برج کورس: حقیقت کے آئینے میں!

عبداللہ ندوی

(فارغ برج کورس)

برج کورس، ایک  اچھا کورس ہے اور اس کی اپنی افادیت ہےاورعلی گڑھ کی طرز پربعض دیگر تعلیمی اداروں میں بھی برج کی ابتدا اس بات کو درشاتی ہے کہ مدارس کے طلبہ میں علم وفن  کے حصول اور تربیت  کو لے کر بہت ذوق وشوق پایا جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی خاطر خواہ مہارتیں حاصل کرلیں یا کم از کم اپنی شخصیت کے ان گوشوں اور پہلؤوں کو بھی روشن کرلیں  جو مدارس میں  بس ایک حد تک ہی روشن ہوسکتے تھے ، کیونکہ مدارس اپنے نصاب تعلیم کے پابند ہیں اور اگر وہ یہ پابندیاں نہیں اوڑھیں گے تو ان کا امتیاز ختم ہوجائے گا۔ یہ عمل اس بات کو بھی درشاتا ہے کہ عصری اداروں سے وابستہ کئی اہل علم مخلصانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ کی کارکردگی میں اضافہ ہو اور وہ معاصر دنیا میں اسلام کو اور بھی اچھے طریقے پر پیش کرسکیں۔ یہاں ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کہیں نہ  کہیں مدارس کے ذمہ داران بھی یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ مدارس سے نکل کر یونیورسٹیز کا رخ کرنا طلبہ کے لئےمجموعی طور پر مفید ہے۔کوئی بھی طالب علم جو مدارس کا تربیت یافتہ ہے وہ ان کے بہت سارے تحفظات کے باوجود اس چیز کو محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتا۔میں ایک طالب علم کی حیثیت سے ان تینوں  پہلؤں کی سراہنا کرتا ہوں  اور امید کرتاہوں کہ ہمارے بڑے ہمارے لیے مزید اچھا سوچنے اور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور اس راہ میں کسی بھی قسم کے تعصب کو جگہ نہیں دی گے۔

میں یہاں برج کورس کی افادیت یا عدم افادیت پر بات نہیں کررہا  میں صرف یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ برج کورس کی ذمہ داری جن ہاتھوں میں ہے ان کی ذہنیت کیا ہے اور وہ طلبہ سے کس طرح پیش آتے ہیں۔ان کا فوکس تعلیم و تربیت کے علاوہ اور کس طرف ہے ۔البتہ کورس کے تعلق سے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ طلبہ اس  کورس سے  اور  طریق تدریس سے بھی خاطر خواہ مستفیض نہیں ہوپاتے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ  انٹرنل شپ ،انگلش، ریاضی اور سوشل سائنس کے مضامین کا تعارف ہوجا تاہے۔پھر بھی یہ ایک افادی پہلو ہے۔

البتہ اکثر طلبہ کے لئے جو چیز ناگوارِ خاطررہتی ہے وہ یہ ہے کہ برج کورس کے داخلہ جاتی امتحان میں نصف حصے کا انحصار شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی اتحاد سے متعلق سوالات پر ہوتا ہے ،اب کوئی بتائے کہ تعلیم سے ایسے سوالات کا کیا تعلق ہے؟ مزید کچھ سوالات انگریزی سے متعلق  بھی ہوتے ہیں ۔ میں نے اور میرے ایک دوست نے امتحان پاس کیا۔ پھر انٹرویو میں بھی مجھ سے شیعہ سنی کے مابین  اتحاد والے سوالات کئے گئے۔ چونکہ  مجھے معلوم تھا کہ اتحاد کرانے پر ہی داخلہ ممکن ہے، سو میں نے اتحاد والی با ت کہی ،لیکن میرے دوست نے عدم اتحاد والی بات کہی اور اسے فیل ہونا پڑ۔ اس کے حق میں خدا کو کچھ اور ہی منظور تھااور شاید یہ اس کے لیے اچھا ہی ہو۔ اس کا داخلہ جامعہ کے برج کورس میں ہوگیا۔

