برسات، چھوٹا راجن، سکیتو مہتا اور میں

محمد علم اللہ

ٹرین کی روانگی تین بجے تھی، مگر میرے ذہن میں چار بجے کا وقت سمایا ہوا تھا۔ گاوں سے لوکل ٹرین دو بجے چلتی ہے، جو آدھے گھنٹے میں رانچی پہنچا دیتی ہے۔ اطمینان سے کھانا وانا کھانے کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اسٹیشن پہنچا ،تو پتا چلا آج ٹرین تاخیر سے آ رہی ہے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر اطلاع ملی کہ ابھی تو ٹرین لوہردگا سے بھی نہیں چلی اور اگر چند منٹ میں چل بھی گئی، تو ڈیڑھ گھنٹے سے کم وقت میں اٹکی اسٹیشن نہیں پہنچے گی۔ اس کے بعد اٹکی سے رانچی کی مسافت بھی تقریبا اتنی ہی ہے۔

میں نے سوچا ریل گاڑی سے بہتر ہے بس سے سفر کیا جائے، بس پکڑنے کے لیے بازار کی طرف نکلا ،تو مجھے خیال آیاکہ ایک مرتبہ پھر سے ٹکٹ دیکھ لینا چاہیے، بائک پر بیٹھے بیٹھے موبائل نکال کر ٹکٹ جو دیکھا ،تو معلوم ہوا کہ ٹرین تو دو پچپن پر ہے، یعنی ہمارے پاس پچاس منٹ بھی نہیں اور گھر سے رانچی ریلوے اسٹیشن اپنی سواری سے بھی کم از کم سوا، ایک گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے، میرے تو جیسے پاوں تلے سے زمین نکل گئی، کاٹو تو لہو نہیں،دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہو گئیں، خود پر جھنجلاہٹ اور افسوس بھی ہو رہا تھا کہ پہلے ٹکٹ کیوں نہ دیکھ لیا۔

اُدھر دفتر میں بھی چھٹی نہیں، اِدھر ٹکٹ کے پیسے بھی ضایع جائیں گے۔ گھر میں ابو نے بہت کہا تھا: ”ٹکٹ واپس کرا دو اور دو چار دن اور رکو، تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں” لیکن پتا نہیں مجھ پر کون سی دھن سوار تھی، میں نے انھیں پڑھائی اور ملازمت کی دُہائی دی، کچھ مجبوری بھی تھی، گھر پر مزید رُکنے کا مطلب نہیں بنتا تھا،اب واپس ہوتے ہوئے عجیب سی خفت کا احساس ہو رہا تھا اور واقعی دفتر کے حالات بھی کچھ ایسے تھے کہ مزید رُکا نہیں جا سکتا تھا، بقرعید کے دوسرے ہی دن کسی بھی طرح مجھے دفتر حاضر ہونا تھا، اور میں پہلے ہی تین دن مزید چھٹی لے چکا تھا،جب ملازمت مستقل نا ہو ،تو مختلف قسم کے خدشات گھیرے رہتے ہیں، کچھ اس لیے بھی میں پریشان تھا، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔

بھائی نے تسلی دینے کو، ’’وہی ہو گا، جو منظورِ خدا ہوگا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا: ”چلیے رِسک لیتے ہیں، بائک ہی سے رانچی چلیں گے، آگے کا اللہ مالک ہے‘‘۔

نہ ہیلمیٹ، نہ بائک کے کاغذات؛ مجھے کچھ تذبذب ہوا، تو وہ کہنے لگا: ”پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر ٹرین چھوٹ بھی گئی، تو گھوم گھام کر واپس آ جائیں گے‘‘۔

بسم اللہ پڑھ کر اس نے بائک تیزی سے دوڑانا شروع کر دی، ابھی ہم نے آدھا راستہ بھی طے نہ کیا تھاکہ ابر برسنے لگا،دیکھتے ہی دیکھتے بارش بہت تیز ہو گئی؛ اتنی تیز کہ بائک سنبھالنا مشکل ہو گیا، پانی کے قطروں کی ایسی دھاریں تھیں کہ سڑک سجھائی نہ دے رہی تھی،تب بھائی کی ہمت جواب دے گئی؛ کہنے لگا: ”بھیا! ایسا لگتا ہے جیسے آج قدرت کو بھی منظور نہیں کہ آپ سفر کریں؛ اس لیے اب واپس لوٹ چلیے۔‘‘

