بابری مسجد تنازعہ: اسپین کا سبق یاد رکھیں مسلمان!

ڈاکٹر عابد الرحمن

خبر ہے کہ امت کے کچھ لوگ جن میں ایک معروف مفکردانشور اورعالمی شہرت یافتہ عالم دین بھی شامل ہیں  بابری مسجد تنازعہ کو کورٹ کے باہر حل کر نے کے لئے کوشاں ہیں ۔بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہوجانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ خبر ہے کہ اس ضمن میں میٹنگیں بھی ہو چکی ہیں ۔ خبر ہے کہ مولانا محترم نے مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر نے کی تجویز پیش کی ہے اور اس کے لئے فقہ حنفی کا حوالہ بھی دیا ہے اور سعودی عرب کی بھی مثال پیش کی ہے کہ وہاں شہری بنیادی ڈھانچے کے لئے مساجد کی جگہ تبدیل کی جاتی ہیں ۔ مولانا محترم بھی اور ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت بھی حنبلی نہیں ہے بلکہ حنفی فقہ کو فالو کرتے ہیں ۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر بابری مسجد معاملہ میں فقہ حنبلی کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ہم جس فقہ کو فالو کرتے ہیں اس میں اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ توکیا ہمارے مذہب میں اس کی اجازت ہے کہ ہم ہماری کسی ضرورت کے تحت، یا کسی پسندیدہ فیصلے کی چاہ میں یا اپنی مطلب براری کے لئے ایک فقہ میں رہتے ہوئے دوسرے فقہ کو بھی فالو کر سکتے ہیں ؟

اگر ایسا ہوسکتا ہے اور اس کے مطابق مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے تو بھی مذکورہ معاملہ میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کی منتقلی کسی مندر کی تعمیر کے لئے ہو سکتی ہے؟اور اگر یہ ہو سکتا ہے تو اسی وقت کیوں نہیں کرلیا گیا جب یہ تنازعہ معرض وجود میں آیا تھا۔ اس وقت کیوں نہیں کر لیا گیا جب اس کے ذریعہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی روٹیاں سینکنے کی کوشش کر رہی تھیں ،اس وقت کیوں نہیں کر لیا گیا جب سنگھ نے اپنی رام جنم بھومی تحریک میں شدت لائی تھی، اس وقت کیوں نہیں کر لیا گیا جب اڈوانی جی نے سومناتھ سے رتھ یاترا نکال اس معاملہ کو پورے ملک میں پھیلا دیا اور ہر ہندو کے دل میں اسے اچھی طرح بٹھا دیا، اسی طرح اس مسئلہ پر برپا ہوئے فسادات سے پہلے یعنی ہزاروں مسلمانوں کے قتل اور لوٹ مار سے پہلے ہی ایسا کیوں نہیں کرلیا گیا۔ اوربی جے پی کے دور اقتدار سے پہلے ہی کیوں نہیں کر لیا گیا ؟

اگر بابری مسجد کی موجودگی میں ہی فقہ حنبلی کے سہارے مسجد کو کسی اور جگہ منتقل کر نے کا سمجھوتا کر لیا جاتا تو وہ بھی ہمارے لئے کسی عزت کا سوداتو نہ ہوتا لیکن اس طرح ذلت آمیز بھی نہ ہوتا۔اب جبکہ بابری مسجد شہید کردی اور اس کی ملکیت کا مقدمہ بھی عدلیہ میں ہے اور وہ بھی سپریم کورٹ میں اور آخری مرحلہ میں ہے تو ایسے میں اس اچھل کود کا کیا مطلب ہے؟

اب تو یہی ہونا چاہئے کہ اس معاملہ کو کورٹ میں ہی فیصل ہونے دیا جائے چاہے وہ فیصلہ کچھ بھی ہو۔ اب اس وقت کورٹ کے باہر کوئی سمجھوتا اور خاص طورسے جو اس طرح بابری مسجد کی منتقلی یا اس سے دستبرداری کی کسی صورت میں ہو ہمارے لئے انتہائی ذلت آمیز ہو گا۔ اس سے پہلے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے بھی بابری مسجد کو سرایو ندی کی دوسری طرف شفٹ کر نے کی بات کی تھی اور انہوں نے بھی اس کے لئے سعودی عرب کا حوالہ دیا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک کے مسلم لیڈران سے ہوئی بات چیت سے میں یہ سمجھا ہوں کہ وہ بھی اس ضمن میں ( بابری مسجد کو سرایو ندی کے اس پار شفٹ کرنے میں ) مثبت رویہ رکھتے ہیں ۔ تو اب جو مولانا محترم بول رہے ہیں کہیں وہ اسی سلسلے کی کڑی تو نہیں ؟جن لیڈروں سے سوامی نے بات چیت کی تھی ان میں مولانا بھی شامل تو نہیں تھے؟ایک سوال اور ہے کہ جو مولانا بول رہے ہیں وہ ان کے دل کی بات ہے یا سوامی و سنگھ کے دل کی؟