خیر تعلیم شروع ہوئی، اور دو انگلش ٹیچر آئے جو کتاب پر فوکس کرتے تھے، اور دو ٹیچر ایسے بھی تھے جو صرف بکواس کرتے تھے، اب میں تو اسے بکواس ہی سمجھتا ہوں۔ مدرسے کے طلبہ جس مقصد کے لئے آتے ہیں آپ وہ پڑھائیں، آپ ان کو اوپن مائنڈ بنانے کے فراق میں کیوں ہیں؟ اور مدارس کے حالات سے آپ کو کیا لینا دینا ہے؟ وہاں کٹر پنتھی ہو یا نہ ہو اس سے آپ اس سے کیا مطلب ہے اور اگر ہے بھی تو اس کے لئے کلاس ہی سب سے اچھی جگہ کیوں ہے؟ یہ باتیں آپ کلاس سے باہر بھی تو کرسکتے ہیں۔؟ لیکن وہ دونوں  اساتذہ  تقریباایک ہفتے تک یہی بکواس کرتے رہے، کچھ دنوں کے بعد دو نئے استاد آئے تو ان سے چھٹکارا ملا۔ پھر یہ افتاد پڑی کہ صرف  ایک ماہ کے بعدہی دواساتذہ  کہیں چلے گیے ،شاید کوئی سفر درپیش رہا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہفتے گھنٹے چینج ہونے لگے۔اس سے بھی تعلیم پر برا اثر پڑتا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ   محترم راشد شاز صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی درس جاری تھا، اس سلسلے میں بعد میں بات کروں گا، قدیم طلبہ نے ہمیں  مشورہ دیا کہ ہم شاز صاحب سے کہیں کہ انگلش کے ساتھ ریاضی کو بھی شامل کرلیں، ہم نے یہ بات سر سے کہی تو سر نے بات گھما دی کہ ہم پہلے سیمیسٹر میں صرف انگلش پڑھاتے ہیں، آپ لوگ پہلے  اسے کور کیجیے، انگلش سے ہمیں کچھ خاص  فائدہ نہیں ہورہا تھا،اب ظاہر ہے کہ  جو لڑکے انٹرمیڈیٹ کی انگلش پڑھ کر آئیں ہوں  اگر آپ  ان کو آپ فورتھ کلاس کی  انگلش پڑھائیں گے تو انہیں اس کے کیا خاک فائدہ ہوگا، ہاں ! کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جن کی انگلش کمزور تھی  اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے لیے یہ بات  فائدے سے خالی نہیں تھی کہ انہیں پہلے سیمیسٹر میں صرف انگلش پڑھائی جائے۔ پہلا سیمیسٹر بس یونہی گزر گیا۔

راشد شاز صاحب نے اپنے ذمہ کانسیپچول رائٹنگ کا سبجیکٹ رکھا تھا، پہلے تو وہ تقریبا ًدو ہفتے تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، جن میں کچھ اچھی اور علمی باتیں بھی ہوئیں، مگر زیادہ تر تو بس تنقیدی باتیں ہی  تھیں، بلکہ وہ جب لب ولہجے میں ہوتی تھیں ، اس لحاظ سے تو وہ تنقیدی سے زیادہ  تنقیصی ہی تھیں۔ پھر انہوں نے ’مسلمان‘ کی تعریف کرنے کا کام دیا، کہ مسلمان کسے کہتے ہیں، کسی طالب علم نے کچھ لکھا اورکسی نے کچھ، پھر گروپ وائز سلسلہ شروع ہوا، لیکن کسی لڑکے نے ان کے مطلب کی تعریف نہیں لکھی، تو انہوں نے طلبہ کے ذریعہ کی گئی مسلمان کی تعریفات پر اشکال وارد کیےاور اپنے الفاظ میں بتانے لگے کہ مسلمان کسے کہتے ہیں ، اس کے مفہوم میں کتنی وسعت ہے ۔ یہ سب بتاتے ہوئے وہ تفصیلات میں چلے گیےاور  سنیوں کے پانچ اور شیعہ کے سات ایمانی عقائدپر روشنی ڈالی ۔غرض ان کے لیکچراسی نوعیت کےرہے، کئی مہینے بیت گئے، پہلا سیمیسٹر ایسے ہی گزرگیا۔