مجھے مووی ’انسیپشن‘ کا وہ سین یاد آ گیا، جب بظاہر ساری راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور ٹام ہارڈی، لیونارڈو ڈی کیپریو سے افسوس بھرے لہجے میں کہتا ہے کہ ہم اتنی قریب پہنچ کر بھی منزل کو نہیں پا سکے۔

میں نے کہا: ’’یار اب اتنی دور آ گئے ہیں، قدرت کو منظور نہیں ہوتا، تو شاید ہم یہاں تک بھی نہیں پہنچ پاتے، واپس جانا مناسب نہیں ہے؛ بس خدا کا نام لے کر گاڑی تیزی سے چلاتے رہو؛ باقی کا آگے دیکھتے ہیں۔‘‘

وہ تھک چکا تھا، موسلا دھاربارش کی وجہ سے واقعی کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا، کہنے لگا: ’’بھیا! مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا، میں نہیں چلا سکوں گا!‘‘

بائک میں میرا ہاتھ صاف نہیں اور دہلی میں ہونے والے حادثے کے بعد اور بھی خوف آتا ہے؛ پھر بھی میں نے بھائی سے کہا:

”لاؤ بائک مجھے دو، بس کلمہ پڑھ لو، آج کچھ بھی ہو سکتا ہے! ‘‘

اب میں ہوا سے باتیں کر رہا تھا اور میرے ذہن میں سکیتو مہتا (معروف مؤرخ، قلم کار اور اسکرپٹ رائٹر) کی باتیں اور چھوٹا راجن کا واقعہ چل رہا تھا۔

داؤد ابراہیم (جسے متعدد جرائم اور دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ گردانا جاتا ہے) کے حوالے سے رائٹر سکیتو مہتا نے اپنی معروف کتاب ’’میکسیمم سٹی: بمبئی لوسٹ اینڈ فاونڈ‘‘ (مہا نگر: گم شدہ بمبئی اور اس کی تلاش) میں لکھا ہے کہ جب گینگسٹر کو پکڑنے کے لیے پولیس نے پوری ممبئی کے چپے چپے پر پولس کی نفری متعین کر دی اور بہت تیزی سے اس کی چھان بین شروع ہو گئی، تو اس نے ہندوستان چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا، طیارے کے ذریعے اسے ہوائی اڈہ پہنچنا تھا، جس کے لیے کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ درکار تھا، اس کے پاس محض ایک گھنٹے کا وقت تھا، جس گاڑی میں وہ سفر کر رہا تھا، پولیس اس گاڑی کا پیچھا کر رہی تھی، اس نے گاڑی سڑک کے بیچ کھڑی کی اور اُچک کر ایک بائک پر جا بیٹھا؛ بائک والے سے کہا: ’’ بائک اندر گلی میں گھسیڑ لو‘‘۔ بائکر سمجھ دار تھا یا خوف زدہ، اس نے ایسا ہی کیا۔ گلی میں داخل ہونے کے بعد اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، اسے قدر ے سکون ہوا تو بائک والے سے حقیقتِ احوال بیان کردی۔

”مجھے ہوائی اڈے پہنچنا ہے اور میرے پاس صرف آدھا گھنٹا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ تم مجھے ہوائی اڈے چھوڑ دو؟ منہ مانگا انعام دوں گا‘‘۔

بائکر نے جواب دیا:”میں کوشش کر سکتا ہوں، باقی آگے بھگوان مالک ہے‘‘۔

مختلف گلی کوچوں، شاہ راہوں، پگ ڈنڈیوں، نالیوں، گڈھوں سے گزرتے ہوئے، اس نے آدھے گھنٹے سے پہلے ہی ہوائی اڈہ پہنچا دیا، داؤد نے پہچان لیا کہ یہ شخص کام کا ہے، اس نے اس کا رابطہ نمبر لیا اور کہا میں تم سے ملوں گا، یہ بائکر اور کوئی نہیں، چھوٹا راجن تھا؛ جو بعد میں داؤد کا قریبی، بہت قریبی اور ازلی دشمن بنا، یہاں بتاتا چلوں کہ راجندر سدا شیو نکھلانجے عرف چھوٹا راجن متعدد خطرناک جرائم، قتل اور بم بلاسٹ جیسے مقدموں میں ماخوذ ہونے کے بعد ممبئی کے تلوجا جیل میں ”عمر قید‘‘ کی سزا کاٹ رہا ہے۔2000 ء میں بنکاک میں داؤد ابراہیم کے گرگوں کی فائرنگ سے بھی چھوٹا راجن محض اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

