بازی کس کے ہاتھ؟

بی جے پی جانتی ہے کہ اترپردیش انتخابات میں مسلمان کسی بھی سیکولر پارٹی کی طرفداری تو کرسکتے ہیں، لیکن ان کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف نہیں ہوگا۔ ان دنوں بی جے پی کے لیڈران بھی کھل کر یہ بیان دے رہے ہیں کہ مسلمان بی جے پی کو پسند نہیں کرتے۔ یہ حقیقت ہے، لیکن کیوں پسند نہیں کرتے، وہ اس حقیقت کی تہہ تک جانا نہیں چاہتے۔ اس بیان کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ جب مسلمان بی جے پی سے فاصلہ رکھتے ہیں تو اقتدار میں آنے کے بعد حکومت بھی مسلمانوں سے فاصلہ رکھے گی۔ اس فاصلے کی نوعیت مختلف ہوگی۔ اس فاصلے میں نفرت اور دشمنی کا بھی دخل ہوگا۔ مرکز میں آنے کے بعد جس طرح حکومت نے مسلمانوں سے فاصلہ بنایا، یہی کھیل ان ریاستوں میں بھی شروع ہوگا، جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہوگی۔ مدھیہ پردیش، راجستھان ، مہاراشٹر میں باضابطہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اڑیسہ میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا مگر اصل میں ٹارگیٹ وہاں مسلمانوں کی آبادی رہی۔ جب ریاستی حکومت کو اس بات کا احساس ہو کہ آپ کی نفرت اور دشمنی کے باوجود وہ اقتدار میں آئی ہے تو ظاہر ہے وہ ہر سطح پر آپ کو نیچا دکھانے اور کمزور کرنے کی کوشش کرے گی۔
اب ذرا کچھ دیر کے لیے موجودہ، حالات کو دیکھا جائے۔ نوٹ بندی کے بعد آر بی آئی اب تک پچاس سے زائد بار اپنے اصول وضابطے میں تبدیل کرچکی ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی بے روزگار ہوچکی ہے۔ اڈانی، امبانی اور پے ٹی ایم پر محبتوں کی بارش ہورہی ہے۔ ۳۰ بی جے پی لیڈران کروڑوں کے کالے دھن کے ساتھ پکڑے جاچکے ہیں۔ حزب اختلاف کے ہنگامے اورراہل کی بیان بازیوں کے باوجود کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اور میڈیا ہمیشہ کی طرح مودی کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیجریوال اورراہل مودی پر رشوت خوری کا الزام لگاتے ہوئے ہار چکے ہیں۔ اور حکومت ان لوگوں کا مذاق بنانے میں کمر کس چکی ہے۔ اترپردیش کے عوام بالخصوص مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو وہ وہی کرے گی، جو وہ چاہے گی۔ اور حزب مخالف کی نعرے بازی اور مخالفت سے بھی حکومت کا ایک پتہ تک نہیں ہلے گا۔ اگر وہاں بی جے پی کی حکومت بنتی ہے اور بی جے پی مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرتی ہے تو نہ کوئی بولنے والا ہوگا نہ روکنے والا۔ نہ ٹوکنے والا۔ کیونکہ بی جے پی کے پاس اس بات کا سیدھا جواب ہے کہ مسلمانوں نے اس سے فاصلہ بڑھایا اور بی جے پی نے مسلمانوں سے اس لیے حساب برابر۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر مسلمان بی جے پی کا ساتھ دیتے، تب بھی نتیجہ کم وبیش یہی نکلتا۔ کیونکہ ہندو راشٹر کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب مسلمان کمزور ہوجائیں اور بی جے پی آہستہ آہستہ تمام ریاستوں پر قبضہ کرلے۔ نوٹ بندی کے بعد، اس بات کی گونج مودی کے نئے بیان سے بھی ظاہر ہوئی ہے۔ آپ غورکریں تو یہ بیان نوٹ بندی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایک ملک ایک انتخاب کا بیان اقتصادیات اور ہندوستانی معیشت کو سامنے رکھ کر نہیں دیا گیا بلکہ یہاں بھی وہی جذبہ پوشیدہ ہے، جہاں مودی ہندوستان کی تمام ریاستوں پر بی جے پی کے قابض ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ بی جے پی آہستہ آہستہ ان قلعوں کو فتح کرتی جاتی ہے تو ہندو راشٹر کا خواب پھر خواب نہیں ہوگا، بلکہ ہندوستان کے لیے ایک خوفزدہ کرنے والی حقیقت بن جائے گا۔ ہندوستانی سیاست میں یہ ایشو پہلے بھی اٹھایا جاچکا ہے۔ لیکن اس بار یہ معاملہ سنگین ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوتو کی سیاست کو مسلم مخالف لہرمیں تبدیل کرکے بی جے پی مضبوط دیوار کی طرح اکثریت کو اپنے قابو میں کر لے گی اور غیر متحدہ سیاسی پارٹیوں کی کوئی مخالفت کسی کام نہیں آئے گی۔ اس کے بعد جو ہوگا، مسلمانوں کو اس کے لیے ابھی سے تیار ہوجانا چاہیے۔ اور اسی لیے ملک کے تحفظ اور امن وسکون کا جائزہ لینے والی نگاہیں اترپردیش کے انتخابات پر مرکوز ہیں کہ یہ واحد راستہ ہے جہاں سے امید کی ایک موہوم کرن نظر آتی ہے یعنی اگر یہاں بی جے پی کی فتح کے رتھ کو روک دیاگیا تو آگے کچھ اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پہلے حال یہ تھا کہ بی جے پی لیڈران نے کئی موقعوں پر مسلمانوں کو پاکستانی ٹھہرایا۔ نئے سیاسی پس منظر میں حزب مخالف کو سرعام پاکستانی ٹھہرایا گیا اور کوئی بھی سیاسی پارٹی اسکا منہ توڑ جواب پیش نہیں کرسکی۔ کیوں؟ کیونکہ غیر متحدہ سیاسی پارٹیوں پر میڈیا اور حکومت قابض ہے۔ مرکزی حکومت، حزب اقتدار کو ناکام بنانے کے طریقے جان گئی ہے۔ اس مجبور سیاسی فضا مین ساری طاقت بی جے پی کے پاس ہے اور اس طاقت کو روکنا ضروری ہے۔ اترپردیش کا معاملہ یہ ہے کہ ابھی صرف خوش فہمیوں کا بازار گرم ہے۔ ٹی وی چینلس الگ الگ سروے کے ذریعہ کہیں سماج وادی کو بے وقوف بنارہے ہیں اور کبھی بی ایس پی کے سر پر تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ خوش فہمیاں اس لیے پیدا کی جارہی ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیاں متحد ہوکر سامنے نہیں آئیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار یہ کہہ چکے ہیں کہ اترپردیش میں ’مہا گٹھ بندھن‘ تبھی ہوگا جب ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان اتحاد ہوگا۔ ظاہر ہے، ان دونوں پارٹیوں میں اتحاد ممکن نہیں۔ کانگریس، اجیت سنگھ کی پارٹی اور ایس پی کا اتحاد ممکن ہے۔ لیکن کیا یہ اتحاد اپنی جیت کا یقین دلا سکتا ہے جبکہ سامنے بی ایس پی بھی ہے۔؟ اور دونوں کے درمیان گہری اور سیدھی ٹکر بھی ہے۔ اویسی اور بی ایس پی کے اتحاد کی خبریں بھی گرم ہیں۔ لیکن ایسا لگتا نہیں کہ دونوں پارٹیوں میں اتحاد ممکن ہوسکے گا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یوپی انتخابات میں جیت کا پیمانہ بہت حد تک مسلمانوں کے ووٹ سے طئے کیا جائے گا اور موجودہ صورتحال میں ابھی بھی مسلمانوں کا سیاسی کنفیوژن برقرار ہے کہ وہ کس سمت جائیں اور کس کو ووٹ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں نے بھی کبھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ مگر مجبور ومظلوم مسلمانوں کی مجبوری سے خوفزدہ کرنے والی سیاسی فضا میں بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے ان میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اور مسلمان اس شک کے دائرے میں بھی ہیں کہ اگر نتیجہ کسی ایک کے حق میں نہیں نکلتا ہے تو ایس پی، بی ایس پی دونوں کا رجحان، اقتدار کے لیے بی جے پی کی طرف جھک سکتا ہے۔ ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن اگرمسلمانوں کا متحدہ فیصلہ کسی ایک پارٹی کا انتخاب کرتا ہے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو غیر متحد ہونے کے نتائج سے باخبر ہونے کی ضرورت ہے۔
اترپردیش کی موجودہ سیاسی فضا روزانہ ایک نئے انقلاب سے دوچار ہے۔ سماجوادی پارٹی کے آپسی تنازعات ایک بار پھر سامنے آگئے ہیں۔ اس بار ملائم سنگھ نے شیوپال یادو کے ساتھ مل کر، ٹکٹ بٹوارے پر اکھلیش کوحاشیہ پر ڈال دیا ہے۔ اکھلیش اب خاموش رہنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اس تنازعہ کا اثر ووٹ بینک پر پڑے گا۔ اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ مودی حکومت نے سیاہ دھن کو لے کر بی ایس پی سپریمو مایاوتی اور ان کے بھائی کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایک ایسا سیاسی دباؤ ہے، جہاں مایاوتی کے جھکنے کے آثار زیادہ نمایاں ہیں۔ بی جے پی نے نوٹ بندی کے تماشے کے بعد ایسی فضا پیدا کی ہے جہاں تمام سیاسی پارٹیاں ایک خاص طرح کے دباؤ کا شکار ہیں۔ مودی کی مخالفت ہورہی ہے مگراس مخالفت میں دم اس لیے نہیں ہے کہ سیاہ دولت کے نام پر کبھی بھی ان پارٹیوں کا ’شکار‘ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو اترپردیش انتخابات کا ایک طرفہ جھکاؤ بی جے پی کی طرف نظر آتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں بھی مسلمانوں کا اتحاد بازی پلٹنے کا کام کرسکتا ہے۔ مسلمان دانشمندی سے کام لیں تو اس بار اصل ’کنگ میکر‘ وہی ہونگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