برق گرتی ہے تویہ نخل ہرا ہوتا ہے!

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

   صرافہ بازاروں سے گزریئے، کہیں بھٹیوں سے دھویں اٹھتے اورکہیں آتشدانوں سے شعلے لپکتے نظرآئیں گے، یہ بھٹیاں اس لئے گرم نہیں کی جاتیں کہ ان کی آگ سے کسی کے گھرکوپھونک دیاجائے یاان کی راکھ کسی کے منھ پرپوت دی جائے؛ بل کہ اس لئے گرمائی جاتیں ہیں ؛ تاکہ زنگ آلودسونے اورچاندی کوان شعلوں میں تپاکرصیقل کیاجائے اوران کے اس حسن کونکھاراجائے، جولوگوں کے دست بدستی کے نتیجہ ماندپڑگیاہے، گویاسونے اورچاندی کوتاؤ دینے کا مقصد ان کے فساد کودورکرنا اورانھیں عمدہ بناکر بازارمیں لاناہے؛ تاکہ ان کاخریداربن کرآنے والاشخص خریدے بغیرواپس نے جائے۔

 یہ دنیامسلمانوں کے سونارکی اسی بھٹی کی مانند ہے، جہاں سے زنگ زدہ سوناآبدارہوکرنکلتاہے، اورمسلمانوں پرآنے والے مصائب اس دنیاوی بھٹی کے لپکتے ہوئے شعلے ہیں، جن میں تپ کرنکلنے والے مسلمانوں کی حیثیت صیقل کئے ہوئے سونے اورچاندی کی سی ہے کہ جب وہ بھٹی سے جل کرنکلتے ہیں توانھیں پسندکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اوران کے خریدنے کے لئے خطیررقم صرف کیاجاتاہے، ٹھیک یہی حال مصائب کی بھٹیوں میں جل کرنکلنے والے مسلمانوں کی ہے کہ جب وہ آبدارہوکرنکلتے ہیں توان کی قدرکی جاتی ہے اوران کے سامنے بچھ جایاجاتاہے۔

 تاریخ کے اوراق میں ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے کہ جب مسلمانوں پر غفلت کی زنگ چڑھ گئی تودستِ قدرت نے ان کوچمکانے کے لئے مصائب کی بھٹیاں گرم کیں، صلیبی جنگوں کے ہمالیائی سلسلے اورعالمِ اسلام پرتاتاری حملے اسی دنیاوی بھٹی کے شعلے تھے، جواس وقت کے غفلت زدہ مسلمانوں کوجلا بخشنے کے لئے دہکائے گئے تھے؛ چنانچہ جب غفلت کی زنگ ان سے جھڑگئی تویہ مصائب بھی ان سے دورکردئے گئے۔

 آج دنیا کے مختلف خطوں میں جومسلمانوں پرجوروجفا کے تیربرسائے جارہے ہیں، ان کے خون کوجس ارزانی کے ساتھ بہایاجارہاہے، ان کی عزتوں پرجوڈاکے ڈالے جارہے ہیں، ان کی تجارتوں پرحملے کرکے جس طران کی معاشی ترقیوں پرروک لگانے کوشش کی جارہی ہے، اعلی عصری علوم کے حصول میں مشغول مسلم نوجوانوں ناحق گرفتارکرکے جس طرح پسِ دیوارِزنداں کیاجارہاہے اورجوان کے مقدسات کے خلاف مغلظات بک کران کے نفس کومجروح اورجذبات کوٹھیس پہنچائی جارہی ہے، یہ سب بھی اسی بھٹی کے اٹھتے ہوئے شعلے ہیں، جو غفلت کی زنگوں میں لتھڑے ہوئے مسلمانوں کوصاف کرنے کے لئے بھڑکائے گئے ہیں ؛ تاکہ وہ خود بھی چمک جائیں اوردنیاکوبھی چمکادیں۔

 آج ہمارے اندر جودینی، تعلیمی اورتحریکی تموج پائی جارہی، وہ انھیں شعلوں کی بدولت ہے، اگریہ شعلے نہ ہوتے توہم آج بھی خوابِ غفلت  میں پڑے رہتے، آج جس طرح ہمارے سامنے مسلمانوں میں ظلم وستم کی خبریں آرہی ہیں، اسی طرح یہ خوش آئندخبریں آتی رہتی ہیں کہ اسی یورپ اورامریکہ میں، جہاں سے اسلام اوراہل اسلام کوصفحۂ ہستی سے مٹادینے کی سازشیں رچی جارہی ہیں، ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں، اوراس کثرت سے ہورہے ہیں کہ وہاں کے ماہرین کے دماغوں کی چولیں تک ہلتی نظرآرہی ہیں اورانھیں سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ یہ کایاپلٹ کیوں کر واقع ہورہی ہے؟

 ہماری نئی نسل تعلیم کی راہ سے دین بیزارہوچکی تھی؛ لیکن جب سے مسلم ملکوں پردشمنان ِاسلام کے بم برسنے اوران کے میزائل داغے جانے لگے، اس نسل کی مضطرب سفینۂ ایمان ساحل کی طرف آنے اوران کے متزلزل قدموں میں رسوخ پیداہونے لگااورپھرسے ان کارشتہ اُس دین سے مضبوط ہونے لگا، جس سے ان کے رشتے کوکاٹنے کے لئے اسلام دشمنوں نے تعلیم وتہذیب کے اسکول کھول کران کے ایمان پرچھری چلادیاتھا۔

  ہمیں ہروقت ظلم وزیادتی ہی کاگلہ نہیں کرتے رہناچاہئے؛ بل کہ یہ بھی سوچناچاہئے کہ ہم من حیث القوم کب تک بیدارہوں گے؟ یہ ظلم وزیادتی بس ہماری بیداری تک ہی ہے، جیسے ہی ہم اپنے جسموں سے غفلت کی چادر پھیکیں گے، جوروجفا کی قناتیں ہمارے سروں سے اُسی طرح سرکتی چلی جائیں گی، جس طرح طلوعِ آفتاب کے ساتھ شب کی تاریکی چھٹتی چلی جاتی ہے، کاش! ایسا ہوجائے!

تبصرے بند ہیں۔