بے چارہ وکاس!

ڈاکٹر عابد الرحمن

مودی گجرات جیت گئے، گجرات میں ان کے ہارنے کا سوال ہی نہیں تھا وہیں سے انہوں نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا وہیں انہیں مضبوطی ملی تھی وہیں انہوں نے پارٹی کو سب سے زیادہ مضبوط کیا تھا اور وہیں سے انہوں نے اپنی حکومت کو ترقی گڈ گورننس اور وکاس کی گاڑی پر سوارکر گجرات ماڈل کے نام سے ساری دنیا میں مشہور کیا تھااور پچھلے لوک سبھا انتخابات میں وزارت عظمیٰ کی ریس میں بھی وہ اسی گجرات ماڈل بنام وکاس کی گاڑی پر سوار رہے اور ان کے حواریوں نے وکاس کی اس گاڑی میں ہندوتوا کے پٹرول کی کمی نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے ان کی گاڑ ی سر پٹ دوڑتے ہوئے اپنے تمام مخالفین کو بہت پیچھے چھوڑ گئی۔ اس کے بعد بھی ان کے حواری عوام کے دل ودماغ میں رام مندر، گؤ رکشا، گھر واپسی، لو جہاد، انٹی رومیو اسکویڈس، دھرم سیناؤں اور تاج محل وغیرہ کے نام مسلم مخالفت اور منافرت کے گڑھے کھودکر ہندوتوا کا پٹرول نکالتے رہے اور مودی جی کی وکاس کی گاڑی بھاگتی رہی۔

مودی جی کی اس گاڑی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کو سائلینسر نہیں ہے یہ شور بہت کرتی ہے جس میں سے ترقی اور وکاس کی آواز آتی رہتی ہے جو اتنی تیز اور اس قدر مسلسل ہوتی ہے کہ لوگوں کو اسے سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور جو لوگ اس کا تجزیہ کر کے اس کے اچھے اور برے پہلو لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں ان کی آواز اس شور میں بالکل دب جاتی ہے۔ لیکن اس سب شور کے با وجود اس بار گجرات میں حالات مختلف تھے۔

راہل گاندھی نے بے روزگاری، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، کسانوں اور نوجوانوں کے مسائل پر ایسے سوال اٹھائے تھے جو مودی جی کے وکاس کے شور شرابے میں بھی سنائی دینے لگے تھے اس کے علاوہ پٹیلوں اور دلتوں کے بی جے پی کے خلاف متحرک ہونے کی وجہ سے بھی مودی جی کی وکاس گاڑی اپنے حواریوں کے ذریعہ مسلسل دئے جارہے پٹرول کے باوجود سست پڑ تی نظر آ رہی تھی،سو اس کی اسپیڈ بڑھانے کے لئے مودی جی نے خود ہی ہندوتوا کا پٹرول نکالنا شروع کردیا جس کے بارے میں وہ پچھلے تین سالوں میں غیر انتخابی ایام میں یا تو خاموش تھے یا پھر کبھی کبھار اس کی مذمت کی تھی۔ انتخابات کے زمانے میں وہ بہار میں دلت اور مہا دلت ریزرویشن کے بہانے اور یوپی میں قبرستان و شمسان کے بہانے وہ یہی کام کر چکے ہیں۔

اس بار وہ کانگریس مسلمان پاکستان مغل اور مندر مسجد کے بہانے نفرت کی اپنی روایتی سیاست پر اتر آئے تھے۔ اور انہیں یہ موقع بھی کانگریس کے منی شنکر ایر نے تحفہ کی طرح پیش کیا تھا۔ منی شنکر نے مودی جی کو ’نیچ قسم کا آدمی‘ کہاتھا۔ کانگریس نے بی جے پی کے بر خلاف اس طرح کی بیان بازی کر نے والوں کو بڑھا وا دینے یا ان کی ذاتی سوچ کہہ کر ان سے اپنے آپ کو الگ کر لینے یا اس پر خاموش رہنے کی بجائے منی شنکر کو پارٹی سے نکال دیا لیکن کمان سے نکلنے کے بعد تیر کبھی واپس ہوا؟ مودی جی نے کمال ہوشیاری سے منی شنکر کے بیان کو اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پورے گجرات اور تمام گجراتیوں پر منطبق کردیا یہی نہیں منی شنکر کے گھر ہوئی ایک میٹنگ کے حوالے سے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان کانگریس کے ساتھ مل کر احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہ رہا ہے۔ اس ایک بات سے انہوں نے کانگریس پارٹی کو پاکستان سے جوڑ کر مانو اس کی دیش بھکتی پر ہی سوالیہ نشان نہیں لگا یا بلکہ اسے دیش کے دشمنوں کا حلیف بھی قرار دیا یہی نہیں اس میں احمد پٹیل کے بہانے نہ صرف مسلم منافرت کی سیاست کو ہوا دی بلکہ یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ پاکستان اپنی سازشوں کے لئے بھارت کے مسلمانوں کا استعمال کرتا ہے یا بھاررت کے مسلمان پاکستان کے حامی ہیں اور کانگریس پارٹی بھی اس میں برابر کی شریک ہے جو مسلمانوں کو بڑھاوا دیتی ہے یا مسلمانوں کی منھ بھرائی کر نے والی پارٹی ہے۔

