پیغامِ سیرت کو عام کرنے کی ضرورت ہے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی
ربیع الاول کی بارہ تاریخ گزری چکی ہے،جس کو بڑے اہتمام کے ساتھ یومِ میلاد النبی ﷺکے طور پر منایا جاتا ہے ۔عشق ومحبت کے اظہار کے لئے طرح طرح کے مظاہرے کئے جاتے ہیں ،بہت دھوم دھام سے جشنِ میلادکے پروگرام رکھے جاتے ہیں ،گلیوں کو سجاکر ،سڑکوں کو روشن کرکے ،قمقموں اور روشنیوں سے اجالا کر کے بارہ دنوں تک ہر رات جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور ولادت النبی ﷺکے عنوان پر بیانات کاسلسلہ چلتا ہے۔اور جیسے ہی بارہ ربیع الاول کی تاریخ گزری کہ عشق ومحبت کے دعوے دار سب غائب ہوجاتے ہیں ،اور ایک سناٹا ہر طرف چھا جاتا ہے ۔ ہمیں اس بات کو نہایت سنجید گی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخِ میلا د تو گزرچکی ہے لیکن پیغامِ میلاد باقی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا ۔سرور کائنات ﷺ جس مقصد کے لئے دنیا میں بھیجے گئے وہ مقصد ہمیں سال کے بارہ مہینے ،مہینے کے تیس دن ،دن کے ہر گھنٹہ نبی اکرم ﷺ کے پیغام اور سیرت پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ہمارے نبی ﷺ صرف ایک مہینہ بلکہ چند دن تذکرے کرلینے اور ان کی یاد منالینے کے لئے تشریف نہیں لائے ،اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف چند دنوں تک ان کا ذکر کردینے سے ہم ان کی محبت کا حق ادا کردینے والے شمار کئے جائیں گے،بلکہ نبی اکرم ﷺ پوری زندگی کے لئے اور پوری انسانیت کے لئے اس دنیا میں آئے ہیں ،آپ ﷺ کی لائی ہوئی گراں قدر تعلیمات انسانیت کو زندگی کے ہر موڑ پر رہبری اور رہنمائی کافریضہ انجام دیتی ہیں۔آمدِ رسول کا جشن منانے والے مسلمان اپنے محسن نبی ﷺ کے درد و غم کو ان کی فکر و کڑھن کو بھول گئے اور صرف اظہارِ عقید ت کے غیر اسلامی طریقہ کو کامل ایمان داری اور سو فیصد مسلمانی سمجھ بیٹھیں۔جو نبی ؐ ساری انسا نیت کے دکھ درد کولے کردنیا میں آیا اور اپنے جانے سے پہلے ایک مثالی زندگی کا نمونہ چھوڑ گیا تاکہ صبحِ قیا مت تک آنے والے اسی راستہ پر چل ابدی کامیابیوں سے ہمکنار ہوں۔
یقیناًنہایت قابل افسوس ہے کہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کے تذکروں کو محدود کردیا اور دوسرے لوگ جس طرح اپنے پیشوا اور رہنما کا دن مناکر بھول جاتے ہیں وہی روش مسلمانوں نے اختیار کررکھی ہے ۔اس لئے ضرورت ہے کہ آپ ﷺ جو شریعت اور تعلیمات و ہدایات لے کر آئیں اس پر خود بھی عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیائے انسانیت تک اس کو پہنچانے کی کوشش وفکر کرنے والے بنیں ۔نبی ﷺ کی سیرت نہایت جامع اور کامل ہے ،اللہ تعالی نے ہر اعتبار سے آپ ﷺ کی زندگی کو انسانیت کے لئے نمونہ اور اسوہ بنایاہے ،زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں آپ ﷺ کی تعلیمات نہ ہوں ،ہر موقع اور مرحلہ کے لئے آپ ﷺ نے انسانوں کو مستقل تعلیمات سے نوازا ہے ۔انسانیت کی کامیابی اور ابدی نجات آپ ﷺ کی سیرت پر عمل آوری ہی میں پوشیدہ ہے ،سربلندی اور عروج آپ ﷺ کی سیرت کے بغیر کبھی کسی کو میسر نہی ہوسکتا ہے ۔