برہانپور کے مسلمانوں پر قانون کا ظلم

ممتازمیر

ہم گذشتہ ۷ سالوں سے برہانپور میں مقیم ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ممتاز محل کا انتقال ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ تاج محل یہیں تاپتی کنارے بننے والا تھا۔ مگر دہلی سے دور ہونے کی بنا پر امرائے شاہجہاں کے مشورے سے آگرہ میں جمنا کنارے بنا۔ اس شہر کو دارالسرور بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ عبدالرحیم خانخاناں جب یہاں کا گورنر تھا تب وطن عزیز کا کوئی دوسرا شہراتنا اور اس طرح علم دوست نہ تھا۔ آج وہی شہر غربت اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ مسلم اکثیریتی شہر ہے مگر ان کی حالت اقلییتوں سے بدتر ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر نیا دن نئی مصیبت کے ساتھ طلوع ؂ہوتا ہے۔ یہ برہانپور کا ہی نہیں پورے مدھیہ پردیش کا المیہ ہے کہ یہاں مسلم لیڈر شپ نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ آس پڑوس کی ریاستوں کے مسلم لیڈروں کو ان کے Upliftmentکی طرف توجہ دینا چاہئے کہ یہاں کے مسلمان ملک کے دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں دلت ہیں۔ خاص طور پر ہم نے مہاراشٹر والوں کو مخاطب کیا تھا کہ یہاں سے قریب ترین وہی ہیں۔ یہاں نہ مسلمانوں کا ایم ایل اے ہے نہ ایم پی۔ یہاں کارپوریشن ہے مگر میئر اور صدر بھی غیر مسلم ہوتا ہے پہلے کورٹ، سول ہاسپٹل، نگر نگم سب کچھ مسلم علاقوں مین تھا۔ اب سب کچھ مسلم علاقوں سے نکال کر غیر مسلم علاقوں مین لے جایا جا چکا ہے۔ اور یہاں کی نام نہاد مسلم قیادت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہی۔ انھیں اس کا احساس تک نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ حالانکہ یہاں جماعت اسلامی بھی ہے اوروحدت اسلامی بھی،جمیعتہ العلماء بھی ہے مسلم لیگ بھی اور اب تو ایم آئی ایم بھی آ چکی ہے مگر کسی سے یہ عقلمندی سرزد نہیں ہوئی کہ وہ اویسی کو بلا لیتا۔ کیا کریں سب کے سب اسی آب وگل کے بنے ہوئے ہیں۔

گذشتہ ۷ سالوں مین قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیکڑوں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس کے خلاف دنیا بھر مین جگہ جگہ احتجاجات ہوئے ہیں مگر نہیں ہوئے تو مسلم اکثیریتی شہر برہانپور ’’دارالسرور‘‘ میں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے نام نہاد بڑے لیڈراحتجاج کیا جانا پسند نہین کرتے۔ خدا جانے ان کی انتظامیہ کے ساتھ کیا انڈر اسٹینڈنگ ہے؟ان کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہہ لیں کہ جموں میں ہونے والے آصفہ ریپ کیس نے سوئے ہوئے برہانپوریوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور انھوں نے اپنی نام نہاد قیادت کے اشارہء ابروکے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالنے کی ٹھان لی۔ ہمیں ملی اطلاعات کے مطابق پولس نے ایک ہی دن یعنی ۲۰۔ اپریل بروز جمعہ کم وبیش ایک ہی وقت میں تین ریلیاں نکالنے کی اجازت دی تھی۔ کیوں ؟شاید اس طرح پولس مسلمانوں کے احتجاج کی شدت کم کرکے دکھانا چاہتی تھی۔ مدھیہ پردیش مین گذشتہ ۱۵ سالوں سے بی جے پی حکومت ہے۔ اور پوری ریاست بھگوا رنگ میں رنگ چکی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ وطنی دہشت گردی کی تاریخ میں پہلی باربمبئی کے ATSچیف آنجہانی ہیمنت کر کرے نے جن ہندو دہشت گردوں کو پکڑا تھا ایک آدھ کو چھوڑ کر سب کے سب کا تعلق مدھیہ پردیش سے تھا۔ ظاہر ہے ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب انتظامیہ ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لے۔ ورنہ کسی ریاست میں دہشت گردوں کا پھلنا پھولنا خود اس ریاست کے لئے بھی لمحہء فکریہ ہونا چاہئے۔

