دلت مسلم اتحاد مایاوتی کے بغیر

بی ایس پی لیڈر مس مایاوتی مسلسل ایک بات کہہ رہی ہیں کہ فرقہ پرستوں کو روکنے کے لیے دلت مسلم اتحاد ضروری ہے۔ ان کی نظر میں یہ ہے کہ یہ ا تحاد ہو اور اس کی قیادت میرے ہاتھ میں ہو۔ ہم اور ملک کے اہم مسلمان یہ مانتے ہیں کہ دلت مسلم اتحاد پہلے بھی ضروری تھا۔ لیکن اب تو بہت ہی ضروری ہے لیکن مسلمان اس کے ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ قیادت مس مایاوتی کے ہاتھ میں نہ ہو۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی جب شروع کی تھی اور مسٹر کانشی رام کے بعد وہ اکیلی میدان میں اتری تھیں تو ہر طرف سے ان پر حملے ہورہے تھے۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ایک چماری ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والی دلت لڑکی کا ابھرنا اونچے سماج والوں کو برداشت نہیں ہورہا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے سیاسی اتحاد شروع کیے۔ سب سے پہلے بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا اور چھ مہینے پہلے حکومت کی اور جب بی جے پی کا نمبر آیا تو حکومت سے رشتہ توڑ لیا۔ اس کے بعد ایک کانگریسی نے 25 ممبر توڑ کر حکومت کو سہارا دیا اور خود وزیر بنے۔ اس کے بعد بھی انھوں نے یہی کیا۔ 2002ء میں انھوں نے ملائم سنگھ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا۔ 50 ممبر جیت کر آئے وہاں بھی حکومت پہلے بنائی اور چھ مہینے کے بعد وہی کیا جو بی جے پی کے ساتھ کیا تھا۔ اس وقت اٹل جی کی حکومت تھی اور گورنر وہ تھے جن کے بارے میں سماج وادی پارٹی کے صدر نے کہا تھا کہ ایسا گورنر پہلی مرتبہ دیکھا جس کے سر پر انٹینا ہو۔ وہ اس لیے خفا تھے کہ گورنر نے ملائم سنگھ کی یہ درخواست نامنظور کردی تھی کہ اس وقت تو حکومت بنانے کے لیے ممبروں کی تعداد کم ہے لیکن حکومت بنانے کے 15 دن کے بعد ہاؤس میں اکثریت ثابت کردوں گا۔ لیکن گورنر نے انکار کردیا تھا۔
اچانک امرسنگھ میدان میں آئے اور وہ راج ناتھ سنگھ جو اس وقت مرکزی وزیر تھے ان کو بلا کر لائے اور انھوں نے گورنر سے کہا کہ 15 دن حکومت کرلینے دیجئے نہ انہیں ۵۰ ممبر ملیں گے نہ اکثریت ثابت کریں گے اس کے بعد صدر راج میں آپ حکومت کیجیے گا۔ اگر آپ نے موقع نہیں دیا تو سب کہیں گے کہ آپ خود حکومت کرنا چاہتے تھے اس لیے آپ نے ملائم سنگھ کو موقع نہیں دیا۔ گورنر صاحب مان گئے۔ اور ملائم سنگھ نے مایاوتی کے پچاسوں ممبروں کو توڑ لیا۔ جو وزیر بننے کے قابل تھے انہیں گدھوں اور گھوڑوں کا وزیر بنادیا باقی کسی کو چیرمین اور کسی کو کچھ غرض کہ سب کو لال بتی کی گاڑی دے دی۔
اس کے بعد 2007ء میں انھوں نے برہمن سماج سے سودا کیا اور برہمنوں اور مسلمانوں نے دل کھول کر ووٹ دئے۔ اور بھرپور اکثریت سے انہوں نے حکومت بنائی لیکن ان کی پیسے کی کمزوری نے انہیں اتنا بدنام کردیا ہے کہ اب نہ برہمن اور نہ مسلمان حد یہ ہے کہ سمجھدار دلت بھی ان سے کٹ گیا۔ 2007ء کی شاندار کامیابی انہیں ہضم نہیں ہوئی۔ انھوں نے ایک ہزار کے نوٹوں کا ہار بنوایا جو ہاتھی کی ٹانگ کی برابر یا زیادہ موٹا تھا اور 10۔15 فٹ لمبا تھا جس میں ایک ہزار کروڑ ہوں یا دس ہزار کروڑہوں یہ انہیںیا نسیم الدین صدیقی کو معلوم ہوگا۔ یہ اس مایاوتی نے بنوایا تھا جو 10 برس پہلے کہہ چکی تھیں کہ میرے دادا نے 32 بیگھا زمین میرے باپ کو دی تھی کہ اس آمدنی سے میری پوتی کو تعلیم دلانا اس وقت اس پوتے کا ذکر نہیں تھا جو پہلی بار کروڑوں روپے جمع کرکے سامنے آیا اور بتا گیا کہ مایاوتی کا بھائی ہے جس کی 50 سے زیادہ کمپنیاں ہیں۔
