دھاراوی سِلَمس

 وقاص چودھری

یہ تقریباً  بارہ لاکھ نفوس پر مشتمل  جھگی بستی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا کی شہری آبادی کا ایک چوتھائی حصہ جھگیوں میں رہتا ہے۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کی عجیب و غریب جھگی_بستی ہے۔

 دھاراوی جھگی بستی کی جو کہ ممبئی کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ ممبئی انڈیا کا اکنامک سینٹر ہے٬ لیکن اس میٹرو سٹی کی پچپن فیصد عوام  شہر کی چھ فیصد زمین پر زندگی کی گاڑی کیسے گھسیٹتی ہے ؟ امیری اور غریبی کا فرق کیا ہوتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
(ممبئی کی کل ابادی کا پچپن فیصد حصہ جھگیوں میں رہتا ہے جبکہ دھاراوی کل آبادی کا ساڑھے چھے فیصد حصہ ہے)

یہاں کی آبادی کی کثافت، دس لاکھ سے لے کر بارہ لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں۔ لیکن یہ لوگ محض دو اعشاریہ ایک کلومیٹر کے رقبے پر آباد ہیں۔ یہاں آبادی کی کثافت دو لاکھ ستر ہزار نفوس فی سکوائر کلومیٹر ہے۔ یعنی یہاں آباد ہر شخص کو قریب 1 سکوائر میٹر   کا رقبہ دستیاب ہے۔ ایک ڈبل بیڈ 2.4 سوائر میٹر کا ہوتا ہے۔

یہاں کے لوگوں کی صبح شروع ہوتی ہے سرکاری نل سے پانی کے حصول کے لئے لائن میں لگنے کے ساتھ، چونکہ یہ بستی غیر قانونی طور پر آباد ہے اس لئے یہاں پانی، سیوریج وغیرہ کا تصور محال ہے۔

دس لاکھ کی آبادی کے لئے محض ڈیڑھ سو ٹوائلٹ دستیاب ہیں۔ جس سے آپ یہاں پر موجود صفائی کی صورتحال کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ محض چوبیس فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ مرے پر سو درے کے مصداق ممبئی شہر کا اسی فیصد ریسائکلیبل کچرا یہاں پھینکا جاتا ہے۔

ہزاروں مائکرو فیکٹریاں جھگیوں میں قائم ہیں جن کی وجہ سے فضائی آلودگی مقرر کردہ محفوظ حد سے تین گیا زیادہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود لوگ یہاں رہتے ہیں، کیوں رہتے ہیں؟  کیونکہ یہاں رہائش سستی ہے بلکہ یوں سمجھ لیں مفت ہے۔ ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو روپیہ فی کھولی۔

کھولی ایک 3.5m2 پر مشتمل کمرہ نما فلیٹ کو کہتے ہیں  جس میں ایک کمرہ اور کچن کا ایریا شامل ہوتا ہے۔ ایک کھولی میں پانچ سے لے کر آٹھ لوگ رہتے ہیں, نئے جوڑے کو پرائویسی دینے کی غرض سے چند ابتدائی ماہ کچن میں سلاتے ہیں۔ اس کے سوا انہیں کسی قسم کی پرائیویسی دستیاب نہیں ہوتی۔

ان تمام حالات کو سن کر آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ دھاراوی ایک غربت اور غلاظت کا ایسا جوہڑ ہے جہاں محض غریب لوگ چھت حاصل کرنے کی کوششوں میں آتے ہیں اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں یہاں سے نکل جاتے ہیں۔ جی نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، نہ تو یہاں رہنے والے سب لوگ غریب ہیں نہ ہی سب لوگ محض سر چھپانے کی خاطر یہاں رہتے ہیں۔

یہ اس حیرت انگیز جگہ کا محض ایک رخ ہے، اس کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ محیر العقول ہے۔

جب اتنے سارے لوگ ایک تنگ سی جگہ پر رہتے ہیں، اتنی تنگ جگہ پر کہ بعض اوقات ایک کے خواب دوسرا دیکھ رہا ہوتا تو لا محالہ ان کے لائف سٹائل میں کئی ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو عام حالات میں ناممکن ہیں۔ ہمارا ہندوستان کے متعلق عام نظریہ یہ ہے کہ ہندو، مسلمان، عیسائی اور سکھ وغیرہ اپنی الگ کمیونٹیز بنا کر رہتے ہیں اور ان کا آپسی تعلق اتنا اچھا نہیں ہے۔ شائد کچھ علاقوں میں یہ بات حقیقت ہو لیکن دھاراوی ایک الگ کہانی ہے۔

