باجپائی کی درگا مائی اور راہل گاندھی کے سوٹ بوٹ والے وزیر اعظم

عبدالعزیز
مسز اندرا گاندھی 1971ء میں پاکستان سے جنگ کے نتیجہ میں بنگلہ دیش جیسے ایک نیا ملک بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری باجپائی نے مسز اندرا گاندھی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ محترمہ اندرا گاندھی میرے لئے درگا مائی ہیں۔ اسی پارٹی کے مسٹر نریندر مودی نے جسے اندرا گاندھی کے پوتے راہل گاندھی سوٹ بوٹ والے وزیر اعظم یا سوٹ بوٹ والی سرکار کہتے ہیں بنگلہ دیش کے تعلق سے 45ویں جشن فتح کے موقع پر کہا کہ اندرا گاندھی نے جو کام 1971ء میں نہیں کیا وہ میں نے نوٹ بندی کرکے دکھایا۔ مسز گاندھی میں وہ ہمت مردانہ نہ تھی جو میرے اندر پائی جاتی ہے۔ (واضح رہے کہ نریندر مودی غیر شادی شدہ نہیں ہیں ایک خاتون کے شوہر ہیں جسے شادی کے بعد وہ ایک دو ہفتہ بھی اپنے گھر میں نہیں رکھ سکے اور وہ بیچاری سسک سسک کر آج تک زندگی گزار رہی ہے۔ جب اپنے شوہر نامدار کے وزیر اعظم بننے پر خوشی کا اظہار کیا اور ان کی حلف وفاداری کی رسم میں راشٹر پتی بھون میں آنے کی خواہش ظاہر کی تو نریندر مودی نے یہ مردانگی دکھائی کہ اس سے منہ پھیر لیا اور دعوت دینے سے انکار کر دیا)۔
مسٹر مودی نے گزشتہ روز (16 دسمبر 2016ء) کو بھاجپا کی پارلیمنٹری پارٹی کی میٹنگ کی تقریر جسے وہ دور درشن سے لائیو ٹیلی کاسٹ کرنا چاہتے تھے مگر اپوزیشن کی چیخ پکار کے ڈر سے ملتوی کر دیا۔ اس میں انھوں نے اندرا گاندھی کے زمانے کے ایک بیورو کریٹ مسٹر مادھو گاڈبلے (Madhav Godbole) کی ایک کتاب سے اقتباس اپنی پارٹی کے رفقاء کو پڑھ کر سنایا:
"When Y.B. Chavan told her (Indira) about the proposal for demonetisation and his view that it should be accepted and implemented, Indira looked at Chavan and said, ‘Are no more elections to be fought by the Congress?’ Chavan got the message and the recommendation was shelved,” Modi told the MPs, reading out from the book.
"Tell me, which is bigger, the country or the party?” Modi asked and went on to stress how previous governments had neglected the country.
"This was in 1971 when everybody and all reports recommended demonetisation. Had it been done in 1971, the nation wouldn’t have been in this situation.”
جب وائی بی چوہان نے مسز اندرا گاندھی سے نوٹ بندی کے سلسلے میں کہا اور عملی جامہ پہنانے پر زور دیا تو اندرا گاندھی نے چوہان کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہاکہ کیا کانگریس کو کسی اور الیکشن میں لڑنا نہیں ہے؟ چوہان کی سفارش دھری کی دھری رہ گئی۔
’’کون بڑا ہے ملک یا پارٹی‘‘ مودی جی نے اپنے پارٹی ممبروں سے دریافت کیا۔ مزید کہا کہ سابقہ حکومتوں نے کس طرح نوٹ بندی جیسی اہم کارروائی کو نظر انداز کیا۔
یہ تھا 1971ء کا زمانہ۔ ہر ایک کی یہی رپورٹ اور سفارش تھی کہ نوٹ بندی ہونی چاہئے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو ہندستان کو آج یہ منہ دیکھنا نہیں پڑتا‘‘۔ نریندر مودی نے کہاکہ بھاجپا ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو پارٹی سے بڑھ کر ملک کو اہمیت دیتی اور اس کے مفاد میں کام کرتی ہے جبکہ دوسری پارٹیاں جس میں کانگریس بھی شامل ہے۔ پارٹی کو ملک سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں اور پارٹی کو ملک سے بڑی چیز سمجھتی ہے۔
سابق وزیر خزانہ مسٹر پی چدمبرم نے یہ کہہ کر نریندر مودی کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی کہ ’’سابقہ حکومتوں کے ذریعہ کئی بار نوٹ بندی کے متعلق غور و فکر کیا گیا مگر سوچا گیا کہ اس سے معاشی منفعت بہت کم ہے۔ اس کے مقابلے میں مشکلیں اور پریشانیاں زیادہ ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ نے لکھا ہے کہ مودی نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کیا اور اپنی بہادری اور شجاعت کے گن گائے مگر اپویزشن نے جب ان کی سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت مانگا تو مودی جی نے ثبوت دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ ان کی سرجیکل اسٹرائیک پر کئی ایسے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں مگر وہ او ر ان کی سرکار آج تک ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں مسز گاندھی کی پاکستان کے مقابلے میں جیت روز روشن کی طرح واضح ہے‘‘۔
مودی جی کی تعریف و توصیف میں ان کی پارٹی کے لوگ رطب اللسان ہیں۔ جب بھی وہ منہ میاں مٹھو بننے کی ضرورت اکثر و بیشتر محسوس کرتے ہیں۔ مسز اندرا گاندھی اور نریندر مودی میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ مسز گاندھی نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا تھا جس کی وجہ سے دو ڈھائی سال ملک کے باشندے یا شہری بیحد پریشان حال تھے۔ مستزاد یہ کہ ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی نوٹ بندی تو مودی جی کی طرح نہ کرسکے مگر نس بندی کرسکے جس سے پورے ملک والے پریشان تھے۔ آج مودی جی نے غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے اور لوگ نوٹ بندی کی وجہ سے پریشان ہیں۔
مسز گاندھی کے خوشامدیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ اسی طرح مودی کی خوشامدیوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آسام کے بروا جو کانگریس کے صدر تھے اندرا کو انڈیا اور انڈیا کو اندرا کہتے تھے۔ اسی طرح آندھرا پردیش کے مسٹر وینکیا نائیڈو کہتے ہیں کہ نریندر مودی کو ہندستان میں بھگوان نے بھیجا ہے اور God Gift (بھگوان کا عطیہ) ہیں۔
مسز گاندھی عورت تھیں جبکہ مودی جی مرد ہیں یہ ایک بڑا فرق ہے۔ مسز گاندھی سیکولر تھیں جبکہ مودی جی فرقہ پرست ہیں۔ مسز گاندھی کی پارٹی سیکولرزم کا پرچار کرتی ہے جبکہ مودی جی کی پارٹی ہندوتو اور ہندو راشٹر کی حامی ہے۔ مسز اندرا گاندھی کے سیاسی استاد جواہر لال نہرو جیسے سیاسی مدبر تھے جبکہ مسٹر نریندر مودی کے سیاسی گرو مسٹر ایل کے ایڈوانی ہیں جو آج اپنے چیلا سے شرمندہ ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پارلیمنٹ میں رہ کر بھی مستعفی ہوں۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