خانگی امن کا تحفظ بذریعہ طلاق

خانگی امن کا تحفظ بذریعہ

ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی جامعی
طلاق طلاق اسلام میں کو ئی پسندیدہ شئ نہیں بلکہ جائز چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابغض الحلال إلی اللہ الطلاق( ۱) اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے۔ ما احل اللہ شیئا أبغض الیہ من الطلاق (۲) اللہ نے طلاق سے زیادہ کسی ناپسندیدہ چیز کو حلال نہیں قرار دیا۔ لیکن کبھی کبھی جب زوجین کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان نباہ کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا اور اس کی وجہ سے خانگی امن و سلامتی سخت خطرہ میں پڑ جاتی ہے ، تو ایسی صورت میں طلاق کے ذریعہ امن کی فضا کو بحال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاہم اسلام زوجین کے اس مقدس قلعہ کو بیک جنبش لب ڈھانے اور اس روشن چراغ کو شوہر کی محض ایک پھونک سے بجھانے کی اجازت نہیں دیتا ہے وہ اس عظیم رشتہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور نا مساعدحالات میں بھی صبر کے ساتھ اسے ٹوٹنے سے ہر ممکن بچانے کا حکم دیتا ہے۔ وہ مرد وں کو مخاطب کر کے کہتا ہے ۔ و عاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم . ( نساء:۲۶) اور ان کے ساتھ معقول طریقے کا برتاؤکرو ۔ اگرتم ان کو ناپسندکرتے ہو تو بعید نہیں کہ ایک چیز کو تم ناپسندکرو اور اللہ تمہارے لئے اس میں بہت بڑی بہتری پیدا کرے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیوی کی برائیوں کے مقابلہ میں اچھائیوں اور عیوب کے مقابلہ میں اس کی خوبیوں پر نظر رکھنا چاہیئے ۔ لا یفرک مومن مومنۃً إن سخط منہاخلقا رضی منہا غیرہ(۳) کوئی مومن کسی مومنہ سے نفرت نہ کرے۔ا گر اس میں ایک خصلت نا پسندیدہ ہوگی تو دوسری خصلت پسندیدہ ہوگی۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی اس ہدایت کے باوجود قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر شوہر یہ محسوس کرے کہ بیوی کی طرف سے نافرمانی کا صدور ہو رہا ہے اور بیوی اس کے خلاف سر اٹھا رہی ہے ، تو کلمات خیر، مؤثر نصیحت اور حکیمانہ باتوں کے ذریعہ اس کی اصلاح کی کوشش کرے ۔لیکن جب نصیحت کا گر ثابت نہ ہو تواس کو اس کے بستر پر چھوڑ دے تاکہ نسوانی جذبات ابھر آئیں اور اطاعت شعاری اختیار کرلے اور اگر یہ تدبیر بھی کار گر ثابت نہ ہو تو پھر اس پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے ۔(۴) واللاتی تخافون نشوزھن فعظوھن و اھجروھن فی المضاجع واضربواھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھم سبیلا( نساء:۳۴) جن سے تمہیں سر تابی کا اندیشہ ہو تو ان کو نصیحت کر و اور ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ و اور ان کو سزا دو پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو۔ تاہم معاملہ اگر نفرت و بے گانگی کی حد تک پہونچ جائے تب بھی اسلام اس کا حل طلاق نہیں پیش کرتا بلکہ اسے کسی ثالث کے ذریعہ طے کرانے کی ہدایت اور زوجین کو صلح و مصالحت کی ترغیب دیتا ہے۔ وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا إن یرید إصلاحا یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما خبیرا ( نساء:۳۵) اور اگرتمہیں میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو تو ایک پنچ مرد کے لوگوں میں سے مقرر کرو اور ایک پنچ عورت کے لوگوں میں سے اگر دونوں اصلاح کے طالب ہوئے تو اللہ ان کے درمیان ساز گاری پیدا کرے دے گا، بیشک اللہ علیم و خبیر ہے۔ وان امرۃ خافت من بعلھا نشوزاً او اعراضًا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا والصلح خیر ( نساء:۱۲۸) اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بیزاری یا بے پرواہی کا اندیشہ ہو تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ دونوںآپس میں کوئی سمجھوتہ کر لیں اور سمجھوتہ ہی بہتر ہے۔ لیکن اگر ثالثی بھی ناکام ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ کی سنگینی انتہا کو پہونچ چکی ہے اب خانگی زندگی میں امن و سلامتی اور استقامت باقی نہیں رہ سکتی۔ ایسی صورت میں اسلا م اس مقدس ر شتہ کو تمام تر کراہیت کے ساتھ ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔لیکن اب بھی وہ مایوس نہیں اس لئے کہ اس میں جو تدریج اور وقفہ رکھا گیا ہے اس میں عین ممکن ہے کہ زوجین اپنے احوال پر پھر سے غور کریں اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے رغبت پیدا ہو جائے۔ کیوں کہ بسا اوقات ایک چیز چھن جانے کے بعد اس کی خوبی نظر آتی ہے۔ اسلام دو بار طلاق رجعی کا موقع دیتا ہے تاکہ زوجین اپنے احوال پر پھر سے غور کر لیں اور باہمی یگانگت کے ساتھ رہنے کی کوئی سبیل نکال لیں یا پھر الگ ہو جائیں ۔ الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح فاحسان ( بقرۃ :۹ ۲ ۲ ) طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے ۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت کو حالت طہر(پاکی کا زمانہ) میں صرف ایک طلاق دی جائے اب عدت کے دوران جو تقریباً تین مہینہ ۱۳ د ن بنتے ہیں ، اور اگر بیوی حاملہ ہے تو وضع حمل تک ،پورا موقع ملتا ہے کہ دونوں اپنے معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کر لیں ۔ اگر اس دوران دونوں میں باہمی محبت کے آثار نمایاں ہو جائیں تو شوہر کو اختیار ہے کہ وہ رجوع کرے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر عدت گزر جانے کے بعد دونوں الگ ہو جائیں گے لیکن اب بھی یہ امکان باقی ہے کہ پھر اگر سال دو سال کے بعد دونوں ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں ۔ یہی عمل دوسری طلاق کے بعد بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ لیکن تیسری طلاق کے بعد رجوع اور دوبارہ نکاح دونوں کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اب ان دونوں کے درمیان خوش گواری کے ساتھ نباہ کے سارے راستے مسدود ہوگئے ۔اس لئے بہتر یہی ہے اب یہ دونوں ہمیشہ کے لئے علیحدہ ہو جائیں۔ اور اتنی زیادہ مہلت دینے کے بعد بھی نہ سنبھلے تو اب دونوں اپنے لئے نئے رفیق زندگی تلاش کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ اب صرف اتفاقاً ہی ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ مطلقہ کہیں اور نکاح کرے اور وہاں بھی اتفاقیہ طور پر ایسے ہی حالات ہوں جیسا کہ پہلے شوہر کے ساتھ ہوئے تھے ا ور پھر طلاق ہو جائے تو پھر سابقہ بیوی شوہر میں نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید صریح طور پر کہتا ہے۔ فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا إن ظنا ان یقیما حدود اللہ( بقرۃ:۲۳۰) پھر اگر (دوبارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لئے حلال نہ ہوگی الا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الہی پر قائم رہیں گے تو ان کے لئے ایک دوسری کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس سلسلے میں مروجہ حلالہ حرام ہے کیوں کہ اس میں نکاح کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے۔ ایسا کرنے اور کرانے والے دونوں پر رسو ل اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔(۵) اسلام طلاق کے بعد عدت کے دوران قدم قدم پر اور ہر ہر مرحلے میں باہمی حسن و سلوک اور نان و نفقہ کی پوری پوری ادائیگی کی تلقین کرتا ہے ۔تاکہ اس دوران ممکن ہے ان کے دلوں میں الفت و محبت پھر عود کر آئے اور رافت و مودت کے جذبات پھر انگڑائیا ں لینے لگیں اور یہیں سے پھر ایک پاکیزہ زندگی کا آغاز ہو جائے۔ ’’ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے تو یا بھلے طریقے سے انھیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو محض ستانے کی خاطر انھیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا وہ در حقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا:( بقرہ:۲۳۱) ’’ اے نبی جب تم طلاق دو تو عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو اور ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں الا آنکہ وہ کسی کھلی ہوئی بد کاری کی مرتکب ہوں۔‘‘( طلاق:۱) پس جب وہ اپنی مدت کو پہونچ جائیں تو ان کو یا تو دستور کے مطابق نکاح میں رکھو یا دستور کے مطابق ادا کر دو۔اور اپنے میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لو۔ اور گواہی کو قائم رکھو اللہ کے لئے ۔‘‘(طلاق:۲) ’’ اور ان کو رکھو جس طرح اپنی حیثیت کے مطابق تم رہتے ہواوران کوضیق میں ڈالنے کے لئے ضرر نہ پہونچاؤ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو تا آنکہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔ پس اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کا معاوضہ دو اور دستور کے مطابق ایک قرار داد کر لو۔‘‘(طلاق:۶) قرآن مجید کی ان واضح ہدایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام زوجین کے معاملہ کو کس تدریج اور خوبصورتی کے ساتھ طے کرانے کی کوشش کرتا ہے اور دونوں کواپنی عائلی زندگی کی امن و سلامتی کو بحال کرنے کے بھر پور مواقع فراہم کرتا ہے۔ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو باہمی رضامندی سے قائم ہوتا ہے اور نظام طلاق ہی کے ذریعہ اسے اعلی اصولوں پر باقی رکھا جا سکتا ہے لیکن ا س رشتہ کی گرہیں جب کھل جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب زوجین کے عزت و وقار کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ ایک نئی زندگی کی طرح ڈالیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ (نساء:۱۳۰) اور اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں گے تواللہ ان میں سے ہر ایک کو اپنی وسعت سے بے نیاز کر دے گا ۔ طلاق امن کی ضامن اسلام خانگی امن و سلامتی کا بے حد خواہاں ہے۔ تمام تر کوششوں کے باجود ،زوجین کے تعلقات انتہائی درجہ تک خراب ہونے کے بعد ، خانگی امن و سلامتی ختم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں طلاق دونوں کے لئے رحمت اور از سر نو خانگی امن و سلامتی کے قیام کی ضامن ہے کیوں کے اگر طلاق کی اجازت نہ ہوتی تو دونوں کی زندگی اجیرن ہوتی۔ مرد کے لئے شادی شدہ ہونے کے باوجود بیوی سے نفرت و بیگانگی کے باعث پاکیزہ زندگی گزارنا اس کے لئے ایک زبر دست چیلنج ہوتا۔ اور گھر میں اسے سکون ملنے کے بجائے شدید کرب و اضطراب سے دو چار ہونا پڑتا۔ اور بیوی جسے اس کے شوہر نے اپنے دل سے نکال پھینکا ہے اور عملی طور پر اسے طلاق دے چکا ہے، اسی کے گھر میں رہنا اور شوہر ہوتے ہوئے بے شوہر کی زندگی گزا رنا، اس کے لئے آسان بات نہ ہوتی۔ کیوں کہ اس صورت میں وہ شدید گھٹن اور مستقل اعصابی تناؤ میں مبتلا رہتی۔ ایسے حالات میں جب اسلام دونوں کو طلاق کے ذریعہ آزادی دیتا ہے کہ اپنی مرضی سے وہ پھر نئے سرے سے خانگی امن و سلامتی کا آغاز کریں تو بلاشبہ یہ دونوں کے لئے رحمت اور امن کی نوید ہے۔ حواشی ۱۔ ابو داؤد، السنن، کتا ب ا لطلاق باب فی کرا ھیۃ الطلاق ج۲ص۱۶۹ ۲۔ ایضا ۳۔ حافظ المنذری، مختصر صحیح مسلم، ج۱ ص ۲۱۹ ۴۔ یوسف القرضاوی ، اسلام میں حلال و حرام، الدار السلفیہ بمبئی(۱۹۷۷ء) ص ۲۷۲ ۵۔ شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغۃ ج۲ ص ۵۷۴۔۵۷۵
>

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