علماء کرام کی توہین سے بچیں!

مولانامحمد غیاث الدین حسامی

 دین اسلام ابدی اورلازوال دین ہےجو قیامت تک باقی رہنے والاہے، اس دین کو باقی رکھنے کے لئے اللہ نے جہاں کتاب کو نازل کیا وہیں کتاب کی تفہیم و تشریح کےلئے افراد و اشخاص بھی پیدا کیا ہے، جو کتاب اور اس کے احکام کی مکمل حفاظت کرتے ہیں اور اس کے مسائل سے انسانو ں کو واقف کراتے ہیں، زمانے کے حالات کے تناظر میں اس میں غور فکر کرکے مسائل مستنبط کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعددین وایمان کی یہ ذمہ داری ایسے افراد کے ہاتھ آئی جنہیں حدیث میں روشنی میں ’’ علماء‘‘ کہا جاتا ہے،یہ وہ پاک طینت افراد ہیں جنہوں نےجہد مسلسل اور عمل پیہم کے ذریعہ دین کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا یا، دین اسلام پر وارد ہونے والےہر اعتراض کا قرآن و حدیث کی روشنی میں دفاع کیا، اس کے لئے ہر طرح کی قربانی انہوں نے پیش کی اور کبھی بھی دین کی حفاظت و اشاعت سے غفلت و سستی نہیں برتی، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں علماءکرام کی خوب ستائش کی گئی اور ان کے مقام و مرتبہ کو بتلایا گیا، اور انہیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا گیا، اور ان کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ’’  قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ (ان سے پوچھئے کہ )کیا عالم و جاہل دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ (الزمر :۹)اسی طرح ایک مقام پر فرمایا کہ ’’يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ‘‘اللہ تعالی (دنیا و آخرت میں ) بلند درجات عطا فرمائےگا ان مؤمنین کو جو اطاعت گذار ہیں اور اہل علم یعنی علماء کو (المجادلۃ ۱۱)بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہی کو بتلایا گیا (الفاطر۱۶) کسی چیز کی جانکاری کے لئے انہیں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا(النحل ۴۳)

 احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں علماء کی فضیلت کو بیان کیا ہے، اور ان کی ناقدری کرنے والوں، ان کی توہین کرنےوالوں اور ان سے بغض رکھنے والوں کے بارے میں بڑی سخت وعیدیں ذکر کی ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تم میں کے ادنی پر، پھر فرمایا : اللہ تعالی اس کے فرشتے، آسمان و زمین والے حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں عالم کے لئے خیر اور بھلائی کی دعاکرتی ہیں (ترمذی حدیث نمبر۲۶۸۵)ایک حدیث میں فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی ) پورا پورا حصہ لیا(ابو داؤد، باب الحث علی طلب العلم، حدیث نمبر۳۶۴۱)صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جس شخص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ خیر اور بھلائی کا معاملہ فرمانا چاہتے ہیں اس کو دین کی سمجھ اور علم عطا فرماتے ہیں ان تمام روایات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علماء کا کس قدر خیال رکھ رہے ہیں ، اور ان کی قدر دانی کرنے کی کتنی تاکید فرمارہے ہیں۔

