توہم

آبیناز جان علی

شمع کی دادی کہا کرتی تھی کہ ایک اچھا شوہر ایک لڑکی کی زندگی گلزار بنا سکتا ہے اور ایک خراب شوہر اس کی زندگی دوزخ سے بھی بدتر بنا سکتا ہے۔  اس لئے وہ شمع کو اپنے شوہر کے انتخاب کے لئے اچھی طرح سوچ سمجھ کر اور پوری چھان بین کے بعد شادی کرنے کی حدایت دیتی تھی۔ دادی کو وفات پائے زمانہ ہو گیا لیکن ان کے اقوالِ زرین شمع کے ذہن میں گونجتے رہتے۔

آج بھی شمع دادی کو یاد کر رہی تھی۔ دادی کے سفید بال، جھکی ہوئی کمر، ان کی گول موٹی شیشے والی عینک، مصنوعی دانت اور سفید لہنگا۔  دادی کس نفاست سے اس کے بال گونڈھتی تھی۔  وہ آم کا پیڑ جس کی شاخ پر ابو نے لوہے کی زنجیروں سے شمع کے لئے جھولا باندھا تھا۔  اس کو جھولاجھلاتے ہوئے دادی اس کو دنیا داری کی سیکھ دیتی ۔  یا پھر راجا اور رانی کی کہانی سناتی۔  راجا اپنی رانی کو اتنا پیار کرتا کہ اسے محل میں لے جاتا اور تا حیات وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گذارتے اور اس کے بہت سارے شہزادے اور شہزادیاں ہوتیں ۔

شمع کا بچپن ماں باپ اور دادی کی سرپرستی اور شفقت کے بسبب جبت نما تھا۔

’’لیکن دادی کسی کا چہرہ دیکھ کر یہ کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ اس کے دل میں کتنا بڑا شیطان بسا ہے؟‘‘ شمع نمناک آنکھوں سے آسمان کی جانب دادی کی روح سے ہمکلام ہوئی۔

  شمع سے پرویز کی شادی پوری چھان بین اور سوچ سمجھ کے بعد ہی کی گئی تھی۔  پرویز پڑھا لکھا، اچھے خاندان کا خوش اخلاق لڑکا تھا۔  سماج میں اس کی عزت ؤتھی۔  اس کی اچھی سرکاری نوکری تھی۔  اچھی آمدنی تھی۔  پرویز کا خود کا گھر بھی تھا۔  شمع کے والدیں اس رشتے سے مطمئن تھے۔  انہوں نے بڑی دھوم دھام سے اپنی نیک دختر کی شادی کی۔  شمع بھی اپنے شوہر کو پیار کرتی اور ہر طرح سے اسے قابلِ اعتبار پایا۔  شمع نے پوری تقویت سے ازدواجی زندگی کے تقاضوں کو سراہا۔  اس نے اپنے نئے گھر کو سجانے میں اپنے سارے پیسے لگا دئے۔  لیکن شمع کو کوئی عذر نہیں تھا۔  وہ ایک منیجر تھی اور اسے کوئی مالی پریشانی نہیں تھی۔  اس کا گھر اور اس کا شوہر اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھے۔  وہ پرویز کے لئے لذیذ اور مزیدار کھانا تیارکرتی۔  خریداری کرتے وقت پرویز کے لئے قیمتی قمیض، جوتے اور خوشبوخریدتی۔  پرویز اس کی زندگی تھی اور اس کے لئے بہتریں چیز کا انتخاب کرنے میں شمع انتہائی خوشی محسوس کرتی۔

 پرویز اور شمع کی زندگی خوشیوں سے معطر تھی۔  صرف ایک بچے کی کمی تھی۔  پرویز کو بچوں سے بہت لگائو تھا اور وہ اپنا بچہ پانی کے لئے مشتاق تھا۔  دو سال تک مسلسل کوشش اور ڈاکٹروں سے معائنہ کرانے کے باوجود بھی شمع کی گود سونی رہی۔  ڈاکٹروں کی جانچ کے مطابق سب ٹھیک تھا۔  کئی ڈاکٹروں نے یہی تشخیص کی کہ وقت کے ساتھ ساتھ شمع ماں بن جائے گی۔  لیکن حیف! ایسا نہیں ہوا۔

