آنے والے 15 مہینوں میں حکومت صرف الیکشن لڑے گی

حفیظ نعمانی

پورا ملک نہیں بلکہ آدھی دنیا ملک کے بینکوں کے سب سے بڑے گھوٹالے پر انگشت بدنداں نظر آرہی تھی اور دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے بھاری بھرکم صدر ہیلمٹ سر پر رکھے ہوئے موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے ان نوجوانوں کے بائک جلوس کی قیادت کررہے تھے جو الیکشن کی فضا بنانے کے لئے اس ہریانہ سے نکالا گیا جس کے بارے میں ایک دن پہلے ہی کسان لیڈر یادو نے کہا تھا کہ ہریانہ میں ہم نے 50 سال میں ہر طرح کی حکومت دیکھی لیکن جتنی نکمی یہ سرکار دیکھی ایسی آج تک نہیں دیکھی۔

وہ کسان لیڈر تو ہریانہ کے ہی رہنے والے ہیں ان کو جتنی بھی تکلیف نہ ہو کم ہے اور یہ تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ دو سال پہلے جاٹوں نے ریزرویشن کے نام پر ہریانہ کے غیرجاٹوں کا جو حال کیا وہ پورا کیا اس کا پچاسواں حصہ بھی کہیں نہیں ہوا تھا ایسے ایسے شوروم اور ایسے ایسے مال جس کی مثال دنیا کے بڑے شہروں میں ہی مل سکتی ہے راکھ کا ڈھیر کردیئے گئے تھے اور شہرت تو یہ بھی تھی کہ پچاس ہزار کروڑ روپئے کا نقصان حکومت کا ہوا تھا جو ایک ہفتہ تک دم سادھے بیٹھی رہی تھی اسی ہنگامہ میں کتنے مرے کتنے زخمی ہوئے اور کتنوں کی دنیا ہی اجڑ گئی اس کے باوجود اب یہ نکمی سرکار تمام مقدمے واپس لینے کی بات کررہی ہے۔ صرف اس لئے کہ بی جے پی کو ملک نہیں ووٹ کی ضرورت ہے وہ رام رحیم کی ہر سالگرہ پر ایک کروڑ کا چیک دینے سے ملیں یا لاشوں کے ڈھیر یا زخمیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے ملیں۔

پنجاب نیشنل بینک کی صرف ایک شاخ سے گیارہ ہزار پانچ سو کروڑ لے کر سوئزر لینڈ بھاگ جانے والے نیرو مودی ہوں یا امریکہ میں اپنی سسرال میں پناہ لینے والے اس کے بھائی اور سب کا پورا خاندان سی بی آئی کی ہتھکڑیوں کی آواز آنے سے پہلے ہی ایسے ہی بھگا دیئے گئے جیسے وجے مالیہ کو بڑے بڑے سوٹ کیسوں کے ساتھ لندن جانے دیا تھا اور اب اتنا ہی شور مچایا جارہا ہے جتنا وجے مالیہ کے جانے پر مچایا تھا کہ کسی کو بخشا نہیں جائے گا بینکوں کا ایک ایک پیسہ حلق میں ہاتھ ڈال کر نکال لیا جائے گا اور سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ یہی ٹیپ اب بجایا جارہا ہے کہ نیرو مودی کے تمام ٹھکانوں دہلی سورت اور ممبئی میں چھاپے مارے جارے ہیں اور ہیرے جواہرات اور سونا ضبط کیا گیا ہے ۔ نیرو مودی کے بارے میں یہ بھی شبہ ہے کہ وہ حوالہ کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ ٹیم ان سے متعلق کاغذات کو بھی تلاش کررہی ہے ۔

وزیراعظم اروناچل اور تریپورہ جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں الیکشن کو ہوا دے رہے ہیں اور تریپورہ جیسی تقریباً سو فیصدی تعلیم یافتہ ریاست کے تعلیم یافتہ ووٹروں کو لبھانے کیلئے اترپردیش کے آدتیہ ناتھ یوگی وزیراعلیٰ کو بھیج رہے ہیں جو بتارہے ہیں کہ اگر بی جے پی ی حکومت بنی تو وہ بھی اترپردیش کی طرح مالامال ہوجائے گی۔ وزیراعظم نے نیرو مودی اور اس کے خاندان کے ہاتھوں جو عوام کا خزانہ برباد ہوتے دیکھا ہے اس کے جواب کے لئے وزیر قانون کو بٹھا دیا ہے جن کا کوئی تعلق نہ بینک سے ہے اور نہ ہیرے اور جواہرات کی تجارت سے۔ وہ صرف کانگریس کے ہر حملہ کا جواب دینے کے لئے بٹھائے گئے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ یہ گھوٹالہ بھی کانگریس کے دَور کا ہے ہم نے تو پکڑا ہے۔

وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے صدر امت شاہ بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ہماری حکومت میں کوئی گھوٹالہ نہیں ہوا۔ امت شاہ اپنے بیٹے کا جواب تو آج تک دے نہ سکے اب وہ ایک مودی کا کیا جواب دیں گے۔

وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بڑی ناگواری کے ساتھ کانگریس کے ترجمان کو ٹوکا ہے کہ وہ نیرو مودی کو چھوٹا مودی کیوں کہہ رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ ایسے کروڑوں لوگ ہوں گے جن کا سرنیم مودی ہوگا۔ وزیر قانون کی یہ بات صحیح نہیں ہے پرساد تو ملک میں بیشک کروڑوں ہوں گے یہ بات وزیر قانون بھی تسلیم کریں گے لیکن مودی بہت ہوئے تو ہزاروں ہوں گے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم پرساد سرنیم والے تو نہ جانے زندگی میں کتنے آدمیوں سے مل چکے ہیں لیکن مودی نام کے اگر یاد کریں تو پانچ سے زیادہ نہیں ہیں اور خود روی شنکر پرساد اپنے حلقہ کو یاد کریں تو ان کو بھی یاد آئے گا۔

اور یہی وجہ ہے کہ آج جو مودی ہے وہ کہے نہ کہے اسے وزیراعظم کا قریبی سمجھا جاتا ہے اور کوئی سرکاری افسر یا بینک کا افسر ایسا نہیں ہے جو مودی نام سن کر ادب سے پیش نہ آئے صرف اس لئے کہ کیا خبر یہ وزیراعظم کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا ہو۔ اور جب پنجاب نیشنل بینک کے ڈائرکٹر نے سی بی آئی کے افسروں کو بتایا کہ نیرو مودی ملک سے باہر بھاگ سکتا ہے تو سی بی آئی نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا دیا کہ وہ مودی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