دستورِ مدینہ کے تحت عدلیہ

عبدالعزیز
(چھٹی قسط)
اس دفعہ کا دوسرا حصہ اپنے پہلے حصے کی طرح اہم ہے جس میں کہا گیا ہے: ’’جب تک اس سے مسلمانوں کو ضرر نہ پہنچے گا اور نہ ہی وہ ان کے خلاف دوسروں کی مدد کرے گا‘‘۔
دستور کی اس دفعہ سے ہم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر یہودی آئین مدینہ سے غداری کا ارتکاب نہ کرتے تو وہ نہ جلا وطن ہوتے اور نہ ان میں سے کسی کو سزائے موت دی جاتی؛ مگر یہ مسلمہ امر ہے کہ یہودیوں نے آئین کے خلاف مسلمانوں کو ضرر بھی پہنچایا اور ان کے خلاف دوسروں کی مدد بھی کی۔ جب تک انھوں نے آئین و ریاست سے وفاداری جاری رکھی، ریاست نے انھیں مساوی حقوق دیئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ غزوۂ بدر تک یہ تینوں قبیلے وفادار تھے؛ چنانچہ اس دوران ریاست کے تمام شہریوں کی طرح انھیں مساوی حقوق حاصل رہے۔ غزوۂ بدر کے بعد بنو قینقاع نے غداری کی اور آئین کے مطابق سزا پائی، مگر دوسرے دونوں قبیلوں۔۔۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ کو مساوی اور برابر حقوق دیئے جاتے رہے۔ غزوۂ احد کے بعد بنو نضیر نے دستور سے غداری کی اور اپنے جرم کی سزا پائی، لیکن یہودیوں کے تیسرے قبیلہ ۔۔۔ بنو قریظہ کو مساوی حقوق حاصل رہے، کیونکہ انھوں نے ابھی تک غداری کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ غزوۂ خندق کے بعد بنو قریظہ نے بھی غداری کی اور آئین کے مطابق سزا پائی۔ یہ تفصیل اس بات کا کافی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اگر یہودی اسلامی ریاست اور دستور مدینہ کے وفادار رہتے تو انھیں نہ کوئی سزا دی جاتی اور نہ ہی وہ جلا وطن ہوتے۔
دستور کی دفعہ 26 سے ہماری دلیل کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔ اس کا متن یہ ہے: ’’یہودیوں کیلئے اپنا دین ہوگا، مسلمانوں کیلئے اپنا دین ہوگا، اس میں ان کے موالی اور وہ خود (شامل ہوں گے)؛ البتہ جو ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا‘‘۔
اس دفعہ کی رو سے یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ ایک سیاسی امت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ (امۃ مع المومنین) انھیں دینی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ (للیہود دینہم) مگر یہ مساوی، سیاسی اور مذہبی حقوق اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ وہ ظلم اور غداری کا ارتکاب نہ کریں۔ اگر وہ ظلم و غداری کے مرتکب ہوں گے تو وہ ان کے خاندان اور اپنی ہلاکت کے خود آپ ذمہ دار ہیں۔
اس دفعہ پر جو شخص بھی مذہبی تعصب اور نسلی و نسبی تنگ نظری سے بالاتر ہوکر غور کرے گا اس پر یہ حقیقت خود بخود منکشف ہوجائے گی کہ ریاست مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہودیوں کو جو سیاسی اور دینی حقوق حاصل تھے وہ حقوق انھیں نہ اس سے پہلے کسی حکومت نے دیئے تھے اور نہ بعد کی کسی حکومت میں یہ حقوق انھیں حاصل ہوئے تھے۔ اور اگر وہ اپنی فطرت سے مجبور ہوکر غداری کا ارتکاب نہ کرتے تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاتی۔ اس موقع پر میں یہودی مستشرقین کو دعوت دیتا ہوں کہ اسلامی تاریخ کا مذہبی تعصب اور نسلی تنگ نظری سے بلند ہوکر مطالعہ کریں۔ قرآن و سنت کے متون کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سمجھیں کہ اسلام نے یہودیوں کو مساوی، سیاسی اور دینی حقوق عطا کرکے ان کو کتنی عزت بخشی، مگر جو دستور ان کی رضا مندی سے مرتب ہو ا اگر انھوں نے خود اس سے غداری کی، اسے پامال کیا اور ریاست و آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دشمنوں کے ساتھ مل کر ریاست اور سربراہ ریاست کے خلاف سازش کے مرتکب ہوئے تو اس سے ان پر کس نے ظلم کیا؟ کیا خود انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو اس کا الزام وہ ریاست مدینہ اور سربراہ ریاست پر کیسے لگا سکتے ہیں؟ اسی دفعہ زیر مطالعہ میں یہ شق موجود ہے:
’’البتہ جو ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا‘‘۔
میں یہودی مستشرقین کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ثابت کریں کہ دستور مدینہ میں یہ شق شامل نہ تھی ؟ اور یا تینوں یہودی قبیلوں کو اس کا علم نہ تھا؟ یا جو دستور ان کی رضا مندی سے بنا تھا اس میں اس کا ذکر نہ تھا؟ اسے بعد کے مسلمان مورخین نے دستور مدینہ میں شامل کر دیا تھا، مگر وہ ان سب باتوں کا کیسے انکار کرسکتے ہیں؟ ہم اس کتاب کے اسی باب میں مستشرقین کے نامور محققین کی تحقیقات سے ثابت کرچکے ہیں کہ دستورِ مدینہ کا جو متن ہم نے درج کیا ہے اور جسے شہرۂ آفاق محدثین و مورخین نے روایت کیا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو غزوۂ بدر سے قبل مدینہ میں مرتب ہوا تھا، اس میں اس کے بعد آج تک نہ کوئی ردو بدل ہوا ہے اور نہ ترمیم و اضافہ ہوا۔ جب خود مستشرقین اس دستور کی صحت کے قائل ہیں تو یہودی مستشرقین اس سے کیسے انکار کرسکتے ہیں! اس بات کے متحقق ہوجانے کے بعد کہ دستور مدینہ کا متن وہی ہے جس پر یہود مدینہ نے اعتماد کا اظہار کیا تھا تو اب ہم دیکھتے ہیں کہ دفعہ زیر غور میں غداری کی کیا سزا مقرر ہے۔ اس دفعہ میں موجود ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہیں۔ یہ بہت بڑا تاریخی اعزز ہے جو دستور مدینہ نے یہودیوں کو عطا کیا؛ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے متمدن اور مہذب دور میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں نسلی اور مذہبی امتیازات و تعصبات موجود ہیں، حتیٰ کہ امریکہ میں بھی کالے اور گورے کی اصطلاح سیاسی اور معاشرتی امتیازات کی آئینہ دار ہے۔ صرف اقوام متحدہ کے دستور میں انسانی مساوات کو تسلیم کیا گیا ہے مگر عملاً اس اصول کی کہیں بھی فرماں روائی نظر نہیں آتی۔ یہ عہد حاضر کی حالت ہے۔ اس کے مقابلے میں ساتویں صدی عیسوی میں ریاست مدینہ نے جو دستور مرتب کیا تھا اس میں ہر سیاسی وحدت کو مساوی، دینی، سیاسی اور معاشرتی حقوق دیئے گئے۔ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیازات و تعصبات ختم کرنے کی تاریخ میں یہ عظیم انقلاب تھا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر اس روشن آفتاب اور درخشندہ ماہتاب کے مقابلے میں ایک ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔
بہر حال عہد حاضر کے لوگ اقوام متحدہ کے چارٹر کی ترتیب و تدوین پر فرحاں و نازاں ہیں۔ کیا اس میں یہ دفعات موجود نہیں ہیں کہ اس چارٹر کو تسلیم کرنے والی قوم اگر اس کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی؟ اس ادارے کی جنرل اسمبلی اور سیکوریٹی کونسل کی قرار دادیں اور فیصلے محققین کیلئے اس بات کا کافی مواد فراہم کرتے ہیں کہ جس قوم نے اقوام عالم کے اس متفقہ دستور کے ساتھ غداری یا اس کی دفعات کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا، اس کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جس کا ذکر دستور کے اندر موجود ہے۔ یہ ادارہ اگر کسی وقت کسی خود سر قوم کے خلاف رتی بھر انصاف کا مظاہرہ کرتا ہے تو دنیا بھر میں اس کی تعریف و تحسین میں آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ہے اور اگر دستورِ مدینہ کے تحت ریاست مدینہ نے عدل و انصاف اور دستوری دفعات کے تقاضوں کے مطابق ریاست کی کسی سیاسی وحدت یا فرد کے خلاف کارروائی کی تھی تو اسے ظلم قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کا چارٹر، دستور مدینہ کا ایک معمولی سا عکس ہے۔ یہ عجیب اور دلچسپ تاریخی تضاد ہے کہ اصل پر عمل تو ظلم کہلائے اور نقل پر عمل انصاف! میں مورخین عالم اور محققین وساتیر کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ علمی دیانت اور جرأت فکری سے کام لے کر دستور مدینہ کا مطالعہ کریں۔ یہودی مورخین نے تعصب و تنگ نظری سے اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف جو معاندت اور منافرت کی فضا پیدا کر رکھی ہے اس سے آزاد ہوکر اسلام نے انسانی اخوت، مساوات، حریت اور وحدت کے جن عظیم اصولوں کو انسانیت کی عظمت و توقیر کیلئے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، دیانت داری اور خلوص سے انھیں سمجھیں اور علمی اور تحقیقی طور پر ان کا تجزیہ کریں۔
دستور مدینہ کی دفعہ 26 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو کوئی ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا۔ گزشتہ اوراق میں مستند تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہودیوں کے تینوں بڑے قبیلوں نے ظلم اور غداری کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کا ظلم اور غداری ثابت ہوجانے کے بعد عہد حاضر کے یہودی محققین بتائیں کہ دستور مدینہ کے مطابق ظالم اور غدار کی کیا سزا تھی، یقیناًان کا جواب وہی ہوگا جو دستور میں درج ہے:
’’البتہ جو ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا‘‘۔
یہودی محققین سے میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مدینہ میں آباد یہودیوں نے اس دستور کو تسلیم کیا تھا یا نہیں؟ تاریخ کی مستند روایات پر یقین رکھنے والے تمام مسلم و غیر مسلم مورخین نے ثابت کیا ہے کہ غزوۂ بدر سے قبل مدینہ کے یہودی آزاد، خود مختار، خوشحال، مسلح اور مضبوط قلعوں کے مالک تھے ۔ انھوں نے اپنی مضبوط اور مستحکم حیثیت کے ساتھ دستور مدینہ کو تسلیم کیا تھا کیونکہ اس میں انھیں مسلمانوں کے ساتھ برابر، مساوی اور یکساں حقوق حاصل تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا متوقع اور منتظر پیغمبر خیال کرتے تھے اور امید کرتے تھے کہ اس پیغمبر کے ساتھ مل کر وہ اپنے حریف عربوں پر فتح پالیں گے۔ یہ مستند تاریخی شواہد ہیں۔ خود قرآن مجید میں ان کا ذکر موجود ہے جس کے بارے میں مستشرقین اور تمام عالم کے غیر مسلم متفق ہیں کہ اس میں کوئی رد و بدل نہیں، یہ وہی ہے جو آپؐ پر نازل ہوا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہودیوں نے دستور مدینہ کو برضا و رغبت تسلیم کیا تھا۔