اسی طرح راہل گاندھی کے کانگریس صدر چنے جانے پربھی منی شنکر ایرہی کے بے تکے بیان پر انہوں نے خاندانی سیاست کو’ اورنگ زیب راج ‘ کہہ کر اس میں پھر اپنی مسلم منافرت پر مبنی سیاست گرمانے کی کوشش کی۔ مودی جی کی ان ساری کوششوں سے جو پیٹرول نکلا اس نے ان کی وکاس کی گاڑی کی رفتار اتنی بڑھا دی کہ وہ کانگریس سے کافی آگے نکل گئی۔ اور جیت کے بعد انہوں نے اعلان کردیا کہ گجرات نے وکاس کو ووٹ دیا ہے اپیز مینٹ ( منھ بھرائی ) کو نہیں ۔ واہ صاحب !گجرات کے لوگ بھی کتنے عجیب ہیں کہ مودی جی نے اپنے انتخابی پرچار میں وکاس سے زیادہ کانگریس کے وناش کی باتیں کیں اور اسے پاکستان احمد پٹیل اور اورنگ زیب کے نام مسلم مخالفت اور مسلم منافرت کا تڑکا بھی دیتے رہے۔ راہل گاندھی نے ان کے وکاس پر جو سوالات اٹھائے تھے ان میں سے کسی کا کوئی جواب بھی نہیں دیا اور لوگوں نے وکاس کو ووٹ دے دیا !

 گجرات کے ان انتخابات میں دراصل وکاس ہارا ہے اور جیت ہندوتوا کی منفی سیاست کی ہوئی ہے۔ کانگریس کی جو سیٹیں بڑھی ہیں اس میں بھی دراصل وکاس سے زیادہ ہندوتوا کی کار فرمائی ہے۔ کانگریس نے بھی اس بار بی جے پی کی طرح کھلے عام ہندوتوا کی سیاست کی ہے فرق صرف یہ رہا کہ کانگریس کا ہندوتوا بی جے پی کے مقابلہ نرم تھا، بس۔ راہل گاندھی نہ صرف مندر مندر گھومے وہاں پوجا پاٹ کی آرتیوں میں حصہ لیا بلکہ مساجد اور درگاہوں کو یکسر نظر انداز بھی کرتے رہے۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف جاری منافرت کی مہم اورمختلف بہانوں سے مسلمانوں کے خلاف ہوئیں پر تشدد وارداتوں کو تو چھوڑیے انہوں نے جس وکاس کی بات کی اس میں مسلمانوں کی شمولیت کے متعلق بھی ایک لفظ نہیں کہا، نہ ان کے مقامی مسائل کا کوئی ذکر کیا اور نہ ہی سیکولر ازم کی کوئی بات کی۔ خاص یہی وجہ ہے جو وہ اس بار اپنی تعداد بڑھا سکے۔ ویسے بھی پچھلے لوک سبھا انتخابات کی ہار کے بعد کانگریس کے اعلیٰ دماغوں نے اس کا ٹھیکرہ مسلمانوں کے سر پھوڑتے ہوئے پارٹی کو مسلمانوں سے دور رہنے کی تلقین کی تھی اور راہل گاندھی نے ایودھیا جا کر اس کی شروعات بھی کر دی تھی اب گجرات میں اس فارمولے کو لاگو کر کے انہوں نے اس کا تجربہ کر لیا ہے جو اگر پوری طرح کامیاب نہیں بھی رہا تو حوصلہ افزا ضرور رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب مستقبل میں یہی کانگریس کا روڈ میپ ہو گا۔ بہر حال گجرات میں بی جے پی کی جیت اور کانگریس کی ہار دونوں میں ہندوتوا کی جیت ہوئی ہے اوربے چارہ وکاس ہار گیا ہے۔ اور یہ بات مسلمانوں اور ملک کے تمام جمہوریت پسندوں کے لئے تشویشناک ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