بات گجرات الیکشن کی

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

ہاں اسی گجرات کی بات ہورہی ہے، جس کی ترقی کا ٹریلر دکھاکر 2014 کا انتخاب جیتا گیاتھالیکن اب یوپی میں میئر کی چودہ سیٹوں پر ملی کامیابی کوگجرات میں بھنانے کی کوشش کی گئی۔  کیوں ؟اس وجہ سے تونہیں کہ گجرات کے لوگوں کا بھاجپا میں اعتماد کم ہوا ہے؟۔ اس کااندازہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات سے ہوتا ہے۔ عوام نے ضلع پنچایت کی 31میں سے 23 اور تعلقہ پنچایت کی 139 میں سے 113نشستوں پر کانگریس کو کامیاب کیا تھا۔ وہاں کے لوگ گجرات کے ترقیاتی ماڈل کی حقیقت سے واقف ہیں ۔ گجرات حکومت میں مودی کی کابینہ کا حصہ رہے سابق وزیر سریش مہتا کاکہنا ہے کہ گزشتہ 13 برسوں میں گجرات کے قرض میں 33 گنا اضافہ ہوا ہے۔ مہتا کے مطابق 2004 میں ریاست پر 4 سے 6 ہزار کروڑ کا قرض تھا، جو اب بڑھ کر 198 کروڑ ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے 22 سالہ دور حکومت میں ریاست قرض کے بوجھ میں دبتی چلی گئی جبکہ کسانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں پر اس کی سب سے زیادہ عنایتیں ہیں ۔ دی وائر ڈاٹ کام کو دےئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا۔ 2006-07 میں توانائی وپیٹرو کیمیکل سیکٹر میں دی جانے والی 1873 کروڑ کی چھوٹ دس سال بعد 4471کروڑ روپے ہوگئی۔ جبکہ غریبوں کو خوراک فراہمی کے بجٹ میں 130 کروڑ سے گھٹا کر محض 52 کروڑ کردیا گیا۔ ٹائمز آف انڈیا میں 22 مارچ 2016 کو چھپی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اپنی عمر کے لحاظ سے 41.6 فیصد بچے اسٹنٹنگ کے شکار ہیں جن میں سے 18.3 فیصد بچے کم خوراکی سے بری طرح متاثر ہیں ۔

گجرات کے کسانوں کی بات کی جائے تو اس میں پاٹیدار وں کے علاوہ کولی، دربار، بھارواڈ، اہیر اور راٹھڈیا راجپوت وغیرہ شامل ہیں۔ سوراشٹر اور جنوبی گجرات میں ان کی بڑی تعداد ہے۔ پاٹیداروں کے علاوہ یہ پسماندہ ذاتیں بھی بی جے پی سے ناراض ہیں ۔ ایسا مانا جاتاہے کہ سوراشٹر اور جنوبی گجرات (جس میں 12 ضلع آتے ہیں ) میں جس کو کامیابی ملتی ہے، ریاست پر اسی کا قبضہ ہوتا ہے۔ مونگ پھلی اور کپاس کی زیادہ ترکھیتی اِس ذات کے لو گ کرتے ہیں۔ 2014 کے الیکشن میں نریندر مودی نے وعدہ کیاتھا کہ کپاس کی سپورٹ قیمت1400 روپے کونئٹل کردیں گے، لیکن کپاس کسانوں کوبہت کم قیمت میں بیچنے کو مجبور ہونا پڑا، تب انہوں نے اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کیا۔ موجودہ سرکار نے کپاس کی سپورٹ قیمت 1200 روپے طے کی ہے لیکن پھر بھی کسانوں کو روپے فی کوئنٹل میں کپاس بیچنی پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف خصوصی صنعتی وسرمایہ کاری علاقہ بنانے کیلئے سرکار کے ذریعہ کسانوں کی آراضی تحویل میں لینے کے خلاف بڑی تعداد میں کسان سڑکوں پر آگئے تھے۔

ترقی کا ’گجرات ماڈل‘ نہ توکولی جیسی پسماندہ ذاتوں کو راس آرہا ہے اورنہ ہی اعلیٰ ذات کے راجپوتوں کو جو اپنے آپ کو دربار سماج کہلانے میں شان سمجھتے تھے۔ زمین چھن جانے سے ان کے بچے آٹو رکشہ چلا رہے ہیں ۔ کولی خاموش ووٹر ہیں اور ان کی تعداد ریاست میں 24 فیصد ہے۔ سبھی ذاتوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں لیکن بنیادی مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔

