بابری مسجد مسئلہ: ہم زیادہ ذمہ دار ہیں !

عالم نقوی

دہلی کے مشہور کانسٹی ٹیوشن کلب میں گاندھی جینتی کے موقع پر سبھی مذاہب کے لیڈروں نے شرکت کی اور با لا تفاق یہ خیال ظاہر کیا کہ ’باہمی گفتگو سے اب بھی اجودھیا مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے ‘!سوامی اگنی ویش، ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک، ڈاکٹر کمل ناتھ، پنڈت وسنت گاڈ گل، ملند کمبلے اور عارف محمد خان نے ہندو مسلم دونوں قیادتوں کو بابری مسجد شہادت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ’ڈائلاگ ‘ ہی کو مسئلے کا قابل قبول حل بتایا۔ سب اس پر متفق تھے کہ فرقہ وارانہ فسادات اور جان و مال کی بربادی کے سوا ابھی تک اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے لیکن سب چاہیں تو محبت سے  مل بیٹھ کے یہ الجھی ہوئی ڈور اب بھی سلجھائی جا سکتی ہے !

اصولی طور پر تو ہم بھی اس (مندرجہ بالا )خیال سے متفق ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس کے آثار بظاہر مفقود نظر آتے ہیں اِلَّا یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی ٰ غیب سے کوئی راستہ نکال دے۔

 ہندو مسلم مسئلے کی شروعات ہماری طرف سے بھلے ہی نہ ہوئی ہو لیکن جب ہمارے دشمنوں نے، یا، ہم قرآنی اصطلاح میں کہیں کہ ’ اہل ایمان کے دائمی دشمنوں ‘ نے، یہ مسئلہ پیدا کر دیا تو ہماری قیادت نے بھی  بالعموم عقل و حکمت سے کام نہیں لیا  جس کی وجہ سے پہلے تو بابری مسجد کی بے حرمتی،  تالہ بندی  اور شہادت کی نوبت آئی اور کچھ دنوں بعد  جب  ایک بار مسئلہ باعزت طریقے سے حل ہونے کو آیا تو ہمای اسی  بے بصری  اور بے حکمتی نے، معاملات پھر  بگاڑ دیے۔

پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے اپنے ایک چشم کشا حالیہ مضمون میں اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ اگر بہت دور نہ بھی جائیں اور صرف پچھلے سو برسوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو  قیادت کے دامن پر چار سنگین  غلطیوں کے داغ بہر حال نمایاں نظر آئیں گے۔

 پہلی غلطی پاکستان کی تشکیل کا فیصلہ تھاجس میں اگر چہ برادرانِ وطن کا بھی حصہ ہے لیکن اس کے نقصانات تو صرف ہمیں ہی  (آج تک ) بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ ہماری قیادت کی دوسری بڑی غلطی کا تعلق بابری مسجد کی بازیابی کی تحریک سے ہے جس کو ذرا تفصیل سے بتانا ضروری ہے۔ 1990 میں جب مولانا سید ابو ا لحسن علی ندوی، مولانا عبد ا لکریم پارکھ اور یونس سلیم صاحبان اور برادران وطن کی جانب سےچندر شیکھر، وی پی سنگھ، کانچی پورم کے شنکر آچاریہ، آندھرا پردیش کے گورنر کرشن کانت ( جو بعد میں نائب صدر جمہوریہ بھی ہوئے ) شنکر آچاریہ آنند سرسوتی اور جین لیڈر آچاریہ سوشیل منی سب ایک حل پر متفق ہو گئے تھے۔ جسے، سنگھ پریوار  نے نہیں، ہمارے لکیر کے فقیر علما اور نام نہاد بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے  سبوتاج کر دیا۔ وہ’حل ‘ جس پر سب متفق ہو گئے تھے، یہ تھا کہ ؛

’’۔۔بابری مسجد اپنی جگہ پر برقرار رہے گی (یعنی دوبارہ اسی جگہ تعمیر کر دی جائے گی جہاں  اور جس حالت میں وہ ۶ دسمبر 1992 کو موجود تھی ) مورتیاں وہاں سے ہٹالی جائیں گی اور مسجد کو نماز کے لیے کھول دیا جائے گا (یعنی مسجد کی ۱۹۵۲ سے قبل کی حیثیت من و عن بحال ہو جائے گی )۔ مسجد کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا۔ اس کے بعد لوہے کی ریلنگ ہوگی، ضرورت پڑنے پر جس میں کرنٹ بھی دوڑایا جا سکے گا۔ ۔اس کے بعد۔ ۔بابری مسجد وقف کی زمین پر ہندو  اپنا ایک رام مندر تعمیر کر لیں گے اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ ۔‘‘

 مولانا محسن عثمانی ندوی کے لفظوں میں ’’جامد الفکر اور بے شعور متعصب علما ‘‘ نے اس پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ان بے بصر لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم وقف کی ایک انچ زمین بھی رام مندر کو نہیں دے سکتے !‘‘۔۔’’آج  بابری مسجد کا وجود ختم ہو چکا ہے (اور مستقبل قریب میں بظاہر ) اس کی تعمیر کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ کوئی بتائے کہ آخر یہ خون کس کی گردن پر ہے ؟ ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