تسخیرِ کائنات سے آگے کی سوچنا

افتخار راغبؔ

تسخیرِ کائنات سے آگے کی سوچنا

لیکن نہ ایک ذات سے آگے کی سوچنا

ہو جائے گی حیات کی گردش سرور بخش

بس گردشِ حیات سے آگے کی سوچنا

جس میں ہے توٗ وہ دل ہی تو ہے محورِ حیات

کیا دل کی واردات سے آگے کی سوچنا

میں بھی اتار پھینکوں گا اپنی انا کا خول

تم بھی حصارِ ذات سے آگے کی سوچنا

اے دل گر اس کے حُسن پہ کرنی ہے گفتگو

حدِّ جمالیات سے آگے کی سوچنا

ممکن کہاں ہے میرے لیے اے مِری حیات

دل کے معاملات سے آگے کی سوچنا

اس کی نگاہِ لطف ہے کافی مرے لیے

کیا اس کے التفات سے آگے کی سوچنا

اُس نے جو بات کہہ دی وہ پتھّر کی ہے لکیر

مشکل ہے اُس کی بات سے آگے کی سوچنا

مثبت مباحثے کی ہے نیّت تو یاد رکھ

لازم ہے ذاتیات سے آگے کی سوچنا

آئے گی روشنی کی حکومت بھی ایک دن

راغبؔ سیاہ رات سے آگے کی سوچنا

تبصرے بند ہیں۔