بت پرستی سے خطرناک ہے شخصیت پرستی!

احساس نایاب

چند دنوں سے سوشل میڈیا پر مشہورعالم دین مولانا سلمان ندوی صاحب کے بیان کو لیکر اہل علم کے درمیان تحریری جنگ چھڑ گئی ہے اور اُ ن کے گستاخانہ بیان کے جواب میں فیس بک، واٹس اپ اور ٹیوٹر پر لکھی گئی جوابی تحریریں پڑھنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے سوشل میڈیا ایک طرح سے جنگ کا میدان ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پہ لفظوں کے تیر و خنجر پھینکے جارہے ہیں،اور اہل علم کے درمیان اس طرح کی ہل چل کوئی انوکھی یا نئی بات نہیں ہے ۔ اس سے پہلے بھی کئی بار سلمان ندوی جی نے جذبات کی رو میں بہ کر بہت سارے غیر ضروری بیانات دے چکے ہیں جسکی وجہ سے کئی کئی دنون تک وہ اردو میڈیا کی سرخیوں میں چھائے رہے ہیں، مگر اس بارمسئلہ کچھ زیادہ ہی نازک اورحساس ہے، کیونکہ اس بار انہوں نے جس طرح کا بیان دیا ہے وہ قرآن و احادیث کے بالکل برعکس ہے۔ جبکہ اللہ تعالی نے خود اپنی آسمانی کتاب قرآن پاک میں واضح طور پہ صحابہ کرام کو’’رضی اللہ عنہ ورضواعنہ‘‘ کی خوشخبری سنائی ہے اورانہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی کہہ کر مخاطب کیا ہے اور انکا درجہ اتنا بلند وبالا ہے کہ انہیں اپنی زندگی میں ہی جنت کی خوشخبری مل گئی تھی ،ایسی خوش نصیب شخصیات کی شان میں گستاخی یا ان پہ شک وشبہ کرنا سب سے بڑی حماقت ہے ،جو خطا برداشت نہیں کی جاسکتی ،چاہے یہ خطا کسی عام انسان سے ہوئی ہو یا کسی بھی بڑے عالم سے کیونکہ ہماری اوقات انکے پیروں کی دھول کے بھی برابر نہیں ہے، لیکن افسوس ہوتا ہے ایسے صاحب علم کی حماقت پہ،اگر یہی گستاخی کسی غیرعالم عام انسان سے ہوئی ہوتی تو پتہ نہیں کب کا اُسے بےدین،بدکردار ، بداخلاق اورگستاخ صحابہ جیسے لفظوں سے نواز کر اُس پہ کفر کے فتویٰ کا اعلان کردیا جاتا ، مگر یہاں پہ چند ایسے شخصیت پرست بھگتوں کا گروہ موجود ہے جو غلط کو غلط نہ کہتے ہوئے قرآن وحدیث کی پرواہ کئے بغیر،عظمت صحابہ کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اُن کے دفاع میں مستقل لگاہواہے، اور ایسے انسان جو آئے دن کھلے عام اسطرح کے بیانات دینے سے باز نہیں آرہے ہیںان کو بھگوان کا درجہ دیتے ہوئے خود انکی ڈھال بنکر انکی ہر غلطیوں پہ پردہ پوشی کررہے ہیں، آخر یہ دوغلہ رویہ کیوں؟

غلطی تو غلطی ہی ہوتی ہے چاہے وہ عام انسان سے ہو یا کسی خاص شخصیت سے ، ویسے دیکھا جائے تو غلط بیانی سے غیرعالم انسان اتنا بڑا گنہگار نہیں کہلائیگا جتنا بڑا گنہگار ایک عالم ہوگا کیونکہ عالم کہلانے والے قرآن و احادیث سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود جان بوجھ کر ایسی حماقت کرتے ہیں، اپنے علم و شہرت کی گھمنڈ و تکبر میں جبکہ انجانے میں کہے گئے کسی جاہل کی بات کو اتنی مقبولیت نہیں ملتی جتنی علماؤں کی باتوں سے نقصان اور تباہیاں ہوتی ہیں ۔کیونکہ انکا دیکھا دیکھی، انکا سنا سنی انکے کئی مرید بھگت انکے نقش قدم پہ اندھادھند چل پڑتے ہیں اور اس حقیقت سے غلط بیانی کرنے والے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ انکا ایک بھی غلط عمل فتنہ کے برابر ہے اور جتنا زیادہ عمل ایک عالم رہنماء کی صحیح غلط باتوں پہ کیا جاتا ہے، وہ عام انسان کی باتوں پہ کرنا ناممکن ہے، اسلئے انکی ذمہ داری اور انکا فرض بنتا ہے کہ کچھ بھی کہنے سے پہلے کئی بار سوچیں، لیکن افسوس انہوں نے انجام کی پرواہ کئے بنا کئی مرتبہ اسطرح کے بیانات دے چکے ہیں ، پہلے تو یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ممبر ہوکر بورڈ کے ہی موقف کے خلاف گئے اور انکی ذات سے جڑی کئی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جو انکی شخصیت پہ سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔

جب انہوں نے سعودی عرب کے خادم حرمین شریفین کو گالیاں دی تھیں ،جو اخلاقا غلط ہے پھر انہوں نے بغدادی کو خلیفہ اورامیرالمومنین ہونے پہ مبارکبادی دی جو مسلمانوں کے لئے بیحد شرمناک بات ہے اور اسکی وجہ سے یہ حکومت کی ہٹ لسٹ میں آگئے اور ناجانے انکی ایسی کتنی ہی کمزور نسیں ہیں جن سے جان بچانے کی خاطر انہوں نے کئی بار کئی قسم کے پینترے اپنائے جو اللہ نے ناکام کردئیے، جب انہوںنے شنکراچاریہ کے ساتھ اندرونی طور پر سانٹھ گانٹھ کرکے بابری مسجد کی زمین پہ رام مندر بنانے اور بابری مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے فارمولے کی مکمل حمایت کی اور خود کو صحیح ثابت کرنے کی ضد میں مولانا سجاد نعمانی صاحب پہ آر ایس ایس میں شامل ہونے کا جھوٹا الزام لگادیا یہاں تک کہ بورڈ کو بھی بدنام کرنے سے یہ پیچھے نہیں ہٹے اور بورڈ کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے کے جرم میں انہیں بورڈ کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ خیر سلمان ندوی جی صاحب علم ہیں، ہمارے بزرگ رہنماء ہیں مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ کسی جنت سے آئے ہوئے فرشتے ہیں جو انکی تمام غلطیوں کو معاف کردیا جائے اور انہیں ولیوں کی طرح معصوم ٹھہرایا جائے، جبکہ عزازیل نے بھی طویل عرصے تک اللہ تعالی کی عبادت کی تھی مگر ایک نافرمانی کی وجہ سے اُس کو جنت سے نکال دیا گیا اور اُس کو ابلیس کہا گیا ( ابلیس کے معنی : اللہ کی رحمتوں سے مایوس ) اللہ تعالی نے عزازیل کو کئی مواقع دئے، کئی طرح سے سمجھانے کی کوشش کی،بلکہ دنیا بنانے سے پہلے جتنے بھی لوگ تھے انکے ارواح اللہ تعالی نے پیدا کردئے تھے اور اُن ارواح سے اللہ نے عزازیل کی ملاقات کرائی اسکے باوجود اُسے اللہ تعالی کی باتوں پہ یقین نہیں آیا نعوذباللہ، اور جب حضرت آدم علیہ السلام کے آگے سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو اُس نے نافرمانی کی اور اسکی اس نافرمانی کی وجہ سے اسکی ستر ہزار سالہ عبادت رائیگاں گئی اور اسے جنت سے نکال دیا گیا اور اسکی سب سے بڑی وجہ اسکا گھمنڈ اور تکبر تھا اور یہاں دنیا میں بھی جو گھمنڈ تکبر اور اللہ کے فرمان کی نافرمانی کریگا اُسکا حشر بھی ابلیس کی طرح ہوگا چاہے وہ جتنی بڑی بھی شخصیت ہوں یا شخصیت پرست اور شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے اور اس سے ہونے والی تباہیوں و نقصانات کے دونوں برابر کے حقدار ہیں۔

اس لئے عالم کہلانے والوں کی ذمہ داری اتنی بڑی ہوتی ہے کہ انکی ذات سے بار بار اسطرح کی غلطیوں کی گنجائش ناممکن ہے جس سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہو اور ایسے بیانات جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور امھات المومنین کی شان میں گستاخی کرے تووہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہیں جسکے لئے معافی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