بابری مسجد اور مولانا سید سلمان ندوی

جلیل الرحمن ندوی

  بابری مسجد سے متعلق مولانا سید سلمان ندوی کی نئی تجاویز اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے سلسلے میں ان کے تازہ موقف سے راقم حیران وپریشان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا موصوف سے میرا تعلق دارالعلوم ندوۃ العلماء کے زمانۂ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا سید اسحاق حسینی مرحوم ندوہ میں میرے ہم جماعت تھے اور طلبائے ندوہ کی انجمن جمیعۃ الاصلاح کے پروگراموں میں ہم لوگ جونیر طلبہ کی حیثیت سے اور مولانا سلمان صاحب سینئر طالب علم کی حیثیت سے ایک ساتھ مشقی تحریر وتقریر پیش کیا کرتے تھے۔اس کے بعد جب میرے دو بچے دار العلوم ندوۃ العلماء میں اور ایک بچی جامعۃ المؤمنات دوبگہ لکھنؤ میں زیرِ تعلیم تھے تو لکھنؤ آمد کے موقع پر میرا رات میں قیام ہمیشہ خاتون منزل امین آباد میں مولانا اسحاق حسینی کے مکان پر ہوتا تھا، اور وہیں مولانا موصوف سے بھی ملاقات رہتی تھی۔ اور مولانا کے علم کے ساتھ ساتھ ان کی عملی فعالیت اور سرگرمیاں بھی مجھے کافی متاثر کرتی تھیں۔ ان وجوہ سے اِس وقت مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مولانا کے انقلابِ قلب وطبیعت سے مجھے سب سے زیادہ استعجاب وحیرانی ہے۔ پہلے خیال آیا کہ مولانا سے خود ملاقات کروں۔ لیکن پھر سوچا کہ مولانا کا موجودہ موقف بڑی وضاحت کے ساتھ میڈیا اور اخبارات میں آچکا ہے اور مولانا اس پر قائم اور مصر بھی ہیں۔ تو ملاقات میں اس کے علاوہ کچھ نہ ہوگا کہ مولانا اپنی زبان دانی اور تقریر سے مجھے خاموش کر دیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کی تجاویزپر اپنی رائے تحریری طور پر پیش کروں تاکہ اُن کے ساتھ دیگر برادرانِ ملت بھی اِن سے واقف ہو سکیں۔

 دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، لیکن مولانا کی بابری مسجد سے متعلق تین جو تجاویز منظرِ عام پر آئی ہیں اور جن پر دلائل کے ساتھ مولانا کا اصرار بھی ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں :

  ۱-بابری مسجد کو منہدم کرنے والے مجرموں کو سزا دی جائے۔

 ۲-بابری مسجد کے نام [۷۰] ستّر بیگھہ ملکیت زمین کے عوض ایک سو چالیس بیگھہ یعنی دوگنی آراضی دوسری جگہ مسلمانوں کو دی جائے تاکہ وہاں ایک مسجد کے ساتھ ایک یونیورسٹی بھی قائم کی جاسکے۔

  ۳-آئندہ کے لیے اس بات کی تحریری ضمانت دی جائے کہ بابری مسجد کے علاوہ ہندوستان کی کسی دوسری مسجد یا مدرسے یا قبرستان،عیدگاہ اور خانقاہ پر کسی ہندو تنظیم کا کوئی دعویٰ نہیں ہوگا۔

          ان تجاویز کے لیے مولانا کچھ دلائل بھی پیش کر رہے ہیں جن کا ذکر ان تجاویز کے جائزے میں حسبِ موقع کر دیا جائے گا۔

  مولانا کی پہلی تجویز ہے کہ بابری مسجد منہدم کرنے والوں پر جو مجرمانہ مقدمہ ہے اس کا جلد فیصلہ کرکے ان کو سزا ملنی چاہیے۔ بہ ظاہر مولانا کی یہ تجویز یا شرط کافی پُر کشش اور منصفانہ نظر آتی ہے،لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ رضامندی کے ساتھ بابری مسجد کو طشتری میں رکھ کر مسجد کو منہدم کرنے والے مجرمین کے آقائوں کے حوالے کر دیں گے تو ان کی سزا سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ ان کی سزا سے تو آپ کو فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے دعوے سے کسی صورت میں بھی دست بردار نہ ہوں ا ور بابری مسجد دوبارہ اپنی اصلی جگہ پر تعمیر ہو۔ اور اس کے مجرموں کو ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں کہ دوبارہ کسی مجرم کو بابری مسجد پر بری نظر ڈالنے کا خیال بھی پیدا نہ ہو۔

