بارے ’سید‘ کا پھر بیاں ہو جائے !

عالم نقوی

آج 17 اکتوبر ہے۔  ہمارے اُس عظیم لیڈر کا دو صد سالہ یوم پیدائش جس نے 1857 کے بعد خستہ و شکستہ اور پسماندہ و درماندہ ہو جانے والی قوم کو نہ صرف دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے لائق بنا  دیا بلکہ اُسے وہ راستہ بھی دکھا دیا جس پر چل کر، وقارِ گم گشتہ کی بازیافت ممکن تھی۔

نہ سر سید  بے دین تھے، نہ ملحد، نہ کافر۔ یہ شاخسانہ اُس فکر کی پیداوار تھا جو تعقل، تفکر اور تدبر کے قرآنی حکم  پر لفظاً اور معناً  عمل نہ کرنے والے، ہر دور کے اُ ن لوگوں میں موجود رہی ہے  جو خود کو  مؤمن کہتے  اور سمجھتے تھے لیکن اسلام اور قرآن کبھی ان کے سینوں میں نہیں اُتر سکا، ہمیشہ اُن کے حلقوم ہی میں اَٹکا رہا۔

سر سید کی پوری زندگی ایک کھلی  کتاب کی طرح آج ہمارے سامنے ہے۔ اُن کا پورا سرمایہ فکر و قلم بھی آج ہر عام و خاص کی دسترس میں ہے اور وہ یہ بتاتا ہے ہے کہ وہ ’’نافع علم اور اس کی یکتائی‘‘ کے قائل تھے۔اَقوام ِعالم اور ملتِ اسلامیہ کی تاریخ  کے بغور مطالعے کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے تھے کہ  قوموں کے عروج و زوال  کے اُصول اللہ جل جلالہ  کی سُنَّت کے پابند ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

چودہویں صدی عیسوی  کے اختتام اور پندرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں، سقوط ہسپانیہ کے فوراً بعد، علم کو دین اور دنیا کے خانوں میں بانٹ دیا جانا وہ ظلمِ عظیم تھا جو اسلام اور اہل ایمان کے دائمی دشمن یہودیوں نے ایجاد کیا، اور پوری دنیا میں اُس کی ترویج  صرف اس لیے کی، کہ وہ، مسلمانوں کی عظیم  علمی  قیادت اور بے مثل  ترقی کی  آٹھ سو سالہ تاریخ   کے دھارے کو، کسی بھی قیمت پر تبدیل کر دینا چاہتے تھےاور وہ اپنی اس ابلیسی سازش میں کامیاب ہو گئے۔

 اب سر سید کی اہمیت کو اس طرح سمجھیے کہ اگر سقوط ہسپانیہ کے وقت یا پندرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں کوئی ’سید احمد ‘ہوتا تو آج امت مسلمہ کی تاریخ کچھ اور ہی  ہوتی !اگر پانچ سو سال پہلے بھی کوئی  سید احمد  پیدا ہو گئے ہوتے تو آج  دہلی، لاہور، قسطنطنیہ، بغداد اور قاہرہ میں بھی اوکسفورڈ اور کیمرج جیسی عظیم یونیورسٹیاں ہوتیں اور شاید علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کی عمر بھی ایک سو سال  نہیں پانچ سو سال ہوتی !

یہ ہسپانیہ اور بغداد کا عظیم  عرب مسلم علمی سرمایہ تھا جو پندرہویں صدی عیسوی میں یورپ کی  بیداری (نشاۃ ثانیہ )  کا نقیب بن گیا اور  ترک اور مغل حکمراں  مسلمانوں کی علمی قیادت اور ترقی کی زندہ روایت کو آگے بڑھانے میں ناکام ہوگئے۔  برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرح، ترکستان، ہندستان، افغانستان، خراسان اور آزر بائیجان وغیرہ میں  علمی جامعات قائم کرنے  کے بجائے  وہ سب ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹنے  میں لگے رہے !

 تیمور لنگ تو ذہنی طور پر بھی لنگڑا اور دل کا اندھا تھا ورنہ اُس نے 1402  عیسوی میں اَنقرہ (ترکی) پر  عین اُس وقت حملہ نہ کیا ہوتا جب عثمانی  ترک سلطان بایزید اَوَّل کی فوجیں بوسنیا، آرمینیا، سربیا  اور بلغاریہ کو فتح کرنے کے بعد قلب یورپ ہنگری  اور آسٹریا کے دروازے تک پہنچ چکی  تھیں۔ جن  کی فتح کا مطلب پورے یورپ   کا ترک امپائر کے زیر نگیں آجانا تھا !جو صرف تیموری حماقت کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔ ترک امپائر پر یہ ضرب ِ تیموری بھی شاید اسی لیے لگی کہ  ہوس ِملک گیری کے اعتبار سے   سلطان بایزید اور تیمور لنگ بھی  ایک ہی جیسے اور اغلباً  ایک ہی جیسی   ذہنی سطح  کے حکمراں  تھے۔ کیونکہ علم نافع ، علما ے حق  اور عظیم  عرب اسلامی  ہسپانوی سرمایہ علم کے تئیں دونوں کے رویے میں کوئی فرق نہ تھا !دونوں میں سے کوئی ایک بھی اسلام راستین کا نمائندہ ہوتا تو آج دنیا کی شکل  اور تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔

 آج پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کو کئی سو نہیں کئی ہزار سر سیدوں کی ضرورت ہے !

تبصرے بند ہیں۔