بدلتا بھارت اور ہماری اولین ترجیحات

محمد شاہد خان

ہندستانی مسلمان گزشتہ کئی دہائیوں کے مقابلہ میں آج زیادہ پیچیدہ اور چیلنجز سے بھرے پرے ماحول میں جی رہا ہے، اس المناک حقیقت کے اعتراف سے کوئی مفر نہیں ، آج معمولی سیاسی اور سماجی شعور کا حامل انسان بھی حالات کی اس سنگینی سے واقف ہے، آنے والی مسلم نسلوں کے لئے یہ امکانات کس طرح روشن کئےجائیں کہ وہ خود اعتمادی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ایک باعزت شہری کے مانند اس ملک میں اپنی تمام تر ملی اور سماجی تشخص کے ساتھ زندگی گزار سکیں یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مسلم سماج کاچند باشعور طبقہ شب وروز اس فکر میں کوشاں ہے اور دیگر طبقات کے افراد اور تنظیموں کے ساتھ مل کر ہندوستان کی صدیوں پرانی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی وراثت کے تحفظ میں سرگرداں ہے، لیکن یہ کوششیں اتنی ثمرآور ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں جتنے کہ حالات متقاضی ہیں لہذا بے چینی کا بڑھنا  فطری ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کا دستور جو تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کی یکساں طور پر ضمانت فراہم کرتا ہے، خود سنگھ پریوار کے نشانہ پر ہے، گویا ہندوستان کے سیکولر جمہوری ڈھانچہ پر تیشہ زنی کی تیاری پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے ایک وزیر نے تو مہاراشٹر میں اپنی تقریر کے دوران اس کی وضاحت بھی کر دی تھی کہ بی جے پی حکومت میں اسی غرض سے آئی ہی ہے کہ وہ دستور ہند کو بدل کر ہندو راشٹر کا خواب پورا کر سکے، سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے بھی اس خطرہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر بی جے پی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو دستور کی تبدیلی کے سلسلہ میں ان کی کوششیں تیز ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ریاستی اسمبلیوں سے لیکر مرکزی حکومت تک میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی دریا میں قطرے کے برابر ہے۔ سیاسی اعتبار سے مسلم اقلیت کو بے وزن بنانے کی سنگھ اور بی جے پی کی یہ چال بھی کم از کم وقتی طور پر کامیاب ہوئی ہے۔

ایسے میں مستقبل کے تئیں خدشات کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ خاص طور پر ایسے حالا ت میں کہ جب  مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ تیز کر دی گئی ہے۔ بے لگام بھیڑ مختلف بہانوں سے کبھی گائے کے نام پر تو کبھی لو جہاد اور پاکستان نوازی کی من گھڑت الزامات کے تحت پوری مسلم اقلیت کو خوف و ہراس کے سایہ میں جینے پر مجبور کر رہی ہے، شر پسند عناصر کی اس مجرمانہ فعل کی پشت پناہی  پوری حکومت کررہی ہے جو اسوقت خاص قسم کی ذہنیت کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور جن کی گھٹی میں مسلم منافرت کا زہر بہت پہلے سے گھول دیا گیا ہے، ان خارجی چیلنجز کے علاوہ ایک بڑا المیہ  یہ بھی ہے کہ مسلم اقلیت اتنے ناگفتہ حالات میں بھی عجیب اندرونی انتشار وخلفشار کا شکار ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گاؤں سے لیکر شہر تک جماعتی شیرازہ بندی کی جاتی اور پوری تندہی کے ساتھ مسلم دشمن عناصر کے خلاف اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لئے ملک گیر پیمانہ پر تحریکیں چلائی جاتیں اور  دیگر سماجی طبقات کے ساتھ مل بیٹھ کر طویل مدتی اور قصیر مدتی پروگرام اور پلان طے کئے جاتے اور بدحواسی اور بے دلی کا شکار ہوئے بغیر نئی توانائی اور نئے جوش کے ساتھ نئے طریقے ڈھونڈے جاتے لیکن وہ خود کو انتہائی سطحی مسائل میں الجھائے ہوئے ہیں ، ایک طرف دینی قیادت بیمار ہے اور نئے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے تو دوسری جانب محدود سیاسی رہنمائی خود غرضی کا شکار ہے، لہذا اس کا منفی اثر نوجوانوں کی ذہنیت پر پڑنا لازمی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم اقلیت خوف کی نفسیات سے دوچار ہے۔ خوف کے اس دائرہ کو توڑنا اور ان میں خود ارادی و خود اعتمادی کی بجلی بھرناوقت کی اہم ضرورت ہے جس کو کسی بھی طور ٹالا نہیں جا سکتا۔

بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں اپنے دشمنوں اور حریفوں سے سیکھنے کی ہیں ، مثلا ً باہمی مشاورت اور جذبہ اخوت کو بڑھانا اور ذاتی عناد اور شخصی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایک مضبوط قیادت پیدا کرنا ساتھ ہی وسیع مقاصد کے حصول کے لئے ذات پات اور علا قہ و زبان کے اختلاف سے احتراز کرنا، یہ اس لئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارا دشمن ہرہتھیار سے لیس ہے اور چہار جانب سے حملہ آور ہے، حالا نکہ اسکے پاس نہ کلمۂ توحید جیسی طاقت ہے نہ قرآن پاک جیسا دستور عمل ہے اور نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا رہنما ہے، اسکے باوجود وہ اپنے تخریبی نظریات اورفریب کاری کے ہتھکنڈوں سے لیس ہوکر فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہا ہے، آر ایس ایس جیسی فاششٹ تنظیم جس کا جنگ آزادی میں ادنی درجہ کی بھی حصہ داری نہیں ہے اور جس نے انگریزوں کی دلالی کی ہے اور جو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کی مجرم ہے، آج وہ تنظیم اپنی سیاسی سوجھ بوجھ، صف بندی، محنت اور لگن ) Dedication ( کی بدولت پورے بھارت پر قابض ہے، وہ ہر محاذ پر سرگرم عمل ہے، اس نے ہر میدان میں اپنی ذیلی تنظیمیں بنا رکھی ہے، تعلیم، سیاست، تجارت، ذرائع ابلاغ، مزدور یونین، شعبہ خواتین غرضیکہ ہر جگہ ان کا کیڈر اور دماغ موجود ہے، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، شیو سینا، کرنی سینا، ہندو یوا واہنی، گئو رکشا جیسی بے شمار ہندو تنظیمیں ہیں جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتی ہیں ، اور یہ ہمارے لئے مقام عبرت ہے کہ آج تک ان تنظیموں میں قیادت کا جھگڑا، اختلافات اور تنظیمی ٹوٹ پھوٹ دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں ہیں ۔ انھوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ ہندستان کی پوری آبادی کو ہندو اور مسلمان کے دو خانوں میں بانٹ دیا اور ساڑھے تین فیصد کی ایک چھوٹی سی برہمن اقلیت نے دوسری غیر ہندو قوموں اور ذات برادریوں کو جبراً ہندو کے خانہ میں ڈال کر خود کو اکثریتی طبقہ ثابت کردیا اور اس بے جوڑ اور ناہموار اتحاد کو باقی رکھنے کیلئے مسلم دشمنی کی پالیسی اختیار کی، تاریخ بتاتی ہے کہ اب تک وہ ہندستان کی دوسری قوموں سے ان کی شناخت چھیننے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن مسلمان وہ واحد قوم ہے جس سے اس کی ملی شناخت چھیننے میں وہ اب تک ناکام ثابت ہوئے ہیں، اسلئے انھوں نے تہذیبی، لسانی، سیاسی، سماجی، عدالتی اور دستوری غرضیکہ ہر سطح پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی جیسے قسم کھائی ہوئی ہےتاکہ وہ مایوسی ونامرادی کا شکار ہوکر دیو مالائی تہذیب میں ضم ہوجائیں اوراس طرح ان کا ہندوراشٹر کاخواب پورا ہوسکے۔

اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی ہمہ جہت کوششوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے شہر شہر قریہ اور قریہ غنڈوں کے منظم سیل بنا رکھے ہیں جو اپنے آقاؤں کے ایک اشارے پر کمزور و بے بس اور نہتھے مسلمان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں ، جس طرح جانوروں کے غول میں سے ایک جانور کو الگ پاکر بھیڑیے حملہ آور ہوجاتے ہیں اور پھر اسے چیر پھاڑ کر اپنی خوراک بنالیتے ہیں بالکل اسی طرح یہ انسانی درندے بھی منظم سازش کے تحت اس طر ح کی واردات انجام دیتے ہیں اور چشم زدن میں فرقہ واریت کے دھوئیں میں امن وسکون کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں ، اور پھر ان وحشت ناک مناظر کا ویڈیو وائرل کردیتے ہیں تاکہ مسلمان خوف کی نفسیات سے دوچار ہوں اور بزدلی ان کے دلوں میں خون کی طرح جم جائے، اخلا ق احمد، پہلو خان اور جنید جیسے معصوموں کا قتل اسی سفاکانہ ذہنیت کی علامت ہے۔

حالیہ کاس گنج فساد ان کے ایسے ہی گھناونے مقاصد کا پردہ فاش کرتاہے۔ لیکن اس پورے معاملہ میں جو چیز نہایت تکلیف دہ ہے وہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی مہیب خاموشی ہے، ایسی سیاسی جماعتیں جو سیکولرزم اور جمہوری قدروں کی دعویداری کرتی ہیں ان کا سامنے نہ آنا اور عوام کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلستے دیکھ کر بھی اپنی ذمہ داری نہ نبھانا سیکولرزم کے تئیں ان پر عائد ذمہ داری کے احساس پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے،ہندستان مختلف قوموں، ذاتوں اور برادریوں والا ملک ہے، یہاں ہر قوم اور ہر برادری کی قیادت موجود ہے جو ان کے حقوق کی پاسداری کیلئے سرگرم عمل ہے لیکن اگر کہیں قیادت کا فقدان ہے تو وہ صرف مسلمان ہیں، سیکولرز م بمقابلہ فرقہ پرستی کی سیاست اول یوم سے ہی ہمارے وجود کو چاٹ رہی ہے نام نہاد سیکولر پارٹیاں سیکولرزم کی آڑ میں مسلمانوں کا سیاسی استحصال بڑی چابکدستی سے کرتی چلی آئی ہیں اور اسکا سلسلہ تا حال جاری ہے، مسلمانوں کو ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اقلیت کا مفہوم صرف مسلمان ہے اور سیکولرز م کی بقا صرف اور صرف مسلمانوں کی ذمہ داری اور ضرورت ہے، اس سیاسی مغالطہ نے مسلمانوں کو سیکولر پارٹیوں کا دست نگر بنا کر رکھا جب کہ ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے بجائے ہمیشہ اپنی ذات و برادری کے مفادات کی حفاظت کی اور بادل نخواستہ جب کبھی مسلمانوں نے اپنے مسائل کے بارے میں ہلکی سی آواز اٹھائی بھی تو ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی، یا ان پر فرقہ واریت کا لیبل لگاکر خاموش کردیا گیا اور بعض انتخابات میں اپنی ہار کا ٹھیکرا بھی مسلمانوں کے سر پھوڑ دیا۔

 ہر دور میں مسلم دشمنی کے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہے ہیں ، یہ سیاسی کاروبار اب پہلے سے کہیں زیادہ آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ہے، ان دنوں لو جہاد، گھر واپسی، گئو رکشا، قبرستان و شمشان اور جا بجا رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات دراصل انھیں مذموم مقاصد کا تکملہ ہیں تاکہ مسلمانوں کو کمزور کیا جاسکے۔ اور مختلف طبقات اور ذات برادری کو مسلم دشمنی کی بنیاد پر متحد کیا جاسکے، مسلمانوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کرکے انھیں حاشیہ پر کھڑا کیا جاسکے تاکہ اپنے ہی گھر میں ان کی حیثیت ایک سائل کی بن کر رہ جائے ۔ ایسے سنگین حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان خود اپنی قیادت کھڑی کریں اور ہار جیت کو خاطر میں نہ لائیں ، بلکہ اپنے ووٹوں سے اپنی قیادت کو مضبوط کریں، کیونکہ آپ کے ووٹوں کی تعداد ہی آپ کی طاقت ہے، جب آپ کی طاقت متحد ہوگی تبھی دوسری جماعتیں بھی آپ کو اہمیت دیں گی اور آپ کی شرطوں پر آپ سے معاہدہ کریں گی، اب نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے مسلم قائدین پر بھی پورے طور سے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے منہ میں ان کی پارٹی کی ہی زبان ہوتی ہے یا یہ کہا جائے کہ وہ تنگ ذاتی مفاد کے دائروں سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں ، حالیہ تین طلاق بل کے معاملہ میں ان کی مجرمانہ خاموشی اسکا بین ثبوت ہے کیونکہ ملی مفاد سے زیادہ انھیں اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے اسلئے پارٹی  لائن سے ہٹ کر وہ لب ہلا نے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی کا تنا سب چودہ فیصد ہے جس کے مطابق کم از کم ۹۰ سے ۱۰۰ مسلمان کو پارلیامنٹ کا رکن ہونا چاہئے لیکن فرقہ پرستی سے مسموم ذہنیتوں نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بےوزن کرنے کیلئے ہر حربہ آزمایا ہوا ہے۔