 مولانا کی دوسری تجویز کہ بابری مسجد کی ملکیت موجودہ آراضی کی دوگنا آراضی اجودھیا میں کسی دوسرے مقام پر دی جائے تاکہ مسلمان وہاں ایک عالیشان مسجد کے ساتھ ایک یونیورسٹی بھی قائم کر سکیں، اس تجویز کی حمایت میں مولانا فقہِ حنبلی سے استدلال کرتے ہیں کہ ناگزیر حالات میں یا فلاحِ عام کے امور میں جیسے شارعِ عام کی توسیع کے لیے، مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مولانا محترم جانتے ہیں کہ راقم السطور کا تعلق تحریکِ اسلامی ہند سے ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام تحریکاتِ اسلامیہ (اگر وہ حقیقی اسلامی تحریک ہیں ) کسی ایک امام کی تقلیدِ جامد یا شدت پسندی کے بجائے امت کے ہر فرد کے ذہن میں توسع اور اعتدال پسندی کی دعوت دیتی ہیں جس کے مطابق حالات کے تحت دیگر مسالک سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مولانا کو شاید گمان ہے کہ وہ کوئی دور کی نئی کوڑی لائے ہیں۔ جب کہ مخالف گروہ بدستور دیگر اسلامی ممالک کا حوالہ دے رہا ہے کہ وہاں سڑکوں کی توسیع وتعمیر کے لیے مساجد کو آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر مولانا سے سوال کیا جائے کہ فقہِ حنبلی یا کسی بھی اسلامی فقہ میں فلاحِ عوام یا فلاحِ انسانیت کے ناگزیر امور کے لیے اگر مسجد کی جگہ تبدیل کرنے کی اجازت ہے تو کیا مسجد کی جگہ بت خانہ اور مرکزِ توحید کی جگہ مرکزِ شرک واصنام پرستی بنانے کے لیے بھی کوئی گنجائش ہے؟یہ ایک ایسی واضح اور مبرہن بات ہے کہ اسلام کا ادنیٰ طالب علم بھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس پر مولانا دلیل دیتے ہیں کہ اس قضیے میں ہزاروں مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ لہٰذا آئندہ خون خرابہ بند کرنے کے لیے اور ملک میں امن وامان قائم کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

مولانا کی اس دلیل پر میں ایک مثال دے کر اپنی بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ ایک مسلمان مزدور روزانہ صبح سے شام تک محنت مزدوری کرکے دو سو یا تین سو روپیہ شام کو کما کر اپنے گھر لاتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔ اب کسی دن راستے میں کوئی ڈاکو زبردستی اس کی گاڑھے پسینے کی کمائی چھین کر لے جاتا ہے تو وہ مزدور اللہ کے نزدیک بھی مظلوم اور بے قصور ہے اور اس کے پورے معاشرے کی ہمدردیاں بھی اس کے ساتھ ہوں گی۔ اور بہت سے لوگ اس کی مدد کے لیے آگے بڑھیں گے۔ لیکن اگر وہی مزدور اپنی دن بھر کی آمدنی کو اپنی رغبت اور رضامندی سے گھر پہنچنے سے پہلے ہی جوئے اور سٹے میں لگا کر کسی جواری یا کسی طوائف کے حوالے کر دیتا ہے تو ایسا شخص سب سے پہلے اللہ کا ملعون اور مجرم ہوگا، اور معاشرے کا بھی ہر فرد اس سے نفرت کرے گا اور لوگ اس کی مدد کرنے کے بجائے اس پر لعن طعن کریں گے۔

اس مثال سے (جو کہ معاشرے میں پائی جاتی ہے) آپ کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آجانی چاہیے کہ ابھی تک بابری مسجد کا انہدام اور اس کی جگہ عارضی رام مندر کا قیام صرف لاقانونیت،جنگل راج اور غنڈہ گردی کی بنیاد پر ہوا ہے۔ کسی ایک مسلمان کی بھی اس میں رضامندی شامل نہیں ہے۔ اور مستقبل میں بھی اگر کوئی کام صرف افرادی قوت اور غنڈہ گردی کے بل بوتے پر ہوگا تو مسلمان عند اللہ اس کے مکلف اور معتوب نہیں ہوں گے بہ شرطیکہ وہ عدالت میں پر زور طریقے سے اپنا مقدمہ جاری رکھیں، اور پوری دنیا کی انصاف پسند حکومتیں اور عوام بھی ان کے ہم درد ہونگے۔ لیکن اگر کوئی ایک مسلمان بھی اللہ کے لیے سجود کی جگہ (یعنی عملاً آباد مسجد) کو اپنی رضامندی اور سودے بازی سے شرک کی نجاست اور اصنام پرستی کے معبد کے طور پر دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے تو وہ اللہ کی لعنت اور عتاب کا مستحق بنے گا۔ اور دنیا میں بھی کسی دیگر قوم یا فرد کی ہمدردیاں اس کو حاصل نہ ہوں گی۔

