عید آئی بھی اور گزر بھی گئی

احمد علی برقیؔ اعظمی

جس کا تھا مُنتظر خبر بھی گئی
عید آئی بھی اور گذر بھی گئی

کرکے آیا نہ وعدۂ فردا
حسرتِ دید تھی جو مَر بھی گئی

وہ نظر تھی طلسمِ ہوش رُبا
حشر برپا تھا اک جدھر بھی گئی

کرکے دنیائے دل کو زیر و زَبَر
جانے کب اس میں وہ اُتَر بھی گئی

نگہہِ ناز اُس کی دل پہ مرے
کام کرنا تھا جو وہ کر بھی گئی

عالمِ رنگ و بو کا دیکھ کے رنگ
خواہشِ یارِ ہمسفر بھی گئی

دیکھ کر خود وہ ہوگیا بیمار
تھی جو اُمیدِ چارہ گر بھی گئی

کچھ نہ اُس پر ہوا اثر برقیؔ
حُرمتِ اشکِ چشمِ تَر بھی گئی

تبصرے بند ہیں۔