بابری مسجد اور مولانا سلمان ندوی

محمد وسیم

 بابری مسجد، مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب ہے، یہ ہندوستانی ریاست اترپردیش کی بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے، بابری مسجد کو بابر رحمت اللہ علیہ کے حکم سے اس کے ایک درباری میر باقی نے ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے علاقے ایودهیا میں 1528ء میں تعمیر کرائی تھی، بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کئے گئے تهے۔ جن میں درمیانی گنبد بڑا تھا اور اس کے ساتھ دو چهوٹے گنبد تھے۔ اندرونی تعمیر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنی جا سکتی تھی۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کی ایک شاہکار تھی۔

 1949 میں بابری مسجد میں فجر کے وقت مورتیاں رکھ دی گئی گئیں تهیں ، سیکولر کے دعویدار کانگریس بھی مندر کی تعمیر ہی کے حق میں ہے، 6 دسمبر 1992 میں ہندو کارسیوکوں ، فوج اور حکومت کی سرپرستی میں بابری مسجد بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دی گئی اور سیکولر دنیا صبح سے شام تک تماشا دیکھتی رہی

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان میں فسادات شروع ہو گئے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے خوب سیاست کی، بابری مسجد کے ملبے سے بی جے پی نکلی جو آج برسرِ اقتدار ہے، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں ، بعض ہندو تنظیمیں تو دعوے کے ساتھ کہتی ہیں کہ ہم رام مندر بنائیں گے، کئی ہندو تنظیمیں اور لیڈران طاقت کے زور پر شاندار رام مندر تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

 بابری مسجد کی شہادت سے پہلے ہندءوں کا نعرہ تها "ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو”، آج نعرہ ہے "رام للا آئیں گے، مندر وہیں بنائیں گے”، اور "بچہ بچہ رام کا جنم دیکھے گا”، سبرامنیم سوامی، سمبت پاترا، ساکشی مہاراج و دیگر لوگوں کی رام مندر کی تعمیر کی حمایت میں درجنوں بیانات ہیں ، رام مندر کی تعمیر کے لئے الیکشن جیتنے والی بھارتی جنتا پارٹی پورے ہندوستان پر قابض ہے، مگر کسی میں دم نہیں ہے کہ رام مندر کو کھڑا کرنے کے لئے آگے بڑهے، آج بھی ہندو قوم اس بابر سے ڈرتی ہے، جس کی ماں اسے بابر (ببر، شیر) کہہ کر بلاتی تهی

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق ممبر اور معروف منافق مولانا سلمان حسینی ندوی نے مسلمانانِ ہند کو بابری مسجد سے دستبرداری کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان بابری مسجد کی جگہ اس کے بدلے دوسری جگہ پر زمین لے کر مسجد بنا لیں یا یونیورسٹی قائم کر لیں ، ہندو رام مندر کی تعمیر کر لیں اور رام کی پوجا کریں ، اس سے اتحاد پیدا ہوگا۔

 سلمان ندوی صاحب ! آپ کے بیان اور مشورے کو ہم کوڑے دان میں پهینکتے ہیں ، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بابری مسجد کی وجہ سے کروڑوں کا نقصان ہوا، سیکڑوں مارے گئے، ہزاروں جیلوں کے اندر آج بھی حکومت کی ظلم و زیادتی برداشت کر رہے ہیں ، جس قوم نے قانون کی دھجیاں اڑا کر مسلمانوں کی بابری مسجد کو منہدم کر دیا، اسی شیطان صفت قوم سے آپ مصالحت کی بات کرتے ہیں ، بابری مسجد کے حوالے سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ مسلمانانِ عالم بابری مسجد کی تعمیر سے کبهی دستبردار نہیں ہوں گے۔

قارئینِ کرام !

 شرعی اعتبار سے ایک بار تعمیر کی گئی مسجد قیامت تک مسجد ہی باقی رہے گی، کسی بھی صورت میں اس کی حیثیت ختم نہیں کی جا سکتی، قرآن پاک میں ہے کہ مساجد صرف اللہ کے لئے ہیں ، اس لئے اس میں غیر اللہ کی عبادت نہیں کی جانی چاہیے، بابری مسجد کے اندرونی تعمیر کی خصوصيت تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی دوسرے حصے میں آسانی سے سنی جا سکتی تھی، تو کیا آج سلمان ندوی شری شری روی شنکر سے جو خفیہ میٹنگیں کر کے بابری مسجد کا سودا کر رہے ہیں ، تو کیا اس سے ہندوستانی مسلمان بے خبر ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ سلمان ندوی صاحب !