یہ سب سوچتے ہوئے مجھے ایسا لگا ،جیسے ’چھوٹا راجن‘کی روح میرے اندر حلول کر گئی ہو اور میں ان جانے رستے پر موٹر سائکل تیزی سے دوڑا رہا ہوں۔گاوں دیہات کے اوبڑ کھابڑ راستوں کو عبور کرتے ہوئے ہماری بائک تیزی سے فراٹے بھر رہی تھی، کئی مرتبہ میں نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں، ہم دونوں بھائی بارش میں شرابور ہو چکے تھے، لباس بھیگ کے بدن سے چپکا ہوا تھا؛ جس کی وجہ سے ٹھنڈ بھی بہت لگ رہی تھی؛ لیکن جب اوکھلی میں سر دیا، تو موصلوں کا کیا ڈرنا، بائک چلتی رہی، رکشا بندھن ہونے کی وجہ سے سڑکیں بالکل خالی تھیں، ٹریفک برائے نام تھی، پولیس والے بھی دکھائی نہیں دیے، یعنی یہ بارش اس لحاظ سے ’’ابرِ رحمت‘ ہوئی کہ چیکنگ سے بچ گئے، خدا خدا کر کے جب اسٹیشن پہنچا، تو تین بج چکے تھے،بائک کھڑی کی، تو اعلان سنائی دے رہا تھا:

”رانچی سے دلی جانے والے یاتری گنڑ کرپیا دھیان دیں، سورن جینتی سوپر فاسٹ رانچی سے آنند وہار دلی جانے والی ٹرین روانہ ہونے والی ہے‘‘۔

میں نے سامان اٹھاکر تیزی سے پلیٹ فارم کی اور دوڑ لگا دی، جیسا کہ ٹرین بس چھوٹنے ہی کو تھی، ہانپتے کانپتے بوگی میں سوار ہوا تو ٹرین چل پڑی، اپنی اس مہم کے سر ہونے پر مجھے جو خوشی ملی، شاید ہی کبھی ملی ہوگی، ڈیڑھ گھنٹے کا طویل سفر صرف پینتالیس منٹ میں کیسے سر ہو گیا، مجھے خود بھی یقین نہیں آ رہا تھا؛ لیکن خوشی تھی کہ ٹرین پکڑ لی تھی۔

اس سارے ایڈونچر سے یہ سبق لیا کہ خوابوں کے حقیقت میں بدل جانے کا امکان ہی در اصل زندگی کو دل چسپ اور رنگین بناتا ہے، حسن عطا کرتا ہے؛ اس لیے کبھی کبھی ’رِسک‘ لے لینا چاہیے،کتابیں بھی پڑھنی چاہئیں اور فلمیں بھی دیکھنی چاہئیں،پتا نہیں کون سی بات آپ کے ذہن میں گھر کر جائے اور آپ اس سے اپنی منزل کو پانے میں کامیاب ہو جائیں۔

اب ایک دوسری الجھن ہے۔ رائٹر سکیتو مہتا کی کتاب میں داؤد ابراہیم اور چھوٹا راجن کی شناخت واضح ہے؛ لیکن میں یہ نہیں سمجھ پا رہا کہ اس قصے میں، جو اوپر آپ سے بیان کیا، اس میں، میں کون ہوں؟ یہ تو طے ہواکہ یہاں میں چھوٹا راجن نہیں ہو سکتا، داؤد ابراہیم بھی نہیں، تو کہیں میں سکیتو مہتا تو نہیں؟ کیا سکیتو مہتا نے داؤد ابراہیم کے فرار اور چھوٹا راجن کی تیز رفتاری سے بائک چلا کے ہوائی اڈے تک جانے کی کیفیت کو ایسے ہی محسوس کیا ہو گا، جیسا کہ میں نے اس سفر میں کیا؟!

تبصرے بند ہیں۔