باصر سلطان کاظمی اور راشد انور راشد بزم صدف بین الاقوامی ایوارڈ سے سرفراز

کم مدت کے باوجود بزم صدف کی ادبی و علمی کارگزاریاں عالمی طور پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں خاص طور پر سے مہجری ادب کی شناخت اور اردو کی نئی بستیوں میں مقیم افراد کی ادبی اور علمی سرگرمیوں سے اردو دنیا کو روشناش کرانے کے لئے بزم صدف کی سرگرمیاں متاثر کن ہیں ، بزم صدف کے عالمی ایوارڈ اب تک جن لوگوں کو ملے ہیں انکی نمایاں خدمات کا ایک عالم معترف ہے اس اعتبار سے بزم صدف کے انعامات عالمی سطح پر تعظیم کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

گزشتہ جمعہ کی شام ڈی پی ایس آڈیٹوریم، واکرہ۔ قطر میں منعقدہ بزم صدف انٹرنیشنل کے عالمی سے می نار، ایوارڈ تقریب اور مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ باتیں مقررین نے کیں:

بزم صدف کے سرپرست اعلی جناب محمد صبیح بخاری کی صدارت اور معروف شاعر جناب احمد اشفاق کی نظامت میں ایوارڈ تقریب اور سے می نار کا آغاز قاری سیف الرحمن کے تلاوت کلام پاک سے ہوا تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے گفتگو کرتے ہوئے بزم صدف ے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے مختلف ادبی تنظیموں اور اداروں کی موجودگی میں بزم صدف کے کام کرنے کے نئے انداز اور نئے اہداف ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا کہ یہ تنظیم عالمی طور پر اردو زبان کے حوالے سے مختلف طرح کے کام انجام دے رہی ہے، دس ممالک میں اسکی باضابطہ شاخیں سرگرم ہیں۔ ایک  بین الاقوامی رسالہ صدف کی گزشتہ چار برسوں سے اشاعت ہو رہی ہے جس میں پندرہ ملکوں کے اردو شعراء وادباء چھپ چکے ہیں ، مختلف مصنفین کی ایک سو سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور دوحہ قطر اور ہندوستان میں ۲۵ سے  زیادہ عالمی سے می نار اس ادارے نے منعقد کئے ہیں ، گزشتہ تین برسوں میں جناب جاوید دانش،مجتبی حسین اور ۲۰۱۸ء میں جناب باصر سلطان کاظمی کو بین الاقوامی ایوارڈ پیش کئے گئے اور نئی نسل ایوارڈ ڈاکٹر واحد نظیر،محترمہ عشرت معین سیما اور ۲۰۱۸ء میں ڈاکٹر راشد انور راشد کو پیش کئے گئے۔ ان اصحاب کی علمی و ادبی خدمات کا  ایوارڈ کے ذریعہ اعتراف کیا جانا اردو کے علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

جناب محمد صبیح بخاری نے اپنے خطبہ صدارت میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اتنی قلیل مدت میں بزم صدف نے اپنی علمی سرگرمیوں سے ایک عالم کو حیرت میں ڈال رکھا ہے کیونکہ یہ صرف دوحہ قطر میں ہی سرگرم نہیں ہے بلکہ ہندوستان اور دوسرے ممالک بھی اس ادارے کی سرگرمیاں جاری ہیں. انہوں نے دوحہ قطر کے عالمی پروگرام میں لوگوں کی تالیوں کے بیچ یہ اعلان بھی کیا کہ بزم صدف کا ایک عالمی پروگرام ہرسال دوحہ قطر میں لازمی طور پر ہوگا۔ مہمان اعزازی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے جناب حسن عبدالکریم چوگلے نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بزم صدف کے دوحہ،بمبئی اور پٹنہ کے عالمی پروگراموں میں وہ شریک رہے ہیں اور انہیں بزم صدف کی سرگرمیوں سے پورے طور پر واقفیت ہے، انہوں نے بزم صدف کے اہالیان کو یہ مشورہ دیا کہ اردو تعلیم کے شعبے میں بھی اس بزم کو اپنی خدمات انجام دینی چاہئے کیونکہ جب تک اردو پڑھنے والوں کی تعداد نہیں بڑھے گی تب تک شعرو ادب کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا۔ مہمان اعزازی کی حیثیت سے جناب عظیم عباس بھی شریک بزم تھے اور انہوں نے بزم صدف کی ان کوششوں کو خاص طور سے سراہا کہ یہ دور دراز کے علاقوں میں ادبی تقریبات کا انعقاد کر کے ہماری زبان کے لئے ماحول سازی کا کام انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے لئے نئے نئے علاقوں میں پہنچنا اور تعلیمی و ادبی سرگرمیاں قائم کرنا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور بزم صدف اس کام کو انجام دے رہی ہے۔