مختلف حکومتوں نے اپنے دور اقتدار میں پارلیامانی اور اسمبلی حلقوں کو اس طرح تقسیم کردیا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ بے اثر ہوجائے، لیکن ان حالات میں بھی اگر مسلمان پارلیامانی انتخابات میں سیاسی اتحاد قائم کرکے اپنے پچیس سے تیس ممبران بھی بھیجنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں چاہے وہ آزاد ہی کیوں نہ ہوں تو وہ بہر صورت ان مسلمان ممبران پارلیامنٹ سے کہیں بہتر ہوں گے جو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا مکھوٹا بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی قیادت قائم کرنے کے لئے مطلوب عملی و فکری کوشش کر نے کے لئے تیار ہیں ؟ کیونکہ ایسا کرنے کے لئے بہت ساری محنتیں ، حکمت عملی اور عدم انتشار جیسے عناصر درکار ہیں ۔ ایسا تبھی ممکن ہو پائے گا جب گاؤں گاؤں اور شہر شہر میں مسلم نوجوانوں کی چھوٹی بڑی یوتھ تنظیمیں تشکیل دی جائیں اور کامیابی کے ساتھ ان کو چلانے کے لئے مثبت خطہ عمل تیار کیا جائے، دیگر ستم رسیدہ غیر مسلم طبقوں کے ساتھ اتحاد پیدا کیا جائے اور ملک کے دستور کی روشنی میں اپنے حقوق کی بازیابی کا پختہ عزم قائم ہو تاکہ جہاں کہیں بھی ہندتوا کے غنڈے کسی بےبس مسلمان کو اپنا شکار بنائیں تو ایسے وقت میں ان کا تعاقب کیا جاسکے، عدالتی چارہ جوئی کی جائے اور انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جاسکے، اگر ہندستان میں دوچار جگہ بھی ان شرپسندوں کو کامیابی کے ساتھ کچل دیا جائے اور قانون کے دائرہ میں ان کا علاج کردیا جائے تو ان کی نفسیات کا پست ہونا یقینی ہے، کیونکہ مسلمان اور بزدلی دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے۔

 تاتاری حملوں کے دوران بزدلی دکھانے کا منفی اثر جو مسلم نفسیات پر پڑا تھا وہ ہمارے لئے درس عبرت ہے، اگر بزدلی کے وہی مظاہر سامنے آئے تو آج نتائج زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں کیونکہ دشمن ہماری گردن کشی کی پوری تیاری کر چکا ہے، اسلئے مسلمانوں کو حوصلہ مندی کے ساتھ اسکا مقابلہ کرنا ہوگا، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت اور جمیعۃ العلماء یا دیگر جماعتیں جو ملی تشخص کے تحفظ کا دعوی کرتی ہیں ان کو بھی اپنا روایتی طرز عمل بدلنا ہوگا ورنہ وہ اپنی معنویت کھو دیں گی، اگر انہوں نے اپنا رول زمانے کے تقاضوں کے تحت ادا نہیں کیا تو نئی تحریکیں جنم لیں گی اور نئے سرے سے مسلم حقوق کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیں گی، مسلمان ویسے بھی ان سے کسی معجزہ کی امید نہیں رکھتے ہیں لیکن ان پر اتنی ذمہ داری تو ضرور عائد ہوتی ہے کہ قیادت کے لئے نوجوانوں کو سامنے آنے دیں اور معمر حضرات صرف رہنمائی تک اپنا دائرہ محدود رکھیں کیونکہ تحریکیں شب و روز میں جنم نہیں لیتی ہیں بلکہ دہائیوں کی محنت کا وہ ثمرہ ہوتی ہیں ، زمانہ کی ضرورتوں اور چیلنجز کی روشنی میں ان میں تبدیلی ہوتی رہنی چاہئے۔