  مولانا موصوف کی تیسری تجویز کہ اس بات کی تحریری ضمانت دی جائے کہ آئندہ کبھی مستقبل میں بابری مسجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد یا کسی بھی نوعیت کے اسلامی مرکز پر کسی ہندو تنظیم کا کوئی دعویٰ قابلِ قبول نہ ہوگا۔مولانا کی دوسری تجویز یا شرط کے جائزے میں اس کا جواب آچکا ہے۔ یعنی جب فریقِ ثانی کے سامنے آپ اس چیز کا جواز اور مثال پیش کر دیں گے کہ پہلے کسی دعویٰ بلا دلیل کو آستھا(عقیدت) کا مسئلہ بنا کر ہندو عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کیا جائے،پھر غنڈہ گردی اور افرادی قوت کے زور پر ڈرانے دھمکانے کے بعد مسلمانوں کو کسی سودے بازی کے ذریعے اپنے موقف اور حق سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے تو آئندہ ان کے اس طرح کے تمام دعووں اور مذکورہ فارمولے پر عمل کو روکنا کیسے ممکن ہوگا؟پھر برادرانِ وطن کا وہ متعصب گروہ جو دھرم کے نام پر ملک کے قانون کی دھجیاں بکھیرنے اور سماج میں نفرت پھیلانے سے نہیں ہچکا،وہ کاغذ پر لکھے ایک معاہدے کا پاس ولحاظ کرے گا،اس کی کیا گارنٹی ہے؟

 آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس بات کا بھی تو امکان ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف اور فریقِ ثانی کے حق میں آئے،تو ایسی صورت میں مسلم پرسنل لا بورڈ یا مسلمان کیا کریں گے؟ حالانکہ ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایسا ممکن ہوا تب بھی مسلمان عنداللہ معتوب اور گناہ گار نہیں ہوں گے بہ شرطیکہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل در اپیل اور مقدمے کے عمل سے پیچھے نہ ہٹیں۔ مولانا موصوف کو شاید معلوم ہوگا کہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ یاد رکھیے! بابری مسجد ایک ایسی سرحد ہے کہ اگر یہ محفوظ نہ رہی تو ہندوستان کی دیگر مساجد اور اسلامی مراکز بھی محفوظ نہ رہیں گے۔

  جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا،دلوں اور نیتوں کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کو فکرِ صحیح، قلبِ صالح اور حسنِ عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ ملک میں امن وسلامتی کے نام پر برادرانِ وطن کو شرک میں تعاون اور حوصلہ افزائی کے بجائے اسلام کی دعوتِ توحید اور دنیا وآخرت دونوں جہانوں کی کامیابی، اور امن وسلامتی کا پیغام پہنچائیں جس سے ان کو بھی ابدی فلاح ونجات اور سلامتی حاصل ہوگی اور ہم بھی اپنے فریضۂ دعوت کی ادائیگی میں کوتاہی کے جرم سے محفوظ رہیں گے۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    دنیا کی بہت ساری تخلیقات میں سے بہترین تخلیق انسان کی ہے ۔ انسان کھربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہے ، بہت سارے لوگوں میں بہت اچھی اچھی خصوصیات ہوتی ہیں ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت نظرانداز کرنے کی ہے ۔غلطیوں کو نظر انداز کرنا ، کسی کے ظلم کو نظرانداز کرنا ، کسی کے رویہ اور لہجہ کی کرختگی کو نظرانداز کرنا اور اس جیسے دوسرے عوامل کونظر انداز کرنا عموماً مثبت پہلو سمجھے جاتے ہیں ۔۔ لیکن اگر خود کے منفی معاملات ، برے خیالات ، بغض ، کینہ ، حسد ، مثبت تنقید اور منافقت جیسے معاملات کو نظرانداز اس طرح کرنا کہ دوسروں کو علم نہ ہو جبکہ خود شناسی ہونے کے باوجود کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا فنکاری ہے ، اور ہمارے معاشرے میں ایسے فنکار کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔۔

تبصرے بند ہیں۔