بابری مسجد تنازعہ: ایک جلتا زخم

محمد شاہد خان

بابری مسجد کی تعمیر کب ہوئی؟ اس کی تعمیر کس نے کی؟ بابری مسجد کی تعمیر سے قبل وہ زمین کس کی ملکیت تھی؟ اس کی تعمیر سے قبل وہاں کیا تھا؟ ان سارے سوالات کے جوابات تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں لیکن آزادی سے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی بابری مسجد اپنی جگہ  موجود تھی اور اس میں بدستور نماز قائم تھی۔ دستور سازی کے وقت تمام مذہبی مقدسات کو علی حالہ تسلیم کیا گیا اورآئین میں ان کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن ہندستان میں آزادی سے قبل ہی فرقہ پرستی کی آندھی چلنے لگی تھی اور آزادی کے بعد ووٹ بینک کی سیاست نے اسے اورتوانا کردیا۔ فرقہ پرست طاقتوں کی مسلم دشمنی ہمیشہ ان کے لئے ایندھن کا کام کرتی رہی جس سے ان کے ایوانِ سیاست کے چراغ ہمیشہ روشن ہوتے رہے۔ رام کب پیدا ہوئے؟ کہاں پیدا ہوئے؟ یہ تاریخِ مجہول کا ایک حصہ ہے۔ ایودھیا میں کم از کم پندرہ جگہوں کو رام جنم بھومی کہا جاتا ہے لیکن خالص سیاسی مفادات کے تحت مسجد کا تالا کھولا گیا اور وہاں رام للا کی مورتی رکھی گئی اور بالآخر 6 دسمبر 1992 کو ہندتوا کے سیاسی ایجنڈے کے تحت بابری مسجد کو آستھا ( عقیدہ ) کا مسئلہ بناکر شہید کردیا گیا۔

بابری مسجد کی شہادت دراصل ایک مسجد کی شہادت نہ تھی بلکہ یہ دستور ہند کا قتل اور مسلم اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مستقبل پر ایک ضرب کاری تھی۔ ہندستانی مسلمانوں کے بے شمار جان ومال کا نقصان صرف بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ فسادات اور دہشت گردی کے نام پر مسلسل کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ بابری مسجد کی شہادت بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس لئے بابری مسجد کے حوالہ کردینے سے نہ امن وشانتی کی باد بہاری چلے گی اور نہ ہی مطالبات کا لا متناہی سلسلہ تھمے گا۔ آپ رعایت دیتے دیتے تھک جائیں گے لیکن ان کی فہرست کبھی ختم نہ ہو گی۔

 اکثر بابری مسجد تنازعہ کے سلسلہ میں دینی و فقہی استفسار کیا جاتا ہے کہ کیا مسجد کی جگہ منتقل کی جاسکتی ہے یا ایک بار جہاں مسجد تعمیر ہوگئی وہ جگہ تاقیامت مسجد کی ملکیت ہوجاتی ہے؟ شرعی دائرے کے اندر اس کے بہت سارے حل موجود ہیں لیکن ہمارے نزدیک بابری مسجد مسئلہ کو اس نقطہ نظر سے دیکھنا قطعی درست نہیں  ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں انسانی آبادیاں ہجرت کرتی رہتی ہیں یا آفات سماویہ سے گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں یا دنیا کے کسی مقام پر کوئی بڑی آبادی تبدیلئ مذہب کرلیتی ہے یا جب کہیں بڑی عمرانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو پرانی عبادت گا ہوں کو منہدم کرکے نئی عبادت گاہیں بنالی جاتی ہیں۔ یہ بالکل  الگ مسئلہ ہے اور بابری مسجد ایک الگ مسئلہ ہے اس تنازعہ کو فقہی نظریہ سے دیکھنا صحیح نہیں ہے۔

بابری مسجد ہندستانی مسلمانوں کے عزت وقار کا مسئلہ ہے۔ یہ ان کے اقلیتی حقوق کے تحفظ  اور دستور ہند کے عزت واحترام اور قانون کی بالادستی کا سوال ہے۔ اگریہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ بابری مسجد دوبارہ آباد نہیں ہوسکتی اور ہندؤں کی آستھا اس جگہ سے جڑی ہوئی ہے اس لئے وہ جگہ ہندؤں کو دے دینی چاہئے تو پھر اس کے لئے ہندؤں کو مسلمانوں سے درخواست کرنی چاہئے تھی، ان سے بھائی چارے اور محبت کے ساتھ مطالبہ کرناچاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی اغراض ومقاصد کے تحت بابری مسجد کا تنازعہ کھڑا کیا گیا اور آئین وقانون اوراخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسے شہید کردیا گیا۔ ورنہ مسلمانوں کی رواداری کی ایک شاندار تاریخ ہے جسے دیکھ کر دوسری قومیں رشک کر سکتی ہیں۔