 آپ کا منافقانہ رویہ پوری دنیا پر ظاہر ہو چکا ہے، بیان کیا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایودهیا کے مسلمانوں کے گھروں میں 25 دن تک چولہا نہیں جلا تها، مگر سلمان ندوی صاحب ! آپ اسی ظالم قوم کے ساتھ مسلمانوں کو بابری مسجد کے لٸے سمجھوتے کا مشورہ دیتے ہیں ، جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


3 تبصرے
  1. اکرام الہی کہتے ہیں

    مکرمی
    اگرچہ آپ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والا مواد مصنف کی ذاتی رائے ہوتی ہے آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
    لیکن کیا آپ کی ویب سائٹ پر اگر ایک معروف عالم اور مشہور دینی خانوادہ سے تعلق رکھنے والی ہستی کے متعلق اس طرح لکھا جائے کہ
    "معروف منافق”
    ہم آپ کی رائے کو کوڑے دان میں پھینکتے ہیں (یہ ایک حد تک انگیز بھی کیا جاسکتا ہے)
    "مولانا سلمان ندوی کا منافقانہ رویہ پوری دنیا میں ظاہر ہوچکا ہے ”
    میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ آپ اس سے متفق ہیں یا نہیں اور نہ یہ مطلب ہے کہ آپ نے تنقیدی تحریر کیوں شائع کی آپ ضرور ان کے خلاف لکھی گئی تحریر شائع کریں لیکن اس طرح کے الفاظ مثلاً (معروف منافق) وغیرہ جہاں تک میرا خیال ہے نامناسب ہے اور آپ کو اس پر تنبیہ کردینی چاہیے یا حذف کردینی چاہیے ورنہ اس طرح کی بداعتدالی سے (خدا نہ کرے کہ ایسا ہو) آپ کی ویب سائٹ کی ساکھ کو نقصان پہونچے گا امید ہے میں آپ کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہوسکا
    باقی دعا ہے کہ خدائے پاک آپ کو ترقی سے نوازے لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل کرے
    باقی معذرت خواہ ہوں

  2. عروج اقبال کہتے ہیں

    مکرمی
    اگرچہ آپ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والا مواد مصنف کی ذاتی رائے ہوتی ہے آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
    لیکن کیا آپ کی ویب سائٹ پر اگر ایک معروف عالم اور مشہور دینی خانوادہ سے تعلق رکھنے والی ہستی کے متعلق اس طرح لکھا جائے کہ
    "معروف منافق”
    ہم آپ کی رائے کو کوڑے دان میں پھینکتے ہیں (یہ ایک حد تک انگیز بھی کیا جاسکتا ہے)
    "مولانا سلمان ندوی کا منافقانہ رویہ پوری دنیا میں ظاہر ہوچکا ہے ”
    میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ آپ اس سے متفق ہیں یا نہیں اور نہ یہ مطلب ہے کہ آپ نے تنقیدی تحریر کیوں شائع کی آپ ضرور ان کے خلاف لکھی گئی تحریر شائع کریں لیکن اس طرح کے الفاظ مثلاً (معروف منافق) وغیرہ جہاں تک میرا خیال ہے نامناسب ہے اور آپ کو اس پر تنبیہ کردینی چاہیے یا حذف کردینی چاہیے ورنہ اس طرح کی بداعتدالی سے (خدا نہ کرے کہ ایسا ہو) آپ کی ویب سائٹ کی ساکھ کو نقصان پہونچے گا امید ہے میں آپ کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہوسکا
    باقی دعا ہے کہ خدائے پاک آپ کو ترقی سے نوازے لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل کرے
    باقی معذرت خواہ ہوں

  3. آصف علی کہتے ہیں

    مذہب میں بت پرستی تو بہت عام ہے، مگر جہانِ علم و فکر میں بھی ہم نے بڑے بڑے بت بنا دئیے ہیں، پھر ان بتوں کے مجاور بن کے بیٹھ گئے ہیں، قبروں کے پجاری دوچار لفظ یا کتابیں پڑھ بھی لیں تو ان کی ذہنی کیفیت و شعوری صلاحیتوں پہ مجال ہے کوئی فرق پڑ جائے، بلکہ اسی ضمن میں نئی قبر بنا لیتے ہیں ایک نیا بت تراش کے اسے پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان مجاورں کی نظر میں جو الفاظ اپنے بتوں کے ان کی نظر سے گزرے ہیں وہ تمام کے تمام آسمانی صحائف سے ماخوذ ہیں، اور وہ فکری میدان میں حرف آخر ہیں۔ ہم اس بت پرستانہ و غلامانہ روش سے کب بیدار ہوں گے۔
    عروج اقبال صاحب،اس تحریرکوپڑھنےکےبعدامیدہےکہ شخصیت کابت جوآپ کےدل ودماغ کومسخرکیےہوئےہے،پاش پاش ہوجائےگا.

تبصرے بند ہیں۔