جس تاریک ترین دور میں آپ ﷺ دنیا میں آکر دنیا کو روشن اور منور کیا ،اور بدی وبے دینی ،جہالت وظلم ،ناانصافی و حقوق تلفی ،خدافراموشی اور بغاوت کا خاتمہ کیا آج بھی انسانیت کو وہی تعلیمات سے مشکلات و مسائل کے بھنور سے نکالا جاسکتا ہے اور اعلی اخلاقی قدروں سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے جن تعلیمات کے ذریعہ دنیا میں انقلاب برکیا اور انسانوں کی کایا پلٹی وہ تعلیمات ہمارے لئے مسلسل پیغام دیتے ہیں کہ ہردور اور ہرزمانے میں ہم انہی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا میں پیارے آقاﷺ کی حقیقی غلامی کا تصور دے سکتے ہیں ۔دنیا ہر عہد میں انہیں تعلیمات کے ذریعہ چین و سکون پاسکتی ہیں ،ہر شعبۂ حیات سے وابستہ انسانوں کی حقیقی کامیابی صرف آپ ﷺ کے لائے ہوئے مبارک دین میں ہے ،آپ ﷺ ہی کے دامن مبارک سے وابستہ ہوکر دوجہاں میں سرخرو وکامیاب ہوسکتے ہیں ۔آپ ﷺ کی ذات بابرکات کو اللہ تعالی نے ساری انسانیت کے لئے نمونہ اور اسوہ بنایا ،صبحِ قیامت تک ہر فردِ بشر آپ ﷺ ہی کے نقشِ قدم کی پیروی میں سربلند ہوسکتا ہے ۔آپ ﷺ سے اٹوٹ وابستگی اور سچی محبت ہی ایمان کامل کی علامت ہے ،اور اپنی تمام تر خواہشات ومرضیات کو آپﷺ کی شریعت وتعلیمات پر قربان کرنے کے نتیجہ میں ہی مومنِ کامل بن سکتے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کی بعثت عرب و عجم ،گالے و گورے ،شہری و دیہاتی ،پڑھے لکھے اور جاہل، مالد ار وغریب ،اپنے اور پیرائے ،سب کے لئے ہوئی ،آپ ﷺ کی تعلیمات قیامت تک زندہ رہیں گی اور انہیں تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کا سفینہ آگے کامیابی کے ساتھ بڑھ پائے گا۔دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرلے لیکن اسے آپ ﷺ کی تعلیمات کے سامنے سرنگوں ہونا ہی پڑھے گا۔
زبان سے بلند بانگ دعوے ہو اور زندگی عمل سے خالی اور سیرت و کردار میں نبوی تعلیمات کی جھلک نہ ہوتو وہ محب صادق نہیں قرار دیا جائے گا ۔ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے ساری انسانیت کے اسوہ اور نمونہ بناکر بھیجا ہے، خود قرآن کریم میں اس کا اعلان فرمایاکہ :لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔( الاحزاب:21)حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ۔اگر کوئی اللہ تعالی سے محبت کا طلب گار ہے تو اس کو حکم دیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی پیروی کرے چناں چہ ارشاد فرمایا:قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم ( اے پیغمبر لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہوں کومعاف کردے گا۔( ال عمران :31)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جومجھ سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔( مشکوۃ:حدیث نمبر175 )اور ایک حدیث میں ارشاد ہے :لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ۔( شرح السنۃ:حدیث نمبر:103) تم میں سے کوئی ( حقیقی) مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایت و تعلیم کے تابع نہ ہوجائے۔