شام میں وسیع البنیاد حکومت۔وقت کی ضرورت

مولانامحمد جہان یعقوب
حلب شمال مغربی شام کا ایک پرانا اور مشہور شہر ہے، جو قدیم زمانے میں بہت بڑا تجاری مرکز تھا۔یہ شہرتاریخی اہمیت کا حامل ہے،اس کوسلطان نورالدین زنگی جیسے شیر دل حکم ران کا دارالخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ،یہیں سے سلطان بیبرس نے تاتاری یورش کا اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیب کے پجاریوں کا راستا روکاتھا۔ اس خانہ جنگی سے قبل حلب،شام کا اقتصادی مرکز تھا۔یہ شہرآج مسلسل زمینی حملوں اور فضائی بمباری سے ملبے کاڈھیر بن چکاہے،جہاں انسانیت کے آثار تلاش کرنا بھی تقریباًمحال ہوچکاہے۔ اس شہر کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ترکی کی سرحد ہے،اس اعتبار سے حلب شام اور ترکی کے درمیان پراکسی وار کا بھی مرکز ہے۔حلب میں بسنے والوں کی اکثریت کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے نہ توبشارالاسد کے والد حافظ الاسد کی حکومت کو تسلیم کیا اور نہ اسے اپناحکم ران ماننے کے لیے تیار ہیں۔ان پر حافظ الاسد نے بھی مظالم کے پہاڑ توڑے،لیکن تب سوشل میڈیا نہ تھا،جس کی وجہ سے حلب کے مظلوموں کی چیخیں حلب کی دیواروں سے باہر نہ نکل سکیں،ان کے کٹے پھٹے لاشے دنیاکی نگاہوں سے اوجھل اوران کانالہ وفریاد میڈیاکی رسائی سے محروم رہا۔حافظ الاسد نے اپنی وفات سے پہلے بشار الاسد کو حکم ران بنایا،یوں تواکثر اہل سنت اکثریتی علاقوں سے اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا،لیکن حلب نے اسے سب سے زیادہ ٹف ٹائم دیا،یہی وجہ ہے کہ اس کی ’’نوازشات‘‘بھی سب سے زیادہ اہل حلب پر رہیں،جن کا اظہار آج ویران حلب کے کھنڈربنے درودیوار زبان حال سے کررہے ہیں۔
بشارالاسد کو ایران اور روس کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور انٹریشنل میڈیاکی رپورٹوں کے مطابق گذشتہ پانچ سال سے جاری جنگ کے دوران ہزاروں ایرانی وروسی فوجی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔روس ہی نے سب سے زیادہ اہل حلب پر فضائی بمباری کی ہے اور ایران توگویااس جنگ کو اپنی جنگ بنائے ہوئے ہے، بشارالاسد کی وفادار فوج کوملنے والی ایرانی جنگجو تنظیم سپاہ پاسداران انقلاب کی افرادی ومادی امداد کسی سے مخفی نہیں۔حال ہی میں یہ بھی انکشاف ہواہے کہ ایران اپنی جیلوں میں پابند سلاسل ان قیدیوں کو رہا کررہاہے جوشام میں لڑنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ شام کے ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینئر جنرل جواد غفاری کا ایک بیان نقل کیا ہے کہ حلب میں محصور تمام افراد کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔موصوف پاسداران انقلاب کی قیادت کرنے کے ساتھ ساتھ 16 ملیشیاؤں کے بھی سربراہ ہیں۔ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب کہ ترکی کی کوششوں سے عارضی جنگ بندی ہوگئی تھی اور زندہ بچ جانے والے عام شہریوں نے قریبی علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کردی تھی،روس کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کی جانے والی خبر کے مطابق گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران چھ ہزار عام شہری اور 366باغی اپنے ہتھیار پھینک کر باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے باہر آنے میں کام یاب ہوئے۔جنرل جواد کے اسی بیان کا شاخسانہ تھا یاکچھ اور،کہ پاسداران انقلاب نے نقل مکانی کرنے والوں کے قافلوں پر بھی حملے کیے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے خاتمے میں بھی ایران کا ہاتھ تھا،ترک وزیراعظم کی جانب سے جنگ بندی معاہدے پر عمل کے لیے ایرانی اعلیٰ قیادت سے رابطہ بھی اسی کی غمازی کرتاہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل ترکی اور روس کے درمیان حلب میں شہریوں اور جنگجوؤں کے انخلاء کے حوالے سے جو معاہدہ طے پایا تھا، ایران نے اس معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے من مانی شرائط عاید کی تھیں۔