پرویز مایوس ہو گیا۔  وہ اپنے خاندان کو ایک بچے کے بغیر نامکمل خیال کرتا۔  اس کے گھر کی خاموشی اس کو کاٹ کھانے کو دوڑتی۔  وہ اس گھر میں بچوں کی کلکاریاں ، اس کے کھیلنے کودنے کی آواز اور ہنگامہ سننا چاہتا تھا۔  اپنے دوستوں اور ہم کار کو اپنے بچوں بارے میں بات کرتے

سن کر پرویز اور بھی افسردہ ہو جاتا۔  دوسروں کے  بچوں کے ساتھ کھیل کر وہ پرمسرت ہوتااور اسے اپنی کممائگی کا شدید سے احساس ہوتا۔

اسے بچے کے بغیر زندگی میں کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا۔  اس کمی نے اس کے اندر جنون پیدا کر دیا۔

  انہی دنوں پرویز نے عرفان سے گہری دوستی گانٹھ لی۔  عرفان اس کے دفتر میں کام کرتا۔  پرویز اپنے دل کی تکلیف کو عرفان سے بیان کرتا۔  عرفان اس کے دکھ کو سمجھتا اور اسے حوصلہ نہ ہارنے کی صلاح دیتا۔  پرویز کی ذہنی پریشانی کو دور کرنے کے لئے عرفان اس کو گھمانے لے جاتا ارو پرویز خود کو ہلکا محسوس کرتا۔  وہ سرفان پر بھروسہ کرنے لگا اور اسے اپنی تمام ذاتی باتیں بتاتا۔

ایک روز پرویز عرفان کے گھر آیا۔  شمع نے میزبانی کا شرف بخوبی نبھایا۔  عرفان شمع سے بہت متاثر ہوا اور اسے دیکھتارہ گیا۔اگلی راز عرفان نے پرویز سے کہا: ’’ پرویز تمہیں معلوم ہے میں  نے مداغاشکر سے تعلیم حاصل کی۔  میں وہاں کئی سال رہا۔  میں نے وہاں کالا جادو کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔  میں انسان کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ اس پر کالا سایہ ہے۔ تمہاری بیوی پر ایک جن کا سایہ ہے۔  وہ جہاں رہتی ہے وہ جن اس کے ساتھ رہتا ہے۔  اسی جن کی وجہ سے وہ ماں نہیں بن پارہی ہے۔  وہ جن تمہاری بیوی کو اپنے قابو میں کر چکا ہے اور تمہیں راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔‘‘

 پرویز ڈنگ رہ گیا۔ ’’ سچ کہہ رہے ہو۔  تبھی تو اتنی کوششوں اور علاج کے باوجود ہم بچے کی خوشی سے محروم ہیں ۔  تو اب کیا کیا جائے؟‘‘

’’فکر مت کرو۔ میں نے اس جن کو دیکھ لیا ہے۔  مطلب یہ کہ میں اس پر قابو پا سکتا ہوں ۔  یہ لو، میں نے تمہارے لئے تعویز تیار کی ہے۔  اس سے وہ جن دور ہو جائے تو اچھا ہوگا ورنا مجھے اور قربانیاں دینی ہونگیں ۔‘‘ عرفان نے پر اسرار لہجے میں کہا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ پرویز نے کہا۔

’’وقت آنے پر میں تمہین بتا دوں گا۔  اس تعویز کو اپنی بیوی کے تکیے میں ڈال دو۔  اور یہ گلاب کی چند پنکھڑیاں ہیں ۔  میں نے اس میں دم کر کے دعا کی ہے۔  اسے پانی میں ملا کر اپنی بیوی کو پلا دینا۔ اور اسے معلوم مو ہونے دیناورنہ وہ جن اسے اور پریشان کرے گا۔اگر یہ کام کر گیا تو بہت جلد تمہارے ہاتھوں میں تمھارا بچہ ہوگا۔‘‘ عرفان نے پرویز کو بھروسہ دلوایا۔

