نہیں، ہم  ہرگز مایوس نہیں!

عالم نقوی

انیسویں صدی  مسلمانوں کے زوال  کی تکمیل کی صدی تھی۔ لیکن یہ زوال صدیوں کے عروج و اقتدار کے بعد رو نما ہوا تھا۔ سامراج کےقریب  دو سو سالہ اقتدار  کے خاتمے کے بعد برہمنوں کو کئی ہزار سال بعد حاصل ہونے والا اقتدار، اس بار سو سال  بھی پورے نہیں کر سکے گا۔ انشا اللہ۔ سنگھ پریوار کی قیادت میں پہلے با لواسطہ  اور اب بلا فصل برہمنوں اور اُن کے معاونوں کو جو اقتدار ملا ہوا ہے وہ  محض ستر برسوں میں بیک وقت نمرودی و فرعونی،قارونی و یزیدی   فساد فی الارض کے ملغوبے کی انتہا کو پہونچنے کے قریب ہے۔ ان کا ظلم اور اسراف ہی لے ڈوبے گا۔

اسی طرح ’حبل من ا لناس ‘ کی بدولت الیہود کو حاصل ہونے والا عروج ِقہر و شر بھی اُس حد کو چھونے والا ہے جہاں سے شروع ہونے والے زوال کی کھڑی  ڈھلان ’اسفل السافلین ‘ سے پہلے ختم نہیں ہوتی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ مسلمان، قرآن و سنت سے اپنی دوری کے سبب، بقول مختار مسعود ’حساب ‘میں بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ وقت پڑنے پر بھی ’’جمع ‘‘نہیں ہوتے۔ تاریخ کے ہر اہم موڑ پر’’تفریق‘‘  ہو جاتے ہیں ‘! قرآن نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنے، فرقوں میں نہ بٹنے،اِسراف و تبذیر سے بچنے ، اور ’حسبِ استطاعت ‘انفاق کرتے رہنے اور ’قوت ‘حاصل کرنے کا حکم دیا تھا جسے ہم  نے فراموش کررکھا ہے۔

حصول قوت میں علم کی قوت کا حصول ’اقرا  ‘ کے حکم کے توسط سے  فہرست  میں سب سے اوپر تھا لیکن ہم نے ایک طرف علم کو   دین اور دنیا کے خانوں میں تقسیم کر کے اُس کے فوائد  کومحدود کر دیا اور دوسری طرف قوت کے دوسرے مظاہر کو یا تو بجنسہ نظر انداز کر دیا، یا  پھر  ظلم، فساد اور اِسراف کی نذر کر کے اُس کے فوائد سے خود کو محروم کر لیا۔

آج بھی کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ ہم سب  انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر اپنی استطاعت بھر ’ قوت‘  کے حصول کو اُس کے جامع اور کامل مفہوم کے ساتھ  یقینی بنائیں اور نہ صرف ظالم کی حمایت سے اپنے ہاتھ اُٹھا لیں بلکہ بہر صورت و بہر قیمت  مسلک، مذہب، فرقے، ذات  اور طبقے کی تفریق کیے بغیر مظلوم کی مدد کے لیے کمر بستہ ہوجائیں ۔ مستضعفین فی ا لا رض کی مدد نہ کرنے والوں اور مسرفین و مترفین و ظالمین کا انجام ایک ہی ہے۔ ظلم سے محفوظ رکھنے کا قرآنی وعدہ بھی حصول قوت کے حکم کے ساتھ مشروط ہے (الانفال۔ ۶۰)۔

اراکان سے ہند و کُش تک حالات بے شک  کہیں بھی اچھے نہیں لیکن شدنی اور نا شدنی سب ہماری کرنی ہی کا پھل ہیں۔ اپنی جان، اپنی عزت اور اپنے مال کا دفاع خود جان و مال و عزت  کے مالک پر واجب ہے۔ اور اس کے لیے ’طاقت کا حصول ‘ فردا ً فرداًلازمی ہے۔ اس کے علاوہ فساد فی ا لارض اور ظلم کے خاتمے کی کوئی بھی کوشش جو صرف کسی خاص طبقے تک محدود ہو یعنی جو تمام مستضعفین فی ا لارض کے لیے عام نہ ہو اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے  ضرورت  اِس کی ہے کہ ہم سب متحد ہوکر ظلم کی ہر شکل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور صرف اور صرف اللہ رب ا لعالمین پر بھروسہ کریں اور یہ اس کا وعدہ ہے کہ جب  اُس کا کوئی بندہ صرف اُس پر توکل کرتا ہے تو وہ اُس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرتا ہے اللہ سبحانہ لازماً  اسے ہر مشکل، ہر مصیبت اور ہر طوفان بلا خیز سے بہ حفاظت نکال دیتا ہے۔ (الطلاق۔ ۳)یہ اس کا وعدہ ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

تبصرے بند ہیں۔