ہم گفت وشنید کے انکاری ہرگز نہیں ہیں بلکہ اس کے مؤید ہیں لیکن گفت وشنید ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہیں اور "اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے” کے اصول پر ہوتی ہے۔ کیا پورا سنگھ پریوار اس بات کے لئے راضی ہے کہ آئندہ وہ بابری مسجد کے بدلے مسلمانوں کی کسی دوسرے مقدسات، مسجد ومدرسہ، تعلیم گاہ پر دست درازی نہیں کرے گا فسادات کا سلسلہ بند کردے گا دہشت گردی کے نام پر مسلمان نوجوانوں کو جیلوں میں نہیں ٹھونسے گا لو جہاد اور گئو کشی کے نام پر معصوموں کا خون نہیں بہائے گا کیا وہ مسلمانوں کو تعلیم میں اور نوکریوں میں رزرویشن دے گا اگر وہ اس کے لئے تیار ہے تو میں مسلم قوم سے گزارش کروں گا کہ وہ اس مسئلہ پر غوروخوض کرے اور اپنے بہتر مستقبل کو اختیار کرلے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں بابری مسجد کی سوغات پیش کرنے کی حماقت کی کیا ضرورت ہے؟ اس ملک میں عدلیہ موجود ہے اور وہ اقتدار اعلی  ہے، دستور ہند نے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی ہے اس لئے ہمیں عدلیہ میں کیس کی مضبوطی کے ساتھ پیروی کرنی چاہئے اور اس کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے۔

بہت سارے قومی مسائل کو لے کر ذاتی رائے اور اجتماعی رائے کے درمیان اکثر لوگ مغالطہ کا شکار ہیں۔ ذاتی رائے کیا ہوتی ہے؟ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی قومی مسئلہ میں ذاتی رائے یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنی جماعت میں یا اپنے بلاگ، آرگن یا شخصی اکاؤنٹ میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کردے۔ اگر اس مسئلہ سے متعلق مسلمانوں کی جماعت نے کوئی فورم یا کمیٹی تشکیل دی ہوئی ہے اور اس شخص کی رائے جماعت کی رائے کے مطابق ہوتی ہے تو وہ رائے اجتماعی رائے بن جاتی ہے اور پھر اس رائے کے اظہار کا حق بھی متعلقہ کمیٹی ہی دیتی ہیں جسے آج کل کی زبان میں ’ترجمان‘ کہا جاتا ہے لیکن اگر اس شخص کی رائے جماعت کی رائے کے مطابق نہیں ہوتی ہے تو پھر وہ رائے شخصی رائے کہلاتی ہے اور کوئی بھی شخص اپنی ذاتی رائے کااظہار اپنے فورم، ذاتی بلاگ، وال، آرگن یااکاؤنٹ پر دے سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جب کسی قومی مسئلہ میں کوئی شخص فریق مخالف سے گفتگو کرتا ہے  تو پھر اس کی حیثیت ایک شخص کی نہیں رہ جاتی بلکہ اس کی حیثیت قوم کے ایک فرد اور نمائندہ کی ہوجاتی ہے جہاں سے قوم کی عزت وناموس اور اجتماعی مصالح وابستہ ہوتے ہیں لہذا کسی بھی قومی مسئلہ میں فریق مخالف سے گفتگو کا حق بھی صرف اسی شخص کا ہوسکتا ہے جسے اس کے اختیارات دیئے گئے ہوں۔ مثال کے طور پر کسی ڈیبیٹ میں ٹیلی ویژن پر جب مختلف افراد پر مشتمل ایک پینل بیٹھتا ہے تو اس پینل میں موجود افراد اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں اور وہ اس وقت اپنی جماعت یا پارٹی کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ شخصی حیثیت سے صرف موضوعات کے ماہرین کو بلا کر ان سے رائے لی جاتی ہے۔ اس وقت بھی وہ افرادراصل اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ اپنے قوم کی نمائند گی کررہے ہوتے ہیں۔

بعینہ یہی مسئلہ بابری مسجد تنازعہ کا بھی ہے یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس مسئلہ میں مختلف ملی تنظیمیں مل کر کوئی فارمولہ طے کرسکتی ہیں اور فریق مخالف سے گفت وشنید کے لئے اپنا نمائندہ منتخب کرسکتی ہیں اور اس طرح کے مسائل میں منتخب نمائندہ ہی گفتگو کرنے کا مجاز ہوسکتا ہے۔ اور اگر کسی شخص کے عمل سے اجتماعی مصالح کو نقصان پہونچ رہا ہے تو گویا وہ قوم کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہورہا ہے۔

پچھلے چند دنوں سے یہی مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے قومی انتشار کا جو عالم ہے وہ ایک المیہ ہے۔ ہم بڑی آسانی سے دشمن کا آلہ کار بن جاتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔ دشمنوں کے دئے ہوئے زخم کیا ناکافی تھے کہ اب اندر سے گھاؤ پیدا کیا جارہا ہے۔

اب دل کی طرف درد کی یلغار بہت ہے

دنیا مرے زخموں کی طلب گار بہت ہے

علماء ملت کا قیمتی سرمایہ ہیں، ان کی آبرو ہیں۔ عوام شاید آج بھی ان سے مسیحائی کی امید رکھتی ہے لیکن جس طرح علماء اپنا وقار مجروح کررہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ عوام ان کے خلاف اسی طرح بغاوت کر بیٹھے جس طرح یورپ کی پرجلال نشاۃ ثانیہ سے قبل کلیسا کے خلاف وہاں کی عوام نے کیا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