بزم صدف کے چئر مین جناب شہاب الدین احمد نے دوحہ قطر اور عالمی طور پر بزم صدف کے ساتھ تعاون کرنے والے ادیبوں شاعروں اور بے لوث خدمت گاروں کا شکریہ ادا کیا کیونکہ اس معاونت کے بغیر یہ بزم اتنی کم مدت میں نہ اتنی شاخیں قائم کر سکتی تھی اور نہ ہی اتنے بڑے پیمانے پر تقریبات یا کتابوں کی اشاعت کا فریضہ ادا ہو سکتا تھا انہوں نے دوحہ قطر کی دوسری ادبی تنظیموں کے خدمت گاروں کے لئے بطور ترغیب یہ بات کہی کہ ہم سب اپنی مادری زبان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر آکر متحد ہوکر اپنے خاص نشانات کو مکمل کرنے کے لئے سامنے آنا چاہئے اس میں ذاتی پہچان یا مفاد کو پرے رکھ کر مادری زبان سے صرف محبت کو پیمانہ بنانا چاہئے اگر یہ ممکن ہوتا ہے تو آنے والے وقت میں بزم صدف دوحہ قطر کی تمام ادبی تنظیموں کے ساتھ مل کر دوروزہ یا سہ روزہ فیسٹول منعقد کرنا چاہتی ہے جو عالمی نوعیت کا ہوگا اوراردو کی رنگا رنگ وراثت کا آئینہ تصور کیا جائے گا۔ جناب شہاب الدین احمد نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ بزم صدف ادب تہذیب کے ساتھ تعلیم اور خواندگی کے معاملات سے بے خبر نہیں ہے اردو تعلیم کے بڑے مرکز کے قیام کے سلسلے میں اندرونی طور پر ہماری تیاریاں چل رہی ہیں جہاں اسکولی تعلیم کے علاوہ مسابقتی امتحانات میں اردو کی آبادی کو جوڑنے اور آگے بڑھانے کے لئے رہائشی کوچنگ کے انتظامات جیسے معاملات بھی باضابطہ طور پر زیر غور ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ ہند و پاک ہی نہیں اردو کی جہاں جہاں بستیاں ہیں وہ ایک دوسرے سے جڑیں اور ان کے مسائل مل جل کر حل کئے جائیں۔

برطانیہ سے تشریف فرما مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار جناب باصر سلطان کاظمی نے بزم صدف کا بین الاقوامی ایوارڈ لیتے ہوئے اس بات کے لئے خوشی کا اظہار کیا کہ بزم صدف کا انعام ان کے لئے غیر متوقع خوشی کی طرح سے رہا  انہوں نے کہا کہ تخلیق کار کے دل میں لازمی طور پر یہ جذبہ ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھتا پڑھتا ہے ادب کے ماہرین  اور عام قارئین اسے کس طور پر قبول کرتے ہیں، اسے وہ جانے اور سمجھے ایسے انعامات جن کے پیچھے اچھے اداروں اور ان کے کارپردازوں کی سمجھ بوجھ بھی رہتی ہے ان سے ان کے ذریعے اعتراف کیا جانا ایک قابل اطمینان بات ہے مگر تخلیق کار کے طور پر اس عالمی اعتراف کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ ہم سے جو نئی توقعات وابستہ ہوئی ہیں آئیندہ ہم اس پر پورے طور پر کھڑا اتریں۔

نئی نسل ایوارڈ قبول کرتے ہوئے ڈاکٹر راشد انور راشد نے بزم صدف کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی آئندہ کوششوں سے ان توقعات کو ضرور پورا کرنا چاہیں گے جو ایوارڈ ملنے کے بعد ان سے اردو عوام کو پیدا ہوئی ہیں ، وہ بزم صدف کی طرف سے ایوارڈ