مایاوتی کی یہ بات اب چھپی نہیں ہے کہ وہ ۵ کروڑ روپے میں ٹکٹ فروخت کررہی ہیں۔ مودی جی کی طرف سے نوٹ منسوخی کے اعلان کے بعد عام شہرت ہوئی کہ مایاوتی نے جن کو ٹکٹ دے دئے تھے ان سے کہا کہ وہ آکر اپنے روپے لے جائیں اور اتنی قیمت کا سونا لادیں اس کے بعد کیا ہوا یہ نہیں معلوم لیکن وہ 104کروڑ روپے جو لینے والا کوئی نہیں تھا وہ دہلی کے ا یک بینک میں جمع کرادئے ۔ اب اس کے صفائی میں جو منہ آرہا ہے کہہ رہی ہیں۔
مس مایاوتی نے نسیم الدین صدیقی اور ان کے بیٹے کو اس کام پر لگایا ہے کہ وہ مسلمانوں میں جائیں اور بتائیں کہ بہن جی نے ان کے لیے کیا کیا کیا ہے؟حیرت کی بات ہے کہ نسیم الدین صاحب نے ان سے یہ نہیں کہا کہ جن کے لیے کچھ کیا جاتا ہے وہ انہیں خود نظر آتا ہے۔ وہ اندھے نہیں ہیں جو ہاتھ پکڑ کر بتایا جائے۔ وہ بہرحال وفادار ہیں انھوں نے اس پر عمل شروع بھی کردیا لیکن ان کی مسلمانوں میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور مسلمان خود جانتا ہے کہ مس مایاوتی کو جب جس کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے آواز دیتی ہیں۔ انھوں نے آج نسیم الدین کے بیٹے کو میدان میں ا تارا ہے لیکن ان کے لیے وہ کیوں نہیں کیا جو اپنے بھائی کے لیے کیا یعنی 10 کمپنیاں ان کی کیوں نہیں بنوائیں؟ انھوں نے آج تک کسی مسلم گاؤں کو جانے والی سڑک کو پکا بنوایا یا اسے آئیڈیل گاؤں بنوایا؟ جو خاتون صرف اپنی ذات اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی کو نہ دیکھے اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ قیادت کرے۔
ہم ان بے وقوفوں میں نہیں ہیں جو اترپردیش میں مسلمان وزیر اعلیٰ بنوانے کی بات کرتا ہو۔دلت مسلم محاذ بنے گا اور اس کی قیادت ایک بہت قابل، دردمند، سیاسی ذہن رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ دلت کے ہاتھ میں ہوگی۔ جو ضرورت پڑے تو قوم کو ایک گھنٹہ خطاب کرسکے۔ مس مایاوتی 20 برس سے سیاست میں سرگرم ہیں، چار دفعہ وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں۔ آج بھی اگر عام قسم کے چار جملے بھی بولنا ہوں تو انہیں موٹا موٹا کاپی پر لکھوا کر لاتی ہیں اور چھٹے درجہ کے بچہ کی طرح اٹک اٹک کر سناتی ہیں حیرت ہے کہ جو ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں انہیں شرم نہیںآتی؟
انھیں صرف ایک بار ۵ برس حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان ہی برسوں میں انھوں نے دہلی میں کروڑوں روپے کی کوٹھی اور اپنے بھائی کی کروڑوں کی کمپنیاں بنوادیں۔ ان کے دور میں جس نے جو کام چاہا کروڑوں دے کر کرایا جس نے نہیں دیا وہ منہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ صرف دولت کی پجاری ہیں نہ دلتوں کی ہیں نہ برہمنوں کی۔ان کی حکومت میں نام کے لیے مسلمان وزیر رہے لیکن کسی کو اختیار نہیں تھا اور ۵ سال کے بعد سب کو بے ایمان کہہ کر نکال دیا۔ نسیم الدین صدیقی با اختیار ہیں لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کے بلانے پر چلے جائیںیا کسی کے کام کی سفارش ہی کردیں۔ ان کی شہرت ہے کہ وہ مایاوتی کی ضرورت ہیں۔ خدا انہیں خوش رکھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