قصہ مختصرایران کے توسیع پسندانہ عزائم میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آرہاہے،صدر حسن روحانی نے واضح کیاہے کہ خلیجی ممالک سمیت ہر اس جگہ ایران مداخلت کرے گاجہاں اس کے مفادات کو زد پڑتی محسوس ہوگی۔ایرانی ذرائع ابلاغ نے حلب میں قتل عام کو عظیم الشان فتح سے تعبیر کیاہے اورسپاہ پاسدارن انقلاب کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ حلب کو آزاد کرانے کے بعد اگلی باری یمن اور بحرین کی ہے،تفصیلات کے مطابق پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ’’ارنا ‘‘سے بات کرتے ہوئے کہا : حلب کی فتح بحرین اور یمن کی آزادی کا نقطۂ آغاز ہے، سقوط حلب کے بعد ایران کا توسیع پسندانہ پروگرام اگلے مرحلے میں یمن، موصل اور بحرین میں داخل ہوگا، بحرینی قوم بھی جلد ہی مخصوص ٹولے کے تسلط سے آزاد ہوگی، یمن کے عوام بھی آزادی کا جشن منائیں گے اور موصل کے مکین بھی آزادی اور فتح کا پرچم لہرائیں گے۔امریکا کے صدر براک اوباما نے بھی شام کے شہر حلب میں نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کی ذمہ داری روس، ایران اور بشارالاسد پر عائد کی ہے۔ان کاکہنا تھا کہ حلب میں وحشیانہ حملوں پرپوری دنیا کا موقف ایک ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امریکااس وحشیانہ کھیل کو روکنے کے بجائے ’’داعش‘‘کے ٹھکانوں کی تباہی کے نام پر بشار الاسد ہی کی کیوں مدد کررہاہے؟ ایک طرف امریکا شام میں دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے اور اعتدال پسند اپوزیشن کی مدد کے لیے کوشاں ہے مگر دوسری طرف شام اور روس کے ساتھ اہداف کی تقسیم کا عمل بھی جاری ہے ،جیساکہ امریکی فوج کے عہدے دار جنرل ٹانسنڈنے کہاہے کہ شام میں امریکا اور اس کے اتحادیوں،روس اور اسدی فوج کے درمیان کسی قسم کی ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود آپریشنل اہداف تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر شامی حکومت کی تازہ کارروائیاں مذمت کا باعث بنی ہیں ،امریکا،برطانیہ ،اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے بے ضررشہریوں پر حملوں،خواتین اور بچوں کے قتل اور نہتی خواتین کی عصمت دری ،نیزہسپتالوں اور اسکولوں کونشانہ بنانے کی شدید مذمت کی ہے۔
لیکن کیا صرف مذمت کافی ہے؟ہر کز نہیں۔حلب کوباغیوں سے آزاد کرناضروری ہے،لیکن کافی نہیں،کیوں کہ حالیہ جنگ کے دوران شامی افواج اور اس کے اتحادیوں نے حلب کی عام آبادی کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے حلب کو شامی حکومت کے حوالے کرنا بلی کو دودھ کی رکھوالی سونپنے کے مترادف ہے۔ماناکہ حلب میں موجود باغی قابل گردن زنی ہیں،لیکن ان حکومتی واتحادی فورسز کو بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی، جنھوں نے نہتے عوام کے خون سے ہولی کھیلی ہے،بم اور بارود برساکر ہنستے بستے شہر کو کھنڈرات کا ڈھیر اور ہزاروں لوگوں کو رزق خاک بنادیاہے۔حلب کا معاملہ صرف حکومت اور باغیوں کی جنگ کا معاملہ نہیں،انسانیت کا معاملہ ہے،یہ ایک حکم ران کی رٹ کے قیام کا مسئلہ نہیں یہاں انسانیت سر پیٹ رہی ہے،بے گناہ بھون دی جانے والی آبادی اپنے خون کا خراج مانگتی ہے،عصمت مآب مائیں، بہنیں، بیٹیاں سوال کناں ہیں کہ ہم تو باغی نہ تھیں پھر ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو قتل کرنا اور صحت کے مراکز اورشفاخانوں،عبادت گاہوں کو مسمار کرنا،اسکولوں پر حملے کرکے پھول کلیوں کو مسل ڈالنا،امدادی قافلوں کو امداد پہنچانے سے روکنا اور انخلاء کرنے والوں پر گولیوں کی بوچھاڑ۔۔۔یہ درندگی کسی کلیے کے تحت درست تسلیم نہیں کی جاسکتی۔کیا اخلاقیات وانسانیت کی پاس داری کے تمام قوانین مسلم ممالک ہی پر لاگو ہوتے ہیں؟اسدی بربریت کے حوالے سے عالمی برادری کیوں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے؟اقوام متحدہ کہاں سو رہی ہے؟او آئی سی اور کس دن کی منتظر ہے؟امریکا،برطانیہ سمیت جمہوریت کی علم بردار عالمی طاقتیں بشار الاسد سے اس ’’غیر جمہوری‘‘اقدام کا حساب کیوں نہیں لیتیں؟سعودی اور خلیجی ممالک کیوں چپ کا روزہ نہیں توڑتے؟ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں آخر کون حائل ہوگا؟ترکی کے علاوہ کیا کسی مسلم ملک پر کوئی ذمے داری عاید نہیں ہوتی؟سوڈان کی طرح شام اور ایران وروس کے سفارت خانوں کی تالابندی اور سفراء کی بے دخلی کے لیے مزید کس بات کا انتظار ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال میں عالمی برادری کواپنا کردار اداکرتے ہوئے فوری ایکشن کے ذریعے مطلق العنان حکم ران بشار الاسد کو بر طرف کرکے ایک غیر جانب دار وسیع البنیاد حکومت قائم کرنی اوراس کی نگرانی میں شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کو اپنی پسند کی قیادت کے انتخاب کاموقع دینا چاہیے۔یہ عالمی برادری کی خاموشی ہی ہے جس نے بشار الاسد کو درندہ بنادیاہے۔ظلم کی سیاہ رات مزید طویل ہوئی تو شام کے دوسرے شہروں میں بھی حلب جیسے المیے جنم لیں گے،جن سے بچنے کے لیے بروقت پیش بندی ضروری ہے۔ورنہ مظلوموں کی عرش کو چیرتی آہیں اورفلک شگاف نالے کہیں ساری بساط ہی نہ لپیٹ دیں ،کہ اس قادر ومنتقم ذات کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