آج کے حالات اس بات کی متقاضی ہے کہ ایسی دعوتی، اصلا حی اور رفاہی تنظیموں کی قیادت بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں سونپی جائے، ہر علا قہ اور ہراسٹیٹ میں خود کو منظم کرنے کے پیش نظر ایسا اقدام وقت کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرےگا تاکہ نوجوان اپنا اور ا پنی قوم کے افراد کی حفاظت کرسکیں ۔ اگر آپ کبھی دیسکوری چینل یا نیشنل جیوگرافک چینل دیکھتے ہوں گے تو آپ نے یہ ضرور دیکھا ہوگا کہ کس طرح شیر بھینسوں کے غول سے ایک بھینس کو الگ تھلگ کرکے آسانی سے اسکا شکار کرلیتا ہے لیکن جب وہی بھینسیں سب کے سب اکٹھا ہوجاتی ہیں تو وہ اس شیر کے چھکے چھڑا دیتی ہیں اسلئے جماعتی اتحاد اور شیرازہ بندی پرتوجہ ہماری اولین ضرورت ہے۔شیعہ سنی، وہابی اور بریلوی کے جھگڑے بے سود ہیں ، یہ معرکۂ کفروایمان ہرگز نہیں ہے آپ ان سب کلمہ گو مسلمان کے معاملا ت اللہ میاں پر چھوڑیں آپ داروغہ بناکر نہیں بھیجے گئے ہیں اور نہ ہی آپ کے ہاتھوں میں جنت وجہنم کا پروانہ دیا گیا ہے خود کو ‘ بنیان مرصوص ‘پر قائم ایک مضبوط قوم کا ثبوت پیش کیجئے کیونکہ ہمارے ان جھگڑوں کا راست فائدہ دشمن کو پہونچ رہا ہے حالانکہ ہندو سماج جس طرح کی طبقاتی ناہمواری کا شکار ہے اسکی وجہ سے ان میں اتحاد تا قیامت نا ممکن ہے لیکن مسلم دشمنی کے سہارے ایک بڑی اکثریت کو متحد کرنے کی ان کی چال کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے، بھارت رنگ برنگے پھولوں کاایک حسین گلدستہ ہے اسکی لسانی وثقافتی نیرنگی ہی اسکا حسن ہے، چمن میں یک رنگی پھول کبھی خوبصورت نہیں دکھتے بلکہ پھولوں کی رنگا رنگی ہی اسکی خوبصورتی ہے اور اس خوبصورتی کی ضمانت دستور ہند میں مضمر ہے۔

 بھارت کا آئین ہی اس ملک کی  سا لمیت کو برقرار رکھ سکتا ہے ورنہ یہ ملک بکھر جائے گا اسلئے اس ملک کی وحدت کو برقرار رکھنے کیلئے آئین ہند کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، موجودہ حالات اسکی دستوری حیثیت کو بھی چیلنج کرنے کا اشارہ کررہے ہیں، آج ہندستان تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ وطن عزیز خطرے میں ہے۔ مسلمانوں کا ملی وجود مٹانے کی کوششیں تیز تر ہورہی ہیں اسلئے مسلمانوں کو تعلیم، تجارت سیاست میں عرق ریزی کرنی پڑے گی اور اپنی صفوں کو درست کرنا پڑے گا، اپنے ملی وجود کی حفاظت ساتھ ساتھ اس ملک کو بھی ان مادہ پرست، خود غرض اور کرپٹ لوگوں سے بچانا ہوگا جو اسکی روح پر ضرب لگارہےہیں۔ یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