 اب کوثر فاطمہ میم کے سبجیکٹ کی بات کرلی جائے، ان کے ذمہ بین المذاہب و المسالک مفاہمہ تھا، شروع شروع میں تنہا آتی تھیں، لیکن دو تین دفعہ جب طلبہ نے  انہیں اشکالات کر کر کے زچ کردیا، جس پر غصہ بھی ہوئیں، تو ان کے ساتھ شاز سر بھی آنے لگے، اور پھر وہی سب بکواس کرتے رہے جو انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھ رکھی ہے۔  انہوں نے طلبہ کے کسی اشکال کا کبھی جواب نہیں دیا تاہم انہوں نے طلبہ پر کبھی  غصہ بھی نہیں کیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ میں  اتحاد پیدا ہونے کے بجائے اختلافات رونما ہونے لگے اور اس کی ایک وجہ مذاکرہ ٔسبت بھی تھا، اس میں دو طرح کے ٹاپک دئے جاتے، ایک  وہ جن  سے برج کورس کی تعریف کرانا مقصود ہوتی۔اور دوسرے وہ  جن میں علماء یا مدارس پر نقد واجب ہوتا تھا۔ کچھ طلبہ جوش   کی رو میں بہہ جاتے اور برج کورس کو براہ راست جنت بتادیتے اور مدارس کو سب سے نچلی سطح پر رکھ دیتے تھے،جیسے وہ مدارس سے نہیں بلکہ جہنم سے آئے ہیں۔ اس سے دوسرے طلبہ  کوشکایت   ہوتی اورنوبت تکرار تک جا پہنچتی۔ پھر یہ شکایت پہونچتی کہ کچھ طلبہ دوسرے  طلبہ کی زبان بند کر رہے ہیں، بولنے پر پابندی لگا رہے ہیں، آزادی چھین رہے ہیں۔ غرض  پہلے سیمیسٹر میں یہی سب ہوتا رہا اور چھ مہینے بیت گیے۔ جنوری  کی چھٹیاں بھی گزر گئیں اور پھر صرف فروری کا ایک ماہ رہ گیا جس میں جلدی جلدی ریاضی اور سوشل سائنس کے سبجیکٹ پڑھائے گئے، مارچ  کے نصف میں سالانہ امتحان شروع ہوا اور اپریل کے شروع میں ختم ہوگیا، اب ہمارے پاس ۲۳ دن تھے جس میں بی اے کی تیاری کرنی تھی، لیکن اسی بیچ شاز صاحب نے اپنی انٹرنیشنل کانفرنس رکھ دی پھر وائیوا ہوتے رہے۔ اب ہمارے پاس صرف دس دن بچے۔

 خلاصۂ  کلام یہ کہ امتحان کی تیاری نہ ہوسکی اور بی اے کے امتحان میں ۱۳ لوگ فیل ہوگئے، نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا اور رزلٹ اتنا برا تو نہیں ہونا چاہئے تھا، انٹرنل شپ کے باوجود ۱۳ طلبہ کا فیل ہونا  تعجب خیز بات ہے، اگر غور کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ غیر ضروری باتوں پر زیادہ توجہ دی گئی اور برج کورس میں آنے  کا اصل مقصد کہیں دور تنگ وتاریک گلیاروں میں کھوگیا۔