محبتِ رسول ﷺ کا حق صرف یہ نہیں ہے کہ ایک جلسہ سن لیں اور کسی جلسہ کا اہتمام کردیں بلکہ محبت رسول ﷺ کے لئے ہمیں سیرت نبوی ﷺ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا پڑے گا ،ہمارا عمل اور رہن سہن ،معاملات او ر معاشرت سے سیرت رسول ﷺ نمایاں ہونا چاہیے ،ہماری زبان اور فکر سے اسوۂ حسنہ کی عکاسی ہونا چاہیے ،آپ ﷺ ہی کے فرمان کے مطابق مظلوموں کی مدد بھی کرنا اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کی تدبیریں بھی کرنا ہوگا،ہم کوشش کریں کہ ہم دنیا والوں کے سامنے اپنے پیارے آقاﷺ کی حقیقی ترجمانی کرنے والے بنیں،ہمارا کوئی عمل اور طریقہ اسلام اور پیغمبر اسلام پر انگلی اٹھانے والے والا نہ ہواور دشمن کو ہمارے دین کا مذاق آڑانے کاموقع نہ ملے ،ہمارے سیرت رسول کو اپنانے کے نتیجہ میں دشمنان اسلام اور معاندین نبی کی تمام تر سازشیں اور تحریکیں ناکام و نامراد ہوجائیں گی ،اور کبھی ان کو نبی کی شان میں گستاخی یا بے ادبی کرنے کی جسارت نہیں ہوگی ۔
ساری انسانیت کی بھلائی اور خیرکی تعلیمات لے کرآنے والے نبی ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کو سامنے اچھے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی بعثت کو ساری انسانیت کے رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا:وما ارسلنا ک الا رحمۃ اللعالمین۔(الانبیاء:107 )ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکربھیجا ہے۔ جس نبی ﷺ کے لاتعداد احسانات دنیائے انسانیت پر ہیں ،جو ساری انسانیت کی بھلائی کے لئے آیا،جس نے ہر کٹھن مرحلہ پر انسانوں کا ساتھ دیا اور مشکلات سے نکلنے کا نسخہ عطا کیا ،جس نے عورتوں کو عزت دی ،یتیموں پر دستِ شفقت پھیرا،بیواؤں کو سہارا دیا ،غلاموں کو آزادی دلائی ،مظلوموں کے لئے آواز اٹھائی ،ظالموں کو ظلم سے روکا ،دشمنوں کو معاف کیا ،پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیں،تجارت ومعیشت کے اصو ل دئیے ،خانگی اور خارجی زندگی گزارنے کے ڈھنگ بتائے ،اچھے اور برے کی تمیز کروائی ،نفع و نقصان سے آگاہ کیا ،امن وانصاف کی تعلیمات دیں ،ناحق قتل و خون ریزی سے منع کیا ،بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکا، خلوص و محبت کا سبق سکھایا ۔ دنیا والوں کے سامنے پیارے آقا ﷺ کی سیرت کو اچھے انداز میں پیش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اورآپ ﷺ کی حیات طیبہ کو عملی طور پر اختیار کرکے اس کی دلیل پیش کرنا چاہیے ،اور سیرت کے پیغام کو انسانیت تک پہنچانے اور تعلیماتِ نبوی ﷺ کو عام کرنے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے گھرانوں کو سنت کے سانچے میں ڈھالیں ،اپنی اولاد کو دینی تربیت سے آراستہ کریں ، ان کے دل میں محبت رسول اور اتباعِ سنت کے جذبات کو فروغ دیں ،نوجوان اپنی حلیہ اور لباس ،وضع قطع کے ذریعہ اور اپنی اداؤں سے سیرت رسول کو زندہ کریں ،خواتین میں دینی شعور بیدا ر کیا جائے ،اخلاق و حیا کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور مغربی تہذیب کی نقالی سے ان کو بچایا جائے ،گھرکے ماحول کو اسوۂ نبوی کی روشنی میں سنواراجائے،اوراخلاق و کردار ،رحم دلی و شفقت ،خیرخواہی اور ہر ایک کی ہمدردی کا مظاہر ہ کریں ،گہری بصیرت اور حکمت سے آراستہ ہوکر اصلاح اور انقلاب کی کوشش کریں ۔

تبصرے بند ہیں۔