 آخر مولانا مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں یا سنگھ کی؟ اس سارے معاملہ میں نقصان دراصل مسلمانوں کا ہی ہے کہ اس ضمن میں سوامی نے اپنی بات صرف بابری مسجد تک ہی محدود نہیں رکھی تھی بلکہ انہوں نے کاشی اور متھورا میں بھی دو مساجد کی جگہ مندر تعمیر کر نے کی بات کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مغل دور میں چالیس ہزار مندر توڑے گئے تھے ہم وہ سب نہیں مانگ رہے بلکہ صرف تین ہی مانگ رہے ہیں ۔ تو کیا مولانا محترم مسجد شفٹنگ کی منطق ایودھیا کے بعد کاشی اور متھورا بھی لے جائیں گے؟

مسجد معاملہ میں مولانا محترم نے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کی جگہ ہندوفریق کے حوالے کردینی چاہئے اور اس کے بدلے ان سے یہ معاہدہ کرلیا جائے کہ اب آئندہ کسی مسجد مدرسے یا قبرستان کے بارے میں کوئی اور مطالبہ نہیں ہوگا۔ یہ دراصل وہی بات ہے جو اسپین میں عیسائی افواج کے ذریعہ مسلمانوں کے آخری قلعہ غرناطہ کے محاصرے کے وقت کہی گئی تھی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کا سپہ سالار موسیٰ بن ابی غسان آخری سانس اور آخری سپاہی تک لڑنا چاہتا تھا چاہے انجام کچھ بھی ہو لیکن دربار میں بیٹھے بڑوں نے اسکی بات نہ مانی انہوں لڑ کر ہارنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے اور اسی طر ح میدان جنگ سے باہر عیسائیوں سے صلاح کو ترجیح دی یہ کہتے ہوئے کہ امن ہوجانے کے بعد (عیسائیوں میں )اسلام کی تبلیغ و ترویج بہتر طریقے سے کی جاسکے گی۔ اور آخر کار فرڈیننڈ سے صلح کر لی گئی جس میں غرناطہ اس کے حولے کردیا گیا بدلے میں مسلمانوں سے مکمل آزادی اور ہر قسم کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا لیکن بہت ہی کم دنوں میں اس وعدے کی دھجیاں اڑادی گئیں اور اس کے بعد جو ہوا وہ انتہائی کربناک ہے، عیسائیوں نے مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ جن کی وجہ سے لاکھوں مسلمان اسپین چھوڑنے پرمجبور ہوگئے۔لاکھوں کاقتل عام کیاگیا اور لاکھوں عیسائی بن جانے پرمجبورکردئے گئے۔

اسپین میں مسلم امراء نے مراعات کی چاہ میں فرڈیننڈ سے صلح کی درپردہ سازشیں کی تھیں اور پھر بزدل حکمراں کو بھی اس کے لئے راضی یا مجبور کردیا تھا۔ لیکن صلح کے بعد وہ اپنے اس مقصد میں بھی کامیاب نہ ہو سکے تھے، قوم کا تو نقصان ہوا ہی تھا انہیں بھی کچھ مراعات نہیں ملی تھیں ۔ یہاں وطن عزیز میں بھی ان لوگوں کے وعدے پر یقین کرلینا حماقت کے سوا کچھ نہیں جن کی سیاست ہماری مخالفت، ہمارے خلاف اشتعال انگیزی، ہماری تاریخ سے کھلواڑ اور ہماری مساجد پر دعویداری کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ضروری ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں اسپین کے کربناک سبق کو ذہن میں رکھ کر ہی کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. محمد اسعد کہتے ہیں

    تکنیکی طور پر نهایت کم ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس مضمون میں سوائے چند نقاط کے.

تبصرے بند ہیں۔