موجودہ معاشرہ میں علماء کی تعظیم و تو قیر، عزت و احترام میں بہت حد تک کمی پائی جاتی ہے، اورمنظم سازش کے ذریعہ علمائے امت پرسے اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے دشمنانِ اسلام طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ کو پہنچے ہیں کہ مسلمانوں میں فکری الحاد پھیلانا ہو اوران کو اپنے لحاظ سے مفلوج اور ناکارہ کرنا ہوتوان کا رشتہ علماء سے توڑنا ضروری ہے، کیونکہ جب تک ان کا رشتہ علماء سے جڑا رہے گا اس وقت تک ان کے اندردینی حمیت اور ایمانی جوش منتقل ہوتا رہے گا، اس لیے اب ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ عام مسلمان علما سے بدظن ہوجائیں اور ان سے اپنا ناطہ توڑلیں ،اس کے لئے علماء کو بدنام کرنے کے لئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور ان کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے سازشیں رچی جارہی ہیں ، اور عام مسلمانوں کو ان سے بدظن کیا جارہا ہے، جس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں میں علماء کی عزت و توقیر کا فقدان ہے، چند دینی معلومات کی بنیاد پر علماء سے بحثیں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے، ان کی شان میں توہین آمیز کلمات کہنا بعض کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، علماء کی توہین کرنے اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے اور اذیت و تکلیف پہنچانے والوں کے بارے میں رسول اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں ذکر کی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جوشخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارا اور اس کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے(مستدرک حاکم حدیث نمبر۴۲۱)اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق ہی تکلیف دے سکتا ہے(۱) وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا، (۲) عالم دین (۳) عادل بادشاہ (الترغیب و الترہیب ۱؍۱۱۵)حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی فقیہ( عالم) کو تکلیف پہنچائی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالی کو تکلیف پہنچائی ( بخاری، حدیث نمبر۶۰۴۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ تم عالم بنو، یا طالب علم بنو، یا علم سننے والے بنو، یا ان سے محبت رکھنے والے بنو، پانچویں قسم میں ہرگز داخل نہ ہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تو علم اور علماء سے بغض رکھے (مجمع الزوائد حدیث نمبر۴۹۵)حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرتے ہیں ، (۱) قحط سالی (۲) بادشاہ کی جانب سے مظالم (۳) حکام کی خیانت(۴) دشمنوں کے مسلسل حملے(مستدر حاکم ۴؍۳۶۱) نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایاعالم زمین پر اللہ کی حجت ہے، پس جس نے عالم کی عیب جوئی کی وہ ہلاک ہو گیا(کنزالعمال۱۰؍۵۹) ان روایات کی روشنی میں آج کے معاشرہ کا جائزہ لیں کہ آج لوگوں نے کس جرأت کے ساتھ علماء کی توہین اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو اپنے شیوہ بنالیاہے جب کہ انہیں خود اپنے اعمال و کردار کی فکرنہیں۔

  فقہاء نے لکھا ہےکہ جو شخص علماء کی توہین کرتا ہےیا انہیں تکلیف دیتا ہےاس پر کفر یا سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘ علم اور علماء کی توہین کفر ہے(الاشباہ والنظائر، باب الردۃ ۱۶۰ )علامہ شعرانیؒ طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ امام ابو تراب بخشیؒ جو مشائخ صوفیہ میں ہیں فرماتے ہیں کہ ”جو شخص اللہ تعالی سے نامانوس ہوجاتا ہے تو وہ اہل اللہ پر اعتراض کرنے کا خوگر (عادی) ہو جاتا ہے(طبقات کبری)نیز ملک کی مایہ نازباوقار قدیم دینی درسگاہ ازہر الہند دارالعلوم دیوبند نے ایک فتوی کے جواب میں لکھا ہےکہ شریعت میں علماء کا مقام نہایت بلند و برتر ہے عوام پر ان کی تعظیم ضروری ہے، علماء کو برا بھلا کہنا ان کو گالیاں دینا، ان کی توہین کرنا جائز نہیں بلکہ بسا اوقات اس سے سلب ایمان کا بھی خطرہ ہے، علماء نے صراحت کی ہے اگر عالم کی اہانت بمقابلہ امر دین و حکم شرع کے ہوتو اس سے آدمی کافر ہو جاتا ہے،ایسے شخص کو چاہئے کہ صدق دل سے توبہ و استغفار کرے اور تجدید ایمان کرلے(فتاوی دارالعلوم) نیز فتاوی عالمگیری میں ہے :جو شخص کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری سبب کے بغض رکھے اس پر کفر کا اندیشہ ہے( فتاوی عالمگیری)اسلئے بزرگوں نے کہا ہےکہ مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں ، انکی تضحیک انکے منصب کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے، انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمہ داری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے۔علما ء نے لکھا ہےکہ گمراہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے،مولانا عبد الحیؒ اپنے فتوی میں لکھتے ہیں : اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں ،بریلوی مسلک  کےسرخیل حضرت مولانااحمد رضاخانؒصاحب فاضل ِ بریلوی اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، اشد کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے، اس کی تحقیروتوہین معاذ اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹)