برج کورس کا رخ کرنے والے طلبہ کو یہاں آنے سے پہلے اپنے اطراف سے یہاں تک کہ اپنے بعض اساتذہ سےبھی بہت ساری باتیں سننی پڑتی ہیں، ان میں سے  بعض یہ بھی ہیں کہ برج کورس گمراہی کی طرف لے جانے والا کورس ہے، راشد شاز کا عقیدہ درست نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ، لیکن جو طلبہ یہاں آنا چاہتے ہیں انہیں اپنے مستقبل کی فکر ہوتی ہے  اور وہ مزید علم حاصل کرنے کے متمنی رہتے ہیں اس لیے وہ کسی کی نصیحت اور گفت وشنید کو خاطر میں لائے بغیربرج کورس کا رخ کرتے ہیں اور یہاں داخلہ لے لیتے ہیں۔مگر ہوتا کیا ہے ؟ یہی کہ تعلیم شروع ہوتی ہے، اچھی اچھی باتیں بتائی جاتی ہیں، دوسرے مذاہب و مسالک کا احترام سکھایا جاتاہے اور اتحادی ذہنیت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس سے بھلا کس کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ طلبہ کافی خوش ہوتے ہیں کہ وہ یہاں آکردوسرے مسالک والوں کے ساتھ گھل مل رہ رہے ہیں، آپسی اختلافات دور ہورہے ہیں۔  لیکن ہوتا اس کے الٹ ہے ، مسالک پر بات کرنے سے جیسے اختلافات میں اوراضافہ ہی ہوتا ہے بطور خاص اس وقت جب کسی مسلک کی روایات  اور مسائل کو ٹھری نما تنقید کی زد پر رکھ لیا جائے ۔ اختلافات کی جڑیں اس وقت اور مضبوط ہونے لگتیں ہیں، جب ہفتہ واری ڈبیٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ اس میں دو طرح کے موضوعات ہوتے ہیں، ایک جن سے برج کورس کی تعریف مقصود ہوتی ہے اور دوسرے وہ جن پر بحث سے مدارس اور علماء پر تنقید مقصود ہوتی ہے۔ خاص کر طلبہ کے مسالک پر راشد شاز صاحب جو تنقید کرتے ہیں وہ خاص طور پر اختلافات کا باعث بنتے ہیں  ، خاص کر اس لیے بھی  کہ  وہ ایسے الفاظ اور اسلوب کے ذریعہ تنقید کرتے ہیں جن سے طلبہ کی نفسیات مجروح ہوتی ہیں ۔ یہیں سے اختلافات شروع ہوجاتے ہیں اور بچوں کا ذہن تعلیم سے ہٹ کرلاطائل اور غیر ضروری مباحث  میں لگ جاتاہے۔ کئی طلبہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر یہی سب ہونا تھا اور کرنا تھا تو اس کے لیے لیے سابقہ ماحول ہی بہتر اور کافی تھا۔

برج کورس میں ۵ مہینوں تک صرف انگلش پڑھائی جاتی ہےاور وہ بھی  بالکل ابتدائی درجات کی انگلش ۔اس سے  طلبہ کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا،ہاں جن طلبہ کی انگلش زیادہ کمزور ہوتی ہے ان کو تھوڑا بہت فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ مگر اتنا فائدہ تو وہ باہر کہیں بھی اسپیکنگ کورس کرکے حاصل کرسکتے تھے۔ اس میں برج کورس کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ ایک مہینہ امتحانات کی نذر ہوجاتا ہے اور کم و بیش دو مہینے سوشل سائنس اور ریاضی کے لئے بچتے ہیں۔ اب  ان دو ماہ میں کوئی کیا تیر مارلے گا۔ دعوی تو یہ ہے کہ ہم بچوں کو انگلش میں مہارت پیدا کرانا چاہتے ہیں، اس لئے پہلے سیمیسٹر میں دوسرے سبجیکٹس نہیں پڑھاتے لیکن اس دعوے کی آڑ میں ہوتا یہ ہے کہ اپنی فکر کو انڈیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ طلبہ اپنا عقیدہ نہ بگاڑیں لیکن علماء سے بدظن ضرور ہوجاتے ہیں۔

 ساتھ ساتھ طلبہ کو برج کورس کے متعلق لکھنے کے لئے بھی کہا جاتا ہے جو طلبہ شاز سر کی ذہنیت کے مطابق لکھتے ہیں ان کی اشاعت بھی ہوتی ہے، مگر جو ان کی ذہنیت اور فکر کے مطابق نہیں ہوتے یا جو برج کورس کی کسی نہ کسی حیثیت سے تعریف نہ کریں ان کے مضامین ردی کی ٹوکری میں پھینک دئے جاتے ہیں۔ یہاں غطریف ندوی صاحب بھی اپنا جلوا دکھاتے ہیں اور طلبہ کے مضامین ایڈٹ کرتے ہیں، ان میں ایسے الفاظ بھی  شامل کرتے ہیں جن سے برج کورس کی فکر کو مزید تقویت پہونچے۔