یہاں ۱۵ سالوں سے شیو راج سنگھ چوہان بر سر اقتدار ہیں اور ریاست ملک کی پسماندہ ترین ریاستوں مین سے ایک ہے۔ لوگوں کو ملازمتیں میسر نہین انھیں معاش کے لئے ریاست سے باہر جانا پڑتا ہے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ تعلیم کا پورا نظام’’مہمان اداکار‘‘ کی طرح مہمان استادوں پر چل رہا ہے جنھیں ۱۰۰ روپئے روز  تنخوا دی جاتی ہے مگر پے نکالنے والا کلرک اس مین سے بھی کچھ نہ کچھ مار لییتاہے یہ شیو راج سنگھ سرکار کا ہی کمال ہے کہ اس نے تعمیراتی مزدورکی روزانہ مزدوری ۳۰۰ روپئے روز تک پہونچادی ہے اور اس مین کسی کرپٹ کلرک کا دخل نہیں۔ جس ریاست کا یہ حال ہو اس کا مستقبل معلوم۔ ہم جہاں رہتے ہین وہاں ۵ منٹ کی اوسط بارش مین فٹ دو فٹ پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ کارپوریشن ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں احمقوں نے برہانپور کی گلی گلی میں سمنٹ بچھا کر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے گرمیوں میں برہانپور میں درجہء حرارت سب سے اونچا رہتاہے اور پانی کے زمین میں نہ گھس پانے کی وجہ سے زمین میں پانی کی سطح دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس تعلق سے اخبارات مین باقاعدہ مضامین آچکے ہیں مگر کسی کی آنکھ نہیں کھلتی۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نام کی کسی چیز کا وجود نہیں۔ پرائیویٹ آپریٹرس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ بسیں انتہائی خستہ حال ہیں اور انسانوں کو جانوروں کی طرح بسوں مین بھرا جاتا ہے۔ بمبئی سے ناسک تک کا فاصلہ ۱۸۶ کلو میٹر کا ہے جسے وہاں کی پرائیویٹ بسیں ساڑھے ۳ گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔ برہانپور سے اندور کا فاصلہ ۱۸۰ کلو میٹر کا ہے جسے یہاں کی بسیں ساڑھے ۵ گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ خیر، چلئے مسلمانوں کے احتجاج کی شدت کم کرنے کے لئے آپ نے ایک ہی دن اور غالباً ایک ہی وقت میں ۲؍۳ ریلیوں کی اجازت دے دی۔ کوئی بات نہیں۔ مگر بھیڑ کو کنٹرول کرنے کی، لاء اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے کی ذمے داری کس کی تھی؟اگر یہ ذمے داری آرگنائزرس کی ہوتی ہے تو پھر پولس سے اجازت لینے کی ضرورت کیا ہے؟

ریلی نکلی امن شانتی سے گزرتی ہوئی ایس ڈی ایم کے آفس تک گئی۔ پوری ریلی کو گنتی کے چند کانسٹیبل کور کر رہے تھے۔ ایس ڈی ایم کو میمورنڈم دینے کے بعدشرکاء منتشر ہوگئے۔ بس اس کے کچھ دیر بعدخبریں آنے لگیں کے ریلی کے شرکاء نے واپس جاتے ہوئے چند جگہوں پر پتھراؤکیا ہے۔ یہ واقعہ کوئی بڑا واقعہ نہین ہے مگر سازش کے تحت اسے بڑا بنا دیا گیا ہے۔ ممکن ہے اس مین کچھ ان اپنوں کا بھی ہاتھ ہو جو ریلیوں کے خلاف تھے۔ خبریں یہ بھی کہتی ہیں کہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کارکنان پتھراؤ کے ساتھ ہی پولس اسٹیشن میں براجمان ہو گئے تھے۔ اور پولس کو ہدایت دے رہے تھے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ پولس نے CCTV Footage اورویڈیو گرافی کی بنیاد پر دو تین دن مین ۵۰؍۵۵ لوگوں کی گرفتاری کی اور کچھ کو فرار بتایا۔ ایک وکیل صاحب ایسے بھی گرفتار ہیں جن کا پتھراؤ سے کچھ لینا دینا نہیں مگر ریلی اجازت لینے والوں میں ان کا نام بھی شامل ہے۔ ٹھیک۔ یہاں تک تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم خود اس بات کے داعی ہیں کہ جس نے جو کیا ہے اسے اس کی سزا ملنی ہی چاہئے۔ چاہے وہ مسلمان ہو یا سنگھی۔ مگر کتنی؟گرفتار شدگان پر پولس نے جن دفعات کو عائد کیا ہے وہ یہ ہیں۔ 94/18,147 ,148,149,427&336 کسی کسی پر پولس نے153,153A &120B جیسی دفعات بھی لگائی ہیں ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا پتھر مار کر کسی دکان کا کانچ توڑنے سے یا کسی گاڑی کاونڈ اسکرین پھوڑنے سے آدمی دیش دروہی یا ملک کا باغی ہو جاتا ہے۔ اگر ہو جاتا ہے تو برہانپور پولس اعداد و شمار پیش کرے کہ اس نے آج تک کتنے پتھر مارنے والوں کو مسلمانوں اوردلتوں کے علاوہ ’’دیش کاباغی‘‘بنا کر مقدمہ چلا یاہے۔ دلتوں کا نمبر بھی اب لگنے لگا ہے کیونکہ یہ ہندتو وادی دلتوں سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی کہ مسلمانوں سے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ کہہ دیں گے کہ آج تک ایسا ہوا ہی نہیں۔