 تقریب کے لئے خاص طور سے شائع کردہ  : دھوپ ایسی تو نہ تھی پہلی: انتخاب کے لئے خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور اسے ایک سنجیدہ علمی کوشش قرار دیا واضح ہوکہ بزم صدف نے باصر سلطان کاظمی کے کلیات شعر کی بھی اشاعت : اب وہاں رات ہوگئی ہوگی: عنوا ن سے خاص طور سے ایوارڈ تقریب کے موقع سے کی۔ بزم صدف کی تازہ دس کتابوں کا اجراء عمل میں آیا جس میں عرض داشت(صفدر امام قادری)،اردو کا مہجری ادب اور احمد اشفاق(نظام الدین احمد)ناز قادری کی خدمات کا تنقیدی مطالعہ(شمشاد فاطمہ)تھوڑی سی آوارگی (مہتاب قدر)، تقسیم ملک کا ادب اور دیگر مضامین (افشاں بانو) اس چہرے کے نام(طارق متین) تانیثیت چند مباحث( سعیدہ رحمن) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے احمد اشفاق نے خلیج کے ادبی منظر نامہ پر گفتگو کرتے ہوئے اردو کے ادبی اداروں کی سرگرمیاں واضح کرتے ہوئے بزم صدف کا تعارف پیش کیا اور ادارے کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی، انہوں نے بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ شخصیت جناب باصر سلطان کاظمی کی شاعرانہ  خدمات کا تفصیل کے ساتھ تعارف پیش کیا اور اپنا مقالہ پڑھا، جناب ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش نے راشد انور راشد کی شاعرانہ اور ادبی خدمات کے حوالے سے اپنا مضمون پیش کیا۔

بزم صدف نے ریحان خان کو انکی تنظیمی خدمات کے لئے ۲۰۱۸ء کے ایوارڈ کا علان کیا تھا وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر تقریب میں شامل نہ ہوسکے انکی غیر حاضری میں جناب احیاء الاسلام نے ان کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے بزم صدف کا شکریہ ادا کیا تھا اور اعراف خدمات کو دوبئی کی بزم اردو کے نام کیا کیونکہ انہوں نے اپنے پیغام میں بتایا کہ اس بزم کے اراکین کے ساتھ کا م کرتے ہوئے انہوں نے اپنی مادری زبان کے حوالے سے خلیج کے مختلف علاقوں میں سرگرمیاں روا رکھیں ، جناب ریحان خان کی خدمات کے حوالے سے جناب سید شکیل احمد نے اپنا مقالہ پیش کیا۔

پروگرام کے آغاز میں بزم صدف کی دوحہ اکائی کے صدر جناب عمران اسد نے دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے اپنے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور انکی اردو نوزای اور اپنی مادری زبان کے لئے جاں نثاری کے لئے شکریہ ادا کیا انہوں نے بزم صدف کی دوحہ  اور ہندوستان بالخصوص مغربی بنگال کی شاخوں کے آئندہ اہداف کا ذکر کیا اور لوگوں سے خوش دلی کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی۔

ایوارڈ تقریب کے ساتھ بزم صدف نے حسب روایت ایک عالمی مشاعرہ کا انعقاد بھی کیاتھاجسمیں ہندوستان،پاکستان،برطانیہ،ابوظہبی، دوبئی اور دوحہ قطر کے منتخب شعرائے کرام شامل تھے، مشاعرہ کی نظامت یونیورسٹی آف حیدر آباد ( ہندوستان) کے استاد ڈاکٹر محمد زاہد الحق نے انجام دی اور مشاعرہ کی صدارت بزرگ شاعر جناب ظہورالاسلام جاوید ( ابو ظہبی) نے کی، مشاعرہ میں قطر سے ڈاکٹر ندیم جیلانی دانش، آصف شفیع،احمد اشفاق اور عتیق انظر نے شرکت کی ہندوستان سے پروفیسر ظفر امام،راشد انور راشد،صفدر امام قادری شریک بزم ہوئے برطانیہ سے جناب باصر سلطان کاظمی، دوبئی سے احیاء الاسلام(احیا بھوجپوری) اور  محترمہ عائشہ شیخ عاشی نے شرکت کی۔

ڈاکٹر زاہد الحق کی موئثر نظامت میں تین گھنٹے تک دوحہ قطر کے شائقین ادب ہماری زبان کے چنندہ شعراء کے منتخب اشعار کو سنتے رہے اور بے پناہ داد سے نوازتے رہے، دوحہ قطر میں مقیم درجنوں شعرائے کرام بھی موجود تھے اور اپنے مہمان شعراء کے کلام سے محظوظ ہو رہے تھے. متعدد ادبی تنظیموں کے سربراہان بھی مشاعرہ میں موجود رہے اور تاریخ نصف شب کے بعد بدل رہی تھی اس وقت تک ہمارے سامعین اور شعرائے کرام اردو تہذیب کے اس بڑے مظہر یعنی مشاعرہ کا لطف لیتے رہے، مشاعرہ کا انجام اوم پرکاش پریڈا کے رسم شکریہ سے ہوا۔

