہ”کے ساتھ اشارہ کیا ہے۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ الفاظ اور حروف کا اشارہ کثرت سے کیا ہے، تفصیل درج ذیل ہیں۔

"ح”یہ حلبی المداری کے حاشیہ کی طرف اشارہ کیا ہے جو در مختار پرلکھی گئی ہے۔

"ط”یہ درمختار کے حاشیہ کی طرف اشارہ ہے۔

"المصنف”اس سے مراد علامہ التمر تاشی الغزی صاحب تنویر الابصار ہیں۔

"والشارح”سےمراد علامہ علاؤالدین حصکفی صاحب درمختار ہیں۔

"المصدران الاصلیان”مراد حلبی المداری اور طحطاوی کے حواشی ہیں جن کی طرف سابقہ حروف سے اشارہ کیا گیا ہے(ح اورط)

"فافہم”جب حلبی یا طحطاوی کے خلاف قول درست ،احسن یا زیادہ اہم تو آپ جسے حق جانتے ہیں اس پر پختہ اور مضبوط کلام فرماتے ہیں اور اس کی طرف اشارہ اپنے "فافہم”سے کرتے ہیں۔ اور بتقاضاے ادب صراحۃ اعتراض نہیں کرتے۔

"قولہ”مصنف یا شارح قول جہاں بھی حاشیہ میں بین القوسین نقل کرتے ہیں تو اس کی طرف اس کلمہ کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں۔

"ہ”اس کا معنی انتہا ہے۔

"ملخصا”اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عبارت کا علامہ شامی نے اختصار کیا ہے۔

"القاموس”یہ جہاں بھی لکھا ہے مراد المحیط الفیروز آبادی ہے۔

علامہ شامی ایسی اصلاحات کو بیان کیا ہے ہےجو قرائن سے مستنبط ہیں:

"القہستانی”یہ لفظ جہاں بھی موجود ہے مراد شرح النقایہ ہے۔

"فتال”یہ شیخ خلیل الفتال کے حاشیہ الدر کی طرف اشارہ ہے۔

"رحمتی”یہ علامہ مصطفی رحمتی کے حاشیہ الدر کی طرف اشارہ ہے۔

"ابن عبد الرزاق”یہ ان کے حاشیہ الدر المختار کی طرف اشارہ ہے۔

"شیخنا”یہ لفظ جب علامہ تمر تاشی ذکر کریں تو مراد علامہ خیر الدین رملی ہوتے ہیں اور یہی لفظ جب ابن عابدین شامی ذکرکرتے ہیں تو مرادعلامہ شیخ سعید حلبی ہوتے ہیں۔

"شمس الائمہ”یہ جب مطلق ہو تو مراد شمس الائمہ حلوانی ہیں۔

"فیہ نظر”یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے اور غلطی کا بھی احتمال ہے۔

"فتدبر”مؤلف کی خطا کی طرف اشارہ ہے جس کا ازالہ ابن عابدین نے کردیا ہے۔

"کان الانسب”اس عبارت سے علامہ شامی اولی اور ارجح کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

"الاشبہ”یعنی الاشبہ بالحق یا الاشبہ بالمنصوص علیہ یہ دلیل نقلی اور عقلی کے ساتھ الفاظ ترجیح میں سے ہیں۔

"المشائخ”اس سے مراد ماوراء النہر کے علاقہ کے فقہا ہیں۔

"اسماعیل”اس سے مراد علامہ اسماعیل الحائک ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اسماعیل نابلسی ہوں۔

"لاباس”سےمراداسے مقتضائے حال کے مطابق ترک کرنا اولی ہے۔

"علیہ الفتوی”اس سے مراد اسی پر فتویٰ ہے جسے علامہ شامی صاحب نے تحریر کیا ہے اور آپ کی راے میں یہی پختہ اور مضبوط ہے۔ (ملخصا:مقدمہ ردالمحتار مترجم)

 

تبصرے بند ہیں۔