 ایک گھنٹہ بین المسالک مفاہمہ کے لئے بھی ہوتا ہے، جس میں کوثرمیم آتی ہیں اور ان کی تقریر کی سوئی، شیعہ سنی اتحاد اور اسلام اور مغرب تک ہی گھومتی ہے، جب طلبہ کے اشکالات سے پریشان ہوجاتی ہیں تو شاز صاحب بھی ان کا ساتھ دینے آجاتے ہیں اور اپنی فکر کو دیڑھ دیڑھ گھنٹے بیان کرتے ہیں، کبھی کوئی اشکال کردے تو کوئی ڈھنگ کا جواب نہیں دیتے بلکہ بات کو گھما جاتے ہیں، طلبہ و طالبات کے آپسی تعلقات بھی کافی مزیدار ہوتے ہیں، کہا یہ جاتاہے کہ ہم ایک صحت مند معاشرہ بنانا چاہتے ہیں  ،لیکن اگر کوئی طالب علم کسی لڑکی سے بات کرلے یا کوئی سوال کرلے تو میم آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ ایک طرف یہ بھی ہے اور دوسری طرف طالبات کے چہرے سے پردہ کھلوانے پر بھی میم کا اصرار ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ طالبات ضد پر اڑ جائیں کہ وہ چہرے کا پردہ کرینگی، لیکن کوشش بہرحال چہرہ کا پردہ اتروانے کی ہوتی ہے۔

منزل ما دور نیست میں انہی طلبہ کے مضامین کو جگہ دی گئی ہے اور انعام کے لائق ٹھہرائے گئے ہیں جن میں برج کورس کو ایک عظیم پلیٹ فارم کے طور پر بیان کیاگیا ہے۔ ان میں ایسے جملے بار بار نظر آئیں گے کہ برج کورس وہ پلیٹ فارم ہے  جہاں طلبہ  کی زندگیاں بدل جاتی ہیں، وہ اوپین مائنڈیڈ ہوجاتے ہیں۔ اور اتحاد واتفاق کے دئے ان کے دلوں میں روشن ہوجاتےہیں۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو اتحاد بین المسالک کے سلسلے میں برج کورس کا حصہ ایک  فیصد بھی نہیں ہے، مختلف مسالک کے طلبہ  کا آپس میں ایک ساتھ رہ لینا یا دوسرے کو برا نہ کہنا یہ کوئی اتحاد کی دلیل نہیں ہے، اتحاد تو تب ہوتا جب ایک دوسرے کے پیچھے نماز کو جائز کہنے لگتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا، اس کے برعکس اکثر طلبہ اور خاص کر دیوبندی اور بریلوی طلبہ  اپنے اپنےمسلکی اختلافات کو لے کرآپس میں متصادم رہتے  ہیں ۔بلکہ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ  ندوی اورقاسمی فکریں بھی ایک دوسرے سے تصادم کا شکار ہوجاتی ہیں۔ منزل ما دور نیست میں آخر کا حصہ چوتھے بیچ والوں کے لئے خاص ھے، تقریبا ۱۵/۱۶ طلبہ کے مضامین ہیں، ان کے بارے میں جہاں تک اندازہے  کہ مضمون کی بنیاد ی فکر میں کوئی  ایڈیٹنگ نہیں کی گئی ہے، بلکہ الفاظ میں تبدیلی کرکے مضمون کو دلکش بنایا گیا، جیسے کہیں اشعار ڈالے گئے ہیں اور کہیں محاورے لائے گئے ہیں، کہیں ایسے الفاظ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے  جن سے برج کورس کی فکر کو تقویت ملے۔ کئی لڑکوں کی اس سلسلے میں شکایت بھی موصول ہوئی۔ ہوتا یہ ہے کہ مضمون لکھویا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اچھے انداز اور اچھی فکر کے ساتھ لکھیں۔ جو مضمون اچھی فکر اور اچھے انداز کے ساتھ لکھا جائے گا اسی  مضمون کو کتاب میں جگہ دی جائے گی ( اوراچھی فکر سے کیامراد ہے یہ سب اچھی طرح سمجھتے ہیں، کیونکہ اب تک اچھی خاصی برین واشنگ ہوچکی ہوتی ہے) شروع شروع میں نئے طلبہ کی چاہت تو ہوتی ہی ہے کہ ان کا مضمون کتاب میں شائع ہو، لہذا وہ اسی کے مطابق  یعنی اچھی فکر کا خیال رکھتے ہوئے مضمون لکھ دیتے ہیں، (بعد میں کچھ طلبہ کو پچھتاوا بھی ہوتا ہے کہ انہوں جانتے بوجھتے غلط بیانی سے کام لیا)۔ اس کےپیچھے یہ سبب بھی کام کررہا ہوتا ہے  کہ مضامین اسی وقت لکھوائے جاتے ہیں جب دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ کا مائنڈ سیٹ ہوگیا ہے۔ اور وہ  کم از کم اتنا سمجھ اور سیکھ گئے ہیں کہ راشد شاز صاحب کی فکر کی تائید  نہیں تو کم از کم مخالفت تو بالکل نہیں کریں گے۔ دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ کچھ طلبہ شاز صاحب کی بہت ساری باتوں پر ایمان لے آئے ہیں۔ ہمارے بیچ کے جو مضامین چھپےہیں ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا،وہ  اس وقت لکھوائے گئے جب برج کورس کے مکمل فوائد شمار کروا دئے گئے اور راشد شاز صاحب کی  کوشش ،تگ و دوہ اور امت کے لئے ان کا کرب طلبہ پر واضح ہوگیا، اس وقت طلبہ پر ایک مخلصانہ اٹیک ہوا۔ اور ایسے طالب علموں نے بھی ان کی تعریف لکھی جو شروع سے ہی مخالف تھے اور جن پر ان کی فکر کااثر کم ہوا، ان کے مضامین ردی کی ٹوکری میں ڈال دئے گئے، ہاں دکھاوے کے لئے ایک آدھ ایسے مضامین بھی شائع ہوئے جن میں برج کورس کی ہلکی پھلکی مخالفت تھی، تاکہ بیلینس بنا رہے اور کوئی اشکال نہ کر سکے۔

مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ  طلبہ کی ذہنیت کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کون ہمارے کتنے کام آسکتا ہے پھر اسی حساب سے اس کا استعمال ہوتاہے، جب کوئی پروگرام ہوتاہے یا  جب کوئی مہمان باہر سے آتے ہیں تو اس وقت انہی طالب علموں کو آگے کیا جاتا ھے جو ان کی مدح سرائی کرتے ہوں، دیگر طلبہ کو موقع نہیں دیا جاتا، طلبہ کی تقریروں کی وڈیو گرافی بھی ہوتی ہے اور پھر ان میں سے ان ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کیا جاتا ہے جو ان کے مطلب کی ہوں، یوٹیوب پر cepecami amu کے نام سے چینل ہے، اس پر آپ سب بذات خود دیکھ سکتے ہیں، آپ موجودہ بیچ کے طلبہ سے بات کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ اور یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کے اندر کتنی تبدیلی آئی ہے۔ اور یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو گاہے بگاہے گھنٹے دیڑھ گھنٹے تک ان کے ذہن میں انڈیلی جاتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا عقیدہ خراب ہوتا ہےبلکہ یہ کہتا ہوں کہ ذہنیت میں تبدیلی آجاتی ہے۔ کئی طلبہ برج کورس میں رہتے ہوئے اس چیز کو محسوس نہیں کر پاتے۔ان سے ایسی میٹھی میٹھی باتیں کی جاتیں ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سال کب بیت گیا۔

 راشد شاز صاحب ایک طرف تو اپنے عیسائی دوست "جان” کو اس طور پر مسلمان اور جنتی مانتے ہیں کہ وہ توحید کے قائل تھے،اب  بھلے ہی وہ نبی آخر الزماں پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ مگر دوسری طرف مسلمان فرقوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کے عمل کو گمراہی ، کفر وشرک پر مبنی اور غیر اسلامی عمل بتاتے ہیں۔ ہے نا کچھ عجیب سی بات؟ جہاں  ایک غیر مسلم مسلمان ہوجاتا ہے اور ایک مسلمان خوامخواہ غیر مسلم ہوجاتاہے۔ باتیں خلافت کی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف خلافت کا دائرہ امریکہ ویورپ کی حکومتوں کے    اصول وضوابط کے ارد گرد ہی گھماتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ برج کورس میں اصل تعلیم سے زیادہ دوسرے مشاغل پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگر انٹرنل شپ نہ ملے تو اکثر طلبہ کو اچھے سبجیکٹس سے محروم رہنا پڑیگا۔ک یونکہ ان کی تیاری اتنی ہوہی نہیں پاتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. mohammad Ghitreef کہتے ہیں