ہم کہیں گے پورے ملک میں کہیں تو ایسا ہوا ہوگا جس کو نظیر بنا کر پولس مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہے۔ ویسے ہمارے نزدیک تو پولس خود مجرم ہے جو ۲۰؍۲۲ کے مجمع کو چند نہتے پولس والوں سے کنٹرول کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ مگر کہتے ہیں کہ پولس نے جو بھی گرفتاریان کی ہیں وہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کہنے پر کی ہیں۔ برہانپور ایک مسلم اکثیریتی شہر ہے اور یہاں گنگا جمنی تہذیب کی بڑی پرانی اور طاقتور روایات موجود ہیں جسے ختم کرنے کے لئے سنگھی جان لڑائے ہوئے ہیں۔ ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ کانگریس اور سنگھ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس واقعے کے تعلق سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مین کانگریسیوں کا Lion’s Share ہے۔ بلکہ ان کے ایک گروپ نے تو پولس کے اعلیٰ افسران کو خط لکھ کر ’’بلوائیوں ‘‘ پر سخت کاروائی کی مانگ بھی کی تھی۔

سوال یہ ہے کہ پولس کو تو جو کرنا تھا کردیا۔ عدالتوں کاکیا؟جواب یہ ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران مسلمان نہیں سپریم کورٹ کے سینئرترین جج یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود بھی کیا حکومت نے اس کروکشیتر سے اپنے قدم واپس کھینچ لئے؟وہ پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے میدان میں ڈٹی ہوئی بھی ہے اور باقاعدہ ہتھیار بھی چلا رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے برہانپور مین اب مسلمان طرم خاں کبھی کسی احتجاج کا نام نہ لیں گے۔ (اور یہی پولس اور مسلمانوں کے بڑے لیڈر چاہتے ہیں )بالکل اسی طرح جج بھی انسان ہیں۔ حکومت کا یہ رخ دیکھنے کے بعد کون حکومت کے خلاف جانے کی ہمت کرے گا۔ جب کہ لویا کی مثال سامنے ہے۔ ہم تو بار بار یہ کہتے ہیں اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے لئے قربانی دے کوئی ان کے لئے دنیا سے ٹکرا جائے کوئی ان کے لئے اپنا جان و مال عزت آبرو طاق پر رکھ دے تو وہ خود بھی تو ان صفات سے متصف ہوں۔ ۔ مگر کچھ بھی ہو ہمیں اپنے وطن سے بہت بہت محبت ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے منصفین تو وہ ہوں جن کی وجہ سے ہمارے انصاف کے مندروں کی دنیا بھر میں ساکھ قائم ہوَپتھر مار کر کانچ پھوڑنے والوں کودو ماہ تک جیل میں رکھ کر ہر جگہ ان کی ضمانتیں مسترد کرکے تو دنیا ہمارے نظام انصاف پر ہنسے گی۔ ۔ ۔ ۔ کاش کسی کو احساس ہو کہ ہمارے دل کی کیا حالت ہے۔ اس واقعے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ یہ کانگریس کے دو گروپوں کی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چپقلش نہیں ڈرامہ ہے۔ کانگریس آزادی کے بعد سے نہیں پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ ڈرامے کرتی آرہی ہے۔ مگر مسلمان چونکہ مومن نہیں اسلئے دوبارہ کیا سیکڑوں بار ڈسے جا چکے ہیں۔

جو بھی ہو اب سب نے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا سمجھ لیا ہے اور حسب ضرورت ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس واقعے سے سب سے زیادہ نقصان شیو راج سنگھ سرکار کو پہونچا ہے۔ بشرط یہ کہ آئندہ چند ماہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات مین وہ خود کو چوتھی بار بطور وزیر اعلیٰ پیش کرتے ہیں۔ اگر یہ نہ بھی ہو تو برہانپور کی ایم ایل اے اور وزیر محترمہ ارچنا چٹنس کو تو یقیناًنقصان پہونچے گا۔ انھوں نے گذشتہ انتخاب جیتنے کے بعدایک جلسے میں زور دے کر یہ بات کہی تھی، جو سچ بھی تھی کہ مجھے ہر سماج کے ووٹ ملے ہیں۔ تازہ واقعے کے سب سے بڑا اثر یہ ہواکہ مسلمان ان سے سخت ناراض ہیں۔ مصیبت کے وقت وہ عوام کی نہیں بجرنگ دل کی ایم ایل اے بن گئی تھیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