  بچے کا نام سنتے ہی پرویز دیوانہ وار خوش ہوگیا۔ اس نے عرفان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کیا۔  ایک مہینے تک فرحان اس کے لئے دعائیں کرتا رہا اور پرویز کے ساتھ اپنا سارا وقت گزارتا تاکہ وہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہو جائیں ۔  لیکن ایک مہینے کے بعد بھی شمع حاملہ نہیں ہوئی۔

’’تم قربانیوں کی بات کر رہے تھے عرفان؟‘‘ پرویز نے دریافت کیا۔

’’ہاں لیکن میں وہ کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ عرفان نے صاف صاف کہا۔

پرویزنے منت سماجت شروع کر دی۔  ’’ بچہ پانے کے لئے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں ۔‘‘

’’ اس دن نے بچے کے گھر میں قبضہ کر لیا ہے۔  اسی لئے بچہ نہیں ہو رہا۔ جنسی تعلقات سے اور منتروں سے اس جن کو بھگانا ہوگا۔‘‘  عرفان

نے اندھیرے میں تیر چھوڑا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہو تبھی تو بچہ نہیں ہو رہا۔ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔  مجھے تم پر پورا اعتماد ہے۔‘‘  پرویز نے عرفان کی ہاں میں ہاں ملائی۔

  اگلے دن شمع جب کام سے لوٹی تو پرویز نے اسے ٹھنڈی شربت پینے کودیا۔  اس نے خوشی خوشی وہ گلاس قبول کیا۔  شمع کی آنکھوں میں اظہارِ تشکر تھا اور وہ کہہ اٹھی: ’’میرے اچھے شوہر!‘‘ پرویز مسکرا اٹھا۔

  شمع کو معلوم نہیں تھا کہ اس گلاس میں نشے کی گالیاں ملائی گئی تھیں ۔  شربت پینے کے بعد پرویز اسے خوابگاہ میں لے گیا۔  پھر پرویز کمرے سے چلا گیا۔

 شمع کو کچھ دھندلی دھندلی سی باتیں یاد ہیں۔  کمرے میں عرفان تھا جو اس کے کپڑے اتار رہا تھا اور اس کی عزت لوٹ رہا تھا۔  شمع سب دیکھ رہی تھی لیکن نشے نے اسے معذور سا کر دیا تھا۔ وہی  نشہ جو اس نے پورے بھروسے سے اپنے شوہر کے ہاتھوں سے لیا تھا۔  وہ شوہر جس نے خدا کے سامنے اس کی ذمیداری لینے کا عہد لیا تھا۔وہ شوہر جس نے اس کے والدیں کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی بیٹی پر آنچ تک آنے نہیں دے گا۔

 نشے کا اثر جب اترا تو شمع بستر پر عریاں تھی۔  یہ اس کا اپنا کمرہ تھا۔  یہاں تو اسے حفاظت سے رہنا چاہئے تھا۔  یہہں پر اس کی عزت تار تار ہوئی۔  شمع تکلیف میں تھی۔  نشیلی دوا نے اس کے سر میں شدید درد پیدا کیا۔  اس کے بدن پر جگہ جگہ جمے ہوئے خون کے نشان تھے۔  جسمانی اذیت کا تو خیر علاج ہو سکتا ہے لیکن روحانی اور ذہنی تکلیف کیسے دور ہوگی۔

پروییز کے دھوکے اور اس کے فریب کوشمع کس کے سامنے بیان کرتی اور کن الفاظ میں بیان کرتی۔  ایسی کون سی عدالت تھی جو اس کے ساتھ انصاف کر پاتا۔شمع کو ڈر تھا کہ جو ایک بار ہوا کہیں بار بار نہ ہو اور جب  اپنے ہی بھیڑیہ کی کھال پہن لیتے ہیں تو کون محافظ ہوگا؟ لہٰذا شمع چپ چاپ پرویز کے گھر سے اور اس کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل آئی۔

تبصرے بند ہیں۔