یہودی علماء و محققین سے میرا اگلا سوال یہ ہے کہ کیا مدینہ کے یہودیوں نے دستور مدینہ کو تسلیم کرکے اس سے غداری کا ارتکاب کیا تھا یا نہیں؟ ہم نے اسی باب میں وافر مستند حوالہ جات اور صحیح روایات سے ثبوت فراہم کیا ہے کہ مدینہ میں آباد یہودیوں کے تینوں قبیلوں ۔۔۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ نے یکے بعد دیگرے دستور مدینہ، ریاست مدینہ اور سربراہ ریاست کے خلاف غداری کا ارتکاب کیا تھا۔ جید محدثین اور نامور مورخین کی روایات کے مطابق سب سے پہلے بنو قینقاع نے غزوۂ بدر کے بعد غداری کی۔ پھر بنو نضیر نے غزوۂ احد کے بعد اور آخر میں بنو قریظہ نے غزوۂ خندق کے بعد غداری کا ارتکاب کیا۔ سند اور حوالہ کیلئے قارئین اس بات کے گزشتہ اوراق پر پھر سے ایک نظر ڈال لیں۔ یہ مستند تاریخی مواد ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتا ہے کہ یہود مدینہ ظلم اور غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔
یہودی اہل علم و دانش سے میرا اگلا سوال یہ ہے کہ دستور اور ریاست سے ظلم اور غداری کی سزا دستور مدینہ میں کیا بیان ہوئی ہے؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے کیونکہ یہ اس دفعہ زیر مطالعہ میں واضح طور پر درج ہے اور ہم اس کی طرف کئی بار رجوع کرچکے ہیں۔ بحث کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کیلئے ہم دستور کی اس دفعہ کا متن ایک بار نقل کر دیتے ہیں:
’’البتہ جو ظلم اور غداری کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا‘‘۔
اس موقع پر ہم صرف اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ غداری کی یہ سزا صرف یہودیوں کو سامنے رکھ کر تجویز نہیں کی گئی تھی بلکہ اس سے مراد ریاست مدینہ کی تمام سیاسی وحدتیں اور جملہ شہری تھے، ان میں سے جو بھی ظلم اور غداری کے مرتکب ہوتے، ان سب کیلئے سزا یہی تھی۔
اب ہم یہودیوں سے ایک سوال یہ پوچھتے ہیں کہ ریاست مدینہ کا کوئی شہری یا سیاسی وحدت دستور، ریاست یا سربراہ ریاست کے خلاف غداری کا ارتکاب کرتی تو حکومت وقت کو اس کے خلاف کیا کارروائی کرنی چاہئے تھی؟ یہودی یقیناًاس کا وہی جواب دیں گے جو خود دستور میں موجود ہے۔ دستور کا جواب یہ ہے: ’’وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے سوا کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالے گا‘‘ (دفعہ 26)۔
ہم اس سلسلے میں دستور کی دفعات 17، 23، 24، 32، 34، 37، 38، 39، 44، 45، 46، 49، 50 کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہیں۔ دستور کے مطابق یہودیوں کے اس جواب کے بعد دیکھنے کی صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ حکومت وقت نے مدینہ کے یہودی غداروں اور ظالموں کو جو سزا دی وہ دستور میں درج تھی یا کم تھی یا زیادہ تھی؟ اگر دستور کے مطابق تھی تو حکومت اپنے آئینی، دستوری اور قانونی فرض سے عہدہ بر آ ہوئی اور عدل و انصاف کے نفاذ کی ذمہ داری کو پورا کیا۔ حکومت نے جو سزا دی اگر وہ دستور میں تجویز کردہ سزا سے کم تھی تو حکومت نے دین اسلام کی روح کے مطابق عمل کیا جس کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے عفو و درگزر اور رحمت و رافت سے کام لیا جائے اور اگر سزا جرم سے زیادہ تھی تو زیادتی کی۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