عید آئی بھی اور گزر بھی گئی
احمد علی برقیؔ اعظمی
جس کا تھا مُنتظر خبر بھی گئی
عید آئی بھی اور گذر بھی گئی
…
کرکے آیا نہ وعدۂ فردا
حسرتِ دید تھی جو مَر بھی گئی
…
وہ نظر تھی طلسمِ ہوش رُبا
حشر برپا تھا اک جدھر بھی گئی
…
کرکے دنیائے دل کو زیر و زَبَر
جانے کب اس میں وہ اُتَر بھی گئی
…
نگہہِ ناز اُس کی دل پہ مرے
کام کرنا تھا جو وہ کر بھی گئی
…
عالمِ رنگ و بو کا دیکھ کے رنگ
خواہشِ یارِ ہمسفر بھی گئی
…
دیکھ کر خود وہ ہوگیا بیمار
تھی جو اُمیدِ چارہ گر بھی گئی
…
کچھ نہ اُس پر ہوا اثر برقیؔ
حُرمتِ اشکِ چشمِ تَر بھی گئی
تبصرے بند ہیں۔