    میاں عبداللہ نے اپنے مضمون میں زیادہ ترمبالغہ اورانتہائی غلط بیانیوں سے کام لیاہے۔راقم نے برج کورس کے اسی سے زائد طلبہ کے تاثرات لےے اوربالکل آزادانہ ماحول میں مگران سب نے بالکل دوسرے تاثرات دےے ۔برج کورس کے خلاف ایک گروپ جس میں ندوہ کے ہی کئی اکابراورعلماشامل ہیں متحرک ہے ،میاں عبداللہ اسی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اس لےے ان کے تاثرات صرف اورصرف منفی ہیں۔انہوں نے مجھ پر بھی شخصی طورپر الزام لگایاکہ میں نے طلبہ کے تاثرات میں کانٹ چھانٹ کردی اوراپنے مطلب کی باتیں کشید کرلیں یابنالیں۔عرض یہ ہے کہ میرے پاس طلبہ کی اوریجنل رائٹنگ میں ان کی تحریریں موجودہیں کوئی بھی آکردیکھ لے اورمنزل مادورنیست سے تقابل کرلے۔اس کے بعدان حضرت عبداللہ کا سفید جھوٹ سامنے آجائے گا۔
    تمام مخالفتوں ، نامساعد حالات اور عملی دشواریوں کے باوجود کئی اہم حصولیابیاں برج کورس نے کی ہیں۔ ایک تویہ کہ اس کے چاروں بیچوں کے فارغین میں سے متعدد طلبہ نے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لیاہے۔ اوروہ Main Stream تعلیم کے مختلف شعبوں میں چلے گئے ہیں۔ برج کورس کے ایک طالب علم عمیرخاںیونیوسٹی اسٹوڈینٹس یونین کے لےے منتخب ہوئے ۔ایک طالب علم نہال احمدلافیکلٹی کے ہونہار طالب علم ہیںاورکئی طلبہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جامعہ ہمدرداورانٹیگرل یونیورسٹی میں پیشہ ورانہ کورسوںمیں داخلہ لیا ہے ۔
    محمدغطریف شہبازندوی

  2. ڈاکٹر محمد طارق ایوبی کہتے ہیں

    برج کورس فی نفسہ ایک اچھا اقدام تھا مگر شاذ کی سربراہی نے اسے آلودہ کردیا ۔ مسلم یونیورسٹی کے اس پلیٹ فارم کو وہ محض اپنے مریض بلکہ منحرف افکار کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ۔ شاید انہیں نہیں معلوم کہ ان کے انحرافات کی حیثیت ریٹ کی سی ہے جس کے مقدر میں استقرار نہیں بلکہ ہواوں کے جھونکے جسے بے دردی سے ادھر ادھر بکھیرتے رہتے ہیں وہی حال ہے ان کے افکار کا ۔
    شاذ کے دجل و تلبیس کی ایک مثال یہ ہیکہ جب بھی انکے افکار پر تنقید کی گئی تو انھوں نے اس تنقید کا رخ برج کورس کی طرف پھیر دیا اور یہ واویلا مچائی کہ دقیانوس ملا برج کورس کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ ہمارے خلاف تو انھوں نے اپنے ملازموں سے اخبارات میں مراسلہ بازی بھی کی مگر ہم نے کان نہ دھرا۔ پورے ہندستان سے ایک فرد نے بھی برج کورس کی مخالفت نہیں کی البتہ دینی شعور اور حس رکھنے والے ہر شخص کا یہ مطالبہ ہے کہ ان کو برج کورس کی ڈائریکٹر شپ سے معزول کیا جائے۔۔۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے بھائی Asad Falahi کہ آپ نے ان کو یہ بتایا کہ تخریب کی جس منزل کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ "منزل ما دور نیست” وہ منزل بہت دور ہے ۔اسکا راستہ بھی بہت مشکل اور اس تک پہنچنا محال و ناممکن ہے کیونکہ اس امت میں آپ جیسے باشعور و بیدار مغز صاحب قلم نوجوان موجود ہیں ۔ راشد شاذ مستشرقین کے افکار و نظریات کے سچے وارث و امین ہیں ۔ ان کی کتابیں استشراق کا چربہ و ملغوبہ ہیں ۔ امت میں تشکیکی مزاج کی تشکیل اسکو اصل مصادر و مراجع سے لا تعلق کرنا اور اسلام کی شبیہ کو مکروہ بنانا ان کا مقصد زندگی ہے جو کہ مستشرقین کے وجود اور تگ و دو کا بنیادی مقصد تھا۔ مستشرقین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے وارث و وکیل اس ملت میں پیدا کر دیے جسکی ایک مثال انحراف کی علامت راشد شاذ ہیں۔۔ جزاک اللہ خیر

تبصرے بند ہیں۔