شعرائے کرام نے یوں تو منتخب اشعار ہی سنائے اور ان کا ہر شعر ایسا ہے جیسے لوگوں کو جاننا چاہئے مگر نمونہ کے طور پر یہاں چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں تاکہ یہ بات سمجھ میں آ سکے کہ عالمی مشاعرہ میں کس معیار اور مرتبہ کی شاعری سامنے آئی۔

ظہور الاسلام جاوید

کام ہیں اور ضروری کئی کرنے کے لئے

کون بیٹھا ہے ترے عشق میں مرنے کے لئے

ہمیں جو رزق دیا س میں وسعتیں لکھ دیں

مگر حصول میں صحرا کی شدتیں لکھ دیں

۔ ۔ ۔

باصر سلطان کاظمی

جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا

بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف

 دل لگا لیتے لیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو۔

۔ ۔ ۔

صفدر امام قادری

کئی یگوں کے فسانے تھے میری آنکھوں میں

  یہ اور بات کہ خاموش و بے صدا میں تھا

سڑک کے حادثے میں ہم بھی اک دن ڈھیر ہو جائیں

یہ غزلیں شعر اور دفتر میاں سب کچھ بھلاوا ہیں۔

۔ ۔ ۔

راشد انور راشد

ایک قطرہ ہی سہی آنکھ میں پانی تو رہے

اے محبت ترے ہونے کی نشانی تو رہے

میں تو منجدھار میں ہوں ، پتوار میں شامل ہی نہیں

جی حضوری مرے کردار میں شامل ہی نہیں

۔ ۔ ۔

احیاء الاسلام (احیا بھوجپوری)

تبصرہ کیوں کر رہے ہو بارہا اجداد پر

فیصلہ ہوگا تمہارا آج کی بنیاد پر

سب حفاظت کر رہے ہیں مستقل دیوار کی

جب کہ حملہ ہو رہا ہے مستقل بنیاد پر

۔ ۔ ۔

پروفیسر ظفر امام

ایک دروازہ ہے سو دیوار ہے

پار کر جاوء تو بیڑا پار ہے

کیا غضب اس آدمی میں آج کل

آدمیت ہی کرائے دار ہے

۔ ۔ ۔

عائشہ شیخ عاشی

اس بار محبت تو مجھے خود سے ہوئی ہے

ایسے میں مجھے مجھ سے جدا کون کرے گا

عشق مسلسل ایک عبادت ہوتا ہے

سجدہ چھوڑ کے جانے والے کون ہو تم

۔ ۔ ۔

زاہد الحق

سدا خاروں میں رہ کر جو چمن کو اوڑھ لیتے ہیں

خزاں میں کیسے وہ سر و سمن کو اوڑھ لیتے ہیں

گھروں  میں رہنے والو ہم یہاں پر شام ہوتے ہی

جلا کر شمع یادوں کی وطن کو اوڑھ لیتے ہیں

۔ ۔ ۔

عتیق انظر

بڑانقصان کیا دونوں نے نفرت کرکے

آوء اب دیکھ لیں تھوڑی سی محبت کر کے

ہجر کے زہر سے دونوں کے بدن ہیں زخمی

آ چمک جائیں کوئی وصل کی صورت کرکے۔

۔ ۔ ۔

احمد اشفاق

لذت ہجر مکمل نہیں ہونے  دیتا

اپنی آنکھوں سے وہ اوجھل نہیں ہونے دیتا

بند آنکھوں سے اسے دیکھ دیکھ لیا جب چاہا

یاد میں وہ مجھے پاگل نہیں ہونے دیتا

۔ ۔ ۔

آصف شفیع

ایک مدت سے ہے اس پار سکونت میری

آنکھ اب تک مگر اس پار لگی رہتی ہے

سو بھی سکتا نہیں سردار قبیلے والا

عمر بھر دائو  پہ دستار لگی رہتی ہے

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر ندیم جیلانی دانش

تعصب کے گھنے جنگل کے آگے روشنی ہوگی

چلو انسان سے دیکھیں محبت کون کرتا ہے

آج بھی وہ ایک بوسیدہ عمارت گائوں میں

میرے آنے کی خبر سن لے تو گھر لگنے لگے

۔ ۔ ۔ 

تبصرے بند ہیں۔