قابل غور سوال یہ بھی ہے کہ اگر گجرات ماڈل گاؤں میں کامیاب ہے تو پھر کسان خودکشی کیوں کررہے ہیں ؟ وزارت داخلہ کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 2013 سے 2015 کے درمیان گجرات کے 1483 کسانوں نے خودکشی کی۔ 2014 سب سے خراب سال رہا، جب 600 سے زیادہ کسانوں نے جان دے دی۔ مگر جو آنکڑے دیے جا رہے ہیں ، اس میں اختلاف دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے جبکہ ریاست اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی سرکار ہے۔ 24 مارچ2017 کو صوبہ کے وزیرزراعت بابو بوخریا نے اسمبلی میں کانگریس کے ممبر تیجا شری بین پٹیل کے سوال پر جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ 2016 تک پچھلے پانچ سال میں 91 گجراتی کسانوں نے خودکشی کی۔ اب کس رپورٹ کو صحیح مانیں ؟ تعداد چاہے جو ہو، مگر دونوں سرکاری اقرار کرتی ہیں کہ گجرات میں کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ پھر یہ کیسا ماڈل ہے، جس میں دیش کا اَن داتا جسم چھوڑنے کو مجبور ہوجائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے اہم مسائل کو حزب اختلاف پرزور طریقہ سے نہیں اٹھاسکا۔

سماجی نابرابری تو سب جگہ ہے لیکن ذات کی بنیاد پر نفرت کی انتہائی شرمناک تصویریں گجرات سے سامنے آئیں ۔ مری ہوئی گائے کا چمڑا اتارتے دلتوں کو پیٹا جانا، مونچھ رکھنے پر پٹائی اور گربا دیکھنے پر ایک دلت نوجوان کو پیٹ پیٹ کر قتل کردینا، اس کی چند مثالیں ہیں ۔ ان واقعات نے دلتوں میں بڑے آندولن کو جنم دیا جبکہ دلت روایتی طورپر بھاجپا کے ووٹر رہے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فسادات میں یہ ہمیشہ ہندوتوا کے جھنڈابردار رہے تھے۔ اس بار کے گجرات الیکشن میں بھاجپا کو ان کی ناراضگی کا بھی سامنا ہے۔ جگنیش میوانی کو ہرانے کیلئے بھاجپا نے اپنی پوری طاقت جھونکی ہے۔ یہاں تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگوں کی میٹنگیں کرائی گئیں ۔
گجرات کاروباری ریاست مانی جاتی ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی کو لے کر یہاں کے کاروباریوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ ان کے غصہ کو دیکھتے ہوئے سنگھ کو سرکار سے مطالبہ کرنا پڑاکہ جی ایس ٹی میں چھوٹے کاروباریوں کو راحت دی جائے۔ سرکا نے آناً فاناً میں سو سے زیادہ اشیاء پرجی ایس ٹی کو28سے گھٹاکر12 فیصد کردیا۔ اس سے قبل پیٹرول وڈیژل کی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے بھی وہاں ٹیکس میں کمی کی گئی تھی۔ نوٹ بندی کے وقت بھی سرکار کی گجرات پر عنایت رہی۔ وہاں نئے نوٹوں کو لے کر عوام کو اتنا پریشان نہیں ہونا پڑا جتنا کہ دوسری ریاستوں کے لوگوں کو۔ کاروباریوں کو لبھانے کیلئے ورلڈ بنک سے ’’ازی ڈوینگ بزنس اور موڈی‘‘ کی ریٹنگ حاصل کی گئی۔ جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 5.7 فیصد دکھاکر کاروبار بڑھنے کا اشارہ دیا گیا۔ جبکہ صنعتی پیداوار جوپچھلے سال 4.2 فیصد تھی، اس سال گرکر 2.2فیصد پر اٹکی ہے۔ پھر بھی وکاس پاگل ہورہا ہے۔