نیز جو لوگ اپنے بڑوں اور بزرگوں کی جائز باتوں اور مبنی برحکمت اقوال و افعال پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں ، ان کو دنیا میں نقد یہ سزا دی جائے گی کہ ان کی اولاد بے دین اور ملحد پیدا ہوگی(ماہنامہ بینات اکٹوبر۲۰۰۹)حضرات علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضر ات انبیاء ا کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں ، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے”من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب“ جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے(مشکوٰة، ص:۱۹۷)

 آج کل علماء کرام کی جو ناقدری، ان کے ساتھ بے ادبی و گستاخی اور انہیں برا بھلا کہنے کا جو رواج بنتا جارہا ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، غیر تو غیر اپنوں نے بھی علماء کو تنقید کا نشانہ بنالیا ہے، جس کسی مجلس میں بیٹھیں گے جب تک کسی عالم کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نہ نکالیں گے انہیں چین و سکون میسر نہیں آتا، جبکہ اسلام نےاختلاف رائے رکھنےکے بارے میں اصول و ضوابط بتائے ہیں حدود قیود متعین کئے ہیں ، شائستگی اور سنجیدگی سے اختلاف کرنےکا طریقہ سکھلایا ہے، بے ادبی، سطحیت، تذلیل، حقارت اور توہین کو کسی صورت جائزقرار نہیں دیا ہے،کسی بھی ناگہانی بات پر گفت و شنید کا موقع فراہم کیا ہے، احسن طریقہ پر بحث و مباحثہ کی حکم دیا ہے، اس کے بجائے توہین آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے تحقیر و تذلیل کرنا انتہائی بد اخلاقی ہے، ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔ علماء پر بہتان لگانا اور سنی سنائی باتوں کو ان کی طرف منسوب کرنا اور ہر محفل میں زبان درازی کر کے اپنی علمی شان اور رفعت ِ مکانی ظاہر کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں ، ایسے لوگ پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور علماء پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ہمارے پاس کیا اعمال ہیں ، جنہیں دربارِ الہی میں پیش کرسکیں گے۔

2 تبصرے
  1. محمد طاھر جمشید پوری جھار کھنڈ کہتے ہیں

    میں شکر گزار ھوں حضرت مولانا کا کہ انھوں نے مدلل باتیں بتائیں

  2. آصف علی کہتے ہیں

    اکثر لوگوں کے نزدیک تنقید کرتے ہوئے اس کے مقاصد کا تعین نہیں ہوتا ہے یعنی وہ تنقید کیوں کر رہے ہیں، انہیں اس کی کچھ خبر نہیں ہوتی ہے :-

    1- ہمارے معاشروں میں اکثر تنقید برائے تنقید ہوتی ہے۔
    2- یا تنقید کا مقصد تنقیص اور تعییب ہوتا ہے۔
    3- یا لوگ تنقید اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تنقید ان کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے۔
    4- یا تنقید اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ آپ کو کسی شخص یا گروہ سے بغض و نفرت ہوتی ہے تو آپ کے لیے اس کے کسی بھی عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔
    5- یا تنقید کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی نے آپ پر تنقید کی ہے تو آپ نے اس پر تنقید شروع کر دی ہے۔
    ان بیان کردہ مقاصد اور محرکات کے ساتھ کیے گئے عمل کو تنقید کہنا ایک مشکل امر ہے، ہاں اسے رد عمل کی نفسیات یا تنقیص یا تعییب یا عصبیت یا عزت نفس یا مجادلہ یا مناظرہ کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے۔

    تنقید اکثر و بیشتر اصلاح کے جذبہ و مقصد کے تحت نہیں ہوتی ہے اگرچہ دعوی ہر ناقد کا یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے اصلاح اور بناؤ چاہتا ہے۔ تنقید سے پہلے کسی بھی ناقد کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی نیت و ارادے اور مقاصد کا جائزہ لینا اور ان پر نظر ثانی کرنا از بس ضروری ہے تا کہ یہ نہ ہو کہ جسے وہ اصلاح سمجھ رہا ہو، درحقیقت وہ اس کا ڈیپریشن ،فرسٹریشن اور ٹینشن ہو جسے وہ مد مقابل پر نکال رہا ہو یا وہ فریق مخالف پر اپنا غصہ نکالنے کو اعلی درجے کی کوئی معاشرتی یا دینی خدمت سمجھ رہا ہو۔
    فرمان نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
    انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ ما نوی۔

    (متفق علیہ)

تبصرے بند ہیں۔