یہاں آپ کو ایک کٹر ہندو ، اس سے بھی زیادہ کٹر مسلمان کے ساتھ ایک ہی کھولی شئیر کرتا نظر آئے گا۔ ایک عیسائی آپ کو اپنے ہندو یا مسلمان پڑوسی کے لئے پانی کی لائن میں لگا بھی نظر آئے گا۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہر خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ عید آتی ہے تو سب مناتے ہیں، ہولی آتی ہے تو ہر کوئی رنگین ہو جاتا۔ الغرض جتنے بھی تہوار ہیں، دھاراوی کے مکین انہیں مل کر مناتے ہیں۔

دھاراوی میں اسی کے قریب الگ قوموں سے تعلق رکھنے والے اور تیس مختلف زبانیں بولنے والے ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں جو کہ بذات خود ایک اچھی مثال ہے باقی دنیا اور خاص طور پر بر صغیر میں رہنے والوں کے لئے۔ یہاں کا سب سے معروف طریقہ تعمیر چاول ہے، چاول ایسی عمارت کو کہتے جس کے ایک قطار سے کمرے بنے ہوتے اور ان کمروں کے سامنے بالکونیاں۔
جب چاول کے مکین اپنے دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہوتے ہیں تو ان بالکونیوں میں تقریبا وہی سماں ہوتا ہے جو یہاں گروپ میں شام چھ بجے کے بعد ہوتا۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ ورچوئل نہیں بلکہ حقیقی کمیونٹی ہے۔ اور بہت سے لوگوں کی دھاراوی میں رہنے کی ایک بڑی وجہ اس باہم شیر و شکر کمیونٹی میں رہنا بھی ہے۔

شائد اتنی تحریر پڑھنے کے بعد آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دھاراوی محض ایک رہاشی جھگی بستی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے۔ دھاراوی کو  شہر کے اندر شہر کہا جاتا ہے، یہاں چھگیوں کے اندر سکول، ہسپتال سب کچھ موجود ہے۔ کچھ حکومت کی جانب سے تو کچھ پرائیویٹ۔ لیکن ان سب سے زیادہ ہیں مائکرو بزنس۔ جی ہاں اتنے سارے لوگوں کی رہائش کے علاوہ دھاراوی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ یہاں کم و بیش بیس ہزار چھوٹی فیکٹریاں موجود ہیں۔ یہاں دوکاوبار سب سے زیادہ معروف ہیں، پہلا ہے ری سائکلنگ کا کاروبار کیوںکہ یہاں ممبئی شہر کا اسی فیصد کچرا پھینکا جاتا ہے۔ لیکن دھاراوی کے مکینوں کے لئے یہ کچرا بھی رزق کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ کچرے میں سے پلاسٹک ، دھاتیں،گتا وغیرہ الگ الگ کرتے ہیں ، انہیں ری سائکل کر کے فروخت کرتے ہیں۔

دوسرا بڑا کاروبار ہے ایمرائڈری کا, یہاں ہزاروں کڑھائی کے مرکز موجود ہیں جہاں سے تیار شدہ مال انڈیا میں اور انڈیا کے باہر بھی فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ  چمڑے سے بنی مصنوعات، مٹی کے برتن، پلاسٹک سے بنی مصنوعات اور فرنیچر وغیرہ کے فیکٹریاں بھی موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ منی اور مائکرو فیکٹریز سالانہ ایک "بلین ڈالر” کا کاروبار کر رہی ہیں، یہ اس علاقے میں لوگوں کے رہنے کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ یہ کاروبار چلانے والے زیادہ تر مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس لوگ ہیں لیکن دھاراوی کے ان مکینوں کے لئے زندگی آسان نہیں ہے جو خط غربت سے نیچے جی رہے ہیں۔ فیملی کا ہر شخص چھ سات سالہ بچوں سمیت دن میں بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرتا ہے تب جا کر ان کی زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔

بالی ووڈ کا رول دھاراوی کے لئے انتہائی غیر منصفانہ اور منفی رہا ہے دھاراوی یا اس جیسی دوسری جھگی بستیوں کو غنڈہ گردی، قتل و غارت اور منشیات کا گڑھ دکھایا جاتا رہا ہے۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ان جگہوں پر مسلمان زیادہ آباد ہیں۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حالات کی چکی میں پستے ان لوگوں کے پاس سوائے انتھک محنت کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے زرق حاصل کرنے کا۔ ایک ایسا ورکر جو دن کے چودہ گھنٹے مزدوری کرتا ہے، وہ نا تو متشیات استعمال کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے نا ہی غنڈہ گردی کے لئے وقت نکال سکتا ہے۔

البتہ مشہور آسکر ایوارڈ یافتہ فلم Slum Dog millionaire  جس کا کچھ حصہ دھاراوی میں ہی شوٹ ہوا تھا، اس جگہ اور ان لوگوں کی زندگی کو قریب سے دکھانے میں کامیاب رہی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