کانگریس نے بی جے پی سے سوال کیا کہ 22 سال میں اس نے گجرات میں کیا کیا اور راہل گاندھی نے مندروں کے درشن شروع کئے تو بھاجپا بوکھلا گئی۔ پہلے الیکشن کمیشن پر دباؤ بناکر گجرات انتخاب کے وقت میں توسیع کرائی۔ پھر ہاردک پٹیل کی سیکس سی ڈی سامنے لاکر ہاردک پٹیل کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے طاقت سے دبانا چاہا۔ یہ صحیح ہے کہ ہاردک پٹیل پاٹیداروں کا اکلوتا لیڈر نہیں ہے کہ جس کی آواز پر تمام پاٹیدار کھڑے ہوجائیں لیکن وہ ایک بااثر شخص ضرور ہے جس کی اپنی برادری میں مضبوط پکڑ ہے۔ تبھی جے شاہ کا معاملہ سامنے آگیا۔ اس کے بچاؤ میں پوری پارٹی کھڑی دکھی۔ کانگریس نے بی جے پی کی طرح سوشل میڈیا کو استعمال کیا۔ جبکہ بھاجپا کیلئے جو نوجوان کام کررہے تھے، بی جے پی نے ان سے کئے ہوئے وعدے پورے نہیں کئے۔ بھاجپا نے ووٹوں کو پولرائز کرنے کیلئے ایک کے بعدایک طریقہ اپنایا۔ راہل گاندھی کی دادی، ناناتک کو گھسیٹا گیا۔ فلم پدماوتی کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ گجرات انتخاب میں ترقی، کرپشن اور گڈگورنینس کی بات ہونے کے بجائے بابری مسجد، رام جنم بھومی، سومناتھ مندر، ذات کو گالی دینے جیسی باتوں کے علاوہ چناؤ میں پاکستان کے ہاتھ تک کو شامل کردیا گیا، لیڈران کی خریدوفروخت کی خبریں بھی آئیں ۔ راجستھان میں شمبھو نام کے ہندونوازشخص کے ذریعہ لوجہاد کو بنیادبناکر ایک مزدور کو بے رحمی سے قتل کرنے کے معاملہ کو بھیپدماوتی کے تنازعہ کی طرح گجرات کے الیکشن سے جوڑکردیکھاگیااور یہ کہاگیاکہ یہاں کے الیکشن کے ماحول کو فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیل کرنے کی یہ بھی ایک کوشش تھی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی آبائی ریاست کے انتخاب کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی۔  انہوں نے56 سے زیادہ میٹنگیں کی ہیں ۔ ہربات کا انہوں نے خودجواب دیا۔  اس کیلئے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کوبھی آگے بڑھا دیا گیا۔ تمام مرکزی وزراء، ریاستوں کے وزیراعلیٰ گجرات کی تشہیری مہم میں لگائے گئے۔ مودی جی پہلی مرتبہ جاپان کے وزیراعظم کے ساتھ بھارت کی کسی مسجد میں گئے، گجرات الیکشن میں بی جے پی نے اردو میں پرچے تقسیم کرائے۔ احمد پٹیل کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنائے جانے کی بات تک اچھالی گئی۔ ’رام‘ اور’ حج‘(ہاردک، الپیش، جگنیش) کے بینر لگے۔ آخر میں چناوی تماشے کیلئے امریکی ’’سی پلین‘‘ کراچی بندرگاہ سے منگایا گیا۔ کہا یہ گیاکہ سی پلین بھارت میں پہلی بار اڑا ہے جبکہ 2010 میں اس وقت کے ہوا بازی وزیر پرفل پٹیل نے پون ہنس ہیلی کاپٹر کی مدد سے جل ہنس نام سے انڈمان نکوبار کیلئے اس نئی سہولت کا افتتاح کیا تھا۔

خیر سیاسی اٹھاپٹک، گراوٹ اور ہر چند کوشش کے باوجود ہندومسلمان کا ماحول نہیں بن پایا۔ دونوں مرحلے کے لئے ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہوچکاہے۔ پہلے مرحلے میں 12 ضلعوں کی 89 سیٹوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے جبکہ دوسرے مرحلہ میں 14ضلعوں کی 93نشستوں پر لوگوں نے حق رائے دہی کااستعمال کیا۔ امت شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 182 میں سے 150 سیٹیں ان کی پارٹی جیتے گی۔ وہیں کانگریس بھی اس بار ریاست میں واپسی کی امید کررہی ہے۔ 50 ہزار 128پولنگ مراکز سے امیدواروں کی قسمت ای وی ایم مشینوں میں بند ہوچکی ہے جس کا نتیجہ 18 دسمبر کو سامنے آئے گا۔ جیت جس کی بھی ہو اس کا اثر ملک کی آئندہ سیاست پر پڑے گا۔ اس بار اگر بی جے پی ناکام ہوتی ہے تو دوسری ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ گجرات میں صرف مودی کا ہی نہیں ہندوتوا کے ایجنڈے کا بھی امتحان ہے۔ جس کے نئے چہرے کے طورپر یوگی آدتیہ ناتھ کو اتارا گیاتھا۔ مودی کا کمال تو تب تھا جب انہیں اپنی آبائی ریاست میں جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے وہاں کے لوگ صرف ان کے کہنے پر بی جے پی کو کامیاب بنادیتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