2016کی یاد میں

رات کے بارہ بجنے میں کچھ سیکنڈ باقی ہیں، پوری دنیا کی نظر گھڑی کے سیکنڈوں پہ، بچے بوڑھے جوان سب شوق کا چراغ جلائے ہمہ تن گوش، قحبہ خانوں، نائٹس کلبوں میں ڈی جے اور بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر خاموش، لائٹیں آف، سب گھڑی کی طرف ٹکٹکی باندھے نئے سال کے منتظر، جیسے ہی گھڑی نے بارہ بجائے، پوری دنیا میں روشنی کا سیلاب آگیا، چاروں طرف خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے، دھڑا دھڑ دھڑا دھڑ پٹاخے پھوٹنے لگے، ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا، نیا سال، نیا انقلاب مبارک ہو، خدا کرے یہ سال ہم سب کی زندگیوں میں خوشیاں لیکر کے آئے، پوری دنیا میں امن و سلامتی ہو، دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ ہو، ہر طرف امیدوں اور آشاؤں کے دیپ جلیں، چاروں طرف آرزؤوں کے چراغ روشن ہوں، ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو، غم کا دور دور تک نام ونشان ہو.
مگر کیا ہوا، سال آیا، چلا بھی گیا، ساتھ میں ان گنت زخم، اور لا محدود تلخ یادیں دے کے چلا گیا، اس سال سیاست نے ایسے ایسے گل کھلائے کہ انسانیت سسک سسک کر مر گئی، حکمراں ہی آدم خور بن گئے، بہت سارے چہرے بے نقاب ہوئے، اسلامی جمہوریہ انقلاب کی سازشیں رنگ لائیں، حقوق انسانی کی ساری تنظیمیں ڈھکوسلہ ثابت ہوئیں.
اس سال نے ہمیں ملکی سطح پہ بھی زخم دیا، اور عالمی سطح پہ بھی، وطن عزیز میں ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کی گئی، کشمیر سے لیکے بھوپال تک ان گنت زخم دئیے گئے، تیرہ چودہ سالہ معصوم بچوں کی آنکھیں چھین لیں گئیں، ماؤں کی گودیں سونی کردیں گئیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ بنا دی گئیں، ہندو مسلم منافرت کی وہ فضا تیار کی گئی کہ لوگ ایک دوسرے سے ڈرنے لگے، لفظوں پہ جنگ ہوئی، معانی بے اثر ہوکے رہ گئے، احساسات کے پردوں سے چھیڑ چھاڑ کیا گیا، گائے کی حفاظت کے نام پہ مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا، پاکستان جانے کے مشورے دئیے گئے، تشدد عدم تشدد، لو جہاد، گھر واپسی، بھارت ماتا پہ خوب بحث و مباحثے ہوئے،  ہر چیز کو نیشنلزم اور دیش بھکتی سے جوڑا گیا، سوال کرنا جرم قرار پایا، اور حکومت کی پالیسیوں پہ نقد کرنا غداری کا مترادف بن گیا.
اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو عملی طور پہ مفلوج بنانے کے لئے جامعہ ملیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پہ حملہ کیا گیا، مسلم پرسنل لاء میں نقب زنی کی کوشش کی گئی، مسلم تنظیموں کو سرویلانس پہ رکھا گیا، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کی تنظیم آئی.آر.ایف پہ غیر قانونی طریقے سے پابندی لگادی گئی، ایک یونیورسٹی سے نہایت ہی لائق و فائق اسٹوڈنٹ غائب ہوگیا، غرضیکہ اس سال ملک عزیز میں اتنے دکھ ملے ہیں کہ درد بھی بیچارہ پریشان ہے کہاں سے اٹھے.
اس کے علاوہ جب ہم عالمی منظرنامے پہ اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہر طرف ہمیں بم دھماکے، چیخ و پکار، اور آہ بکا کی آوازیں سنائی دیتیں ہیں، اس سال بم دھماکے اتنے کثرت سے ہوئے کہ لوگ ان آوازوں کے عادی ہوگئے، ان کے کان درد کے آشنا ہوگئے، ان کی آنکھیں دھماکوں کی خبروں سے مانوس ہوگئیں، جہاں حالات اچھے تھے، وہ بھی خطرناک موڑ پہ آ گئے، اور تو اور مسجد نبوی تک میں دھماکے ہوگئے.
اس سال عالمی سیاست نے اپنی دکان خوب چمکائی، انسانیت کو ہر کسی نے تیاگ دیا، مذہب پر مفاد کو فوقیت دی، بہت سارے ملکوں کے اسرائیل سے رشتے استوار ہوئے، برما جل گیا، انسانیت کے علمبردار انسانیت کی ڈفلی بجاتے رہ گئے، ایران، روس اور امریکا کے مثلث نے عالم عرب کو اپنے نرغے میں اس طرح جکڑ لیا کہ اس کی قیمت سقوط حلب کی صورت میں ادا کرنی پڑی، لاکھوں مسلمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، بہت سارے عرب ملکوں کے مستقبل پہ خطرے کا تلوار رقصاں ہے.
حقیقت میں آنے والا مؤرخ جب اس سال کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اسے سمجھ ہی نہیں آئے گا، کہاں سے شروع کرے، کہاں پہ ختم کرے، ہر روز نیا واقعہ، ہر دن نیا حادثہ، اور ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر.
ایک بار پھر نئے سال کی آمد آمد ہے، تہانی اور مبارکبادیوں کا دور دورہ ہے، اس موقع پر فیض کی یہ نظم رہ رہ کر میری زبان پر آرہی ہے، آپ بھی پڑھ لیں:
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی ، تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ايک بات وہی
آسماں بدلا ہے افسوس، نہ بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہيں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے
جنوري، فروري اور مارچ پڑے گی سردي
اور اپريل، مئی جون ميں ہو گی گرمی
تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا
تو نيا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی
بے سبب ديتے ہيں کيوں لوگ مبارک باديں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں
تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی
(فیض احمد فیض)
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