بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام شاعرِ خلیج جلیلؔ نظامی کی الوداعی تقریب

افتخار راغبؔ

 اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے احساس سے معمور، ذی علم سخن فہموں ، باکمال سچے سخن گستروں اور ادیبوں کی منفرد تنظیم یعنی قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر (قائم شدہ۱۹۵۹ء؁) نے شاعر خلیج، جلیلِ دکن اور فخر المتغزلین جناب جلیلؔ نظامی کے لیے ایک پُر وقار الوداعی تقریب کا اہتمام ۱۷ / نومبر ۲۰۱۷ء؁ بروز  جمعرات کی شام  دوحہ کے معروف ہوٹل کسریسٹل پیلس کے وسیع ہال میں کیا۔ پروگرام کی صدارت بزمِ اردو قطر کے صدر و معروف شاعر و ادیب جناب محمد رفیق شادؔ آکولوی نے کی جب کہ مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر بزمِ اردو لندن کے جوانٹ سکریٹری جناب عادلؔ مظفرپوری، بزم کے سینئر سریرست جناب سید عبدالحئی اور جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ  اور مجلس فروغِ اردو ادب کے صدر جناب فرتاشؔ سید جلوہ افروز ہوئے۔ نظامت کے فرائض بزم کے چیئرمین و گزرگاہِ خیال فورم کے بانی و صدر جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے اپنے دل فریب انداز میں انجام دئیے۔

 جناب جلیلؔ نظامی گزشتہ تین دہائیوں سے قطر میں مقیم ہیں ۔  ذوقِ شعر آپ کی فطرت میں شامل ہے۔  شاعری میں آپ کو مجروحؔ سلطان پوری  اور والیؔ آسی سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔  اردو، فارسی اور عربی میں بے پناہ درک رکھنے والے اس دور کے چند اہم شعراء  میں جلیلؔ نظامی کا نام بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری قدیم انداز اور روایتی اسلوب لیے ہوئے ہے لیکن ان کا اندازِ بیاں اور طرزِ تحریر ایسا ہے کہ پڑھنے والے کو پرانی اور نئی اچھی شاعری کے سارے محاسن اس میں نظر آ جاتے ہیں ۔ اندازِ بیاں اور اندازِ فکر ایسا کہ جو  اساتذہ کی شاعری کا طرۂ  امتیاز تھا۔ الفاظ نگوں کے مانند یوں  جڑتے ہیں کہ ایک ایک لفظ میں ایک ایک مضمون چھپا دکھائی دیتا ہے۔ جناب جلیلؔ نظامی، انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر ہیں ۔ اسّی کی دہائی سے بطور شاعر اور مشاعروں کے منتظم اردو کے فروغ کا جذبہ لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر صورت مستعد اور فعال رہے ہیں ۔

  قطرکے معروف ادیب جناب ڈاکٹر عطاء الرحمان صدیقی ندوی کی تلاوتِ کلام اللہ سے با برکت آغاز ہوا۔ مہمامانِ اعزازی جناب جلیلؔ نظامی نے اپنے سحر انگیز ترنم میں عقیدت و محبت میں لبریز اپنی نعتِ پاک پیش فرمائی جسے سامعین نے خوب پسند فرمایا۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

جانتا ہے جو رسولِؐ ہاشمی کے راستے

اُس پہ کھُل جاتے ہیں سب دانشوری کے راستے

فیض پاتی ہے اُسی امّی لقب سے ہی خرد

بند ہو جاتے ہیں جب بھی آگہی کے راستے

ختم ہو جاتے ہیں جاکر آپؐ کی چوکھٹ پہ سب

قیصری کے، خسروی کے، خاجگی کے راستے

محسنِ انسانیت کی رہ نمائی سے جلیلؔ

ہو گئے آسان ہم پر حق رسی کے راستے

   بزمِ اردو قطر کے خازن جناب غلام مصطفی انجم نے کثیر تعداد میں تشریف لائے  با ذوق سامعین و شعراے کرام اور مختلف تنظیموں کے نمائندو ں کا تہہِ دل سے استقبال کیانیز بزمِ اردو قطر کا مختصر تعارف بھی پیش فرمایا۔اِس موقع پر بزمِ اردو قطر  کی جانب سے جناب جلیلؔ نظامی کی شعری و ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک شیلڈ پیش کی گئی۔ قطر کے اردو حلقہ میں محمد رفیع کی یاد تازہ کراتے رہنے والے خوش گلو جناب عبد الملک قاضی کو کون نہیں جانتا۔ جناب عبدالملک قاضی کی پُر کیف آواز ہو اور جناب جلیلؔ نظامی کی غزل، تو سامعین کی کیفیت اور پروگرام کے آہنگ کا اندازہ  لگانا مشکل نہیں ہے۔ حسب توقع کچھ لمحوں کے لیے سامعین وادیِ غزل میں کھو سے گئے تھے اور بے خودی کے عالم میں داد و تحسین کے کلمات سے مسلسل نوارتے جا رہے تھے۔ چند اشعار دیکھیے:

غم کو سینے سے لگانے میں برائی کیا ہے

آگ سے آگ جلانے میں برائی کیا ہے

جانتا ہوں مری قسمت میں نہیں تو پھر بھی

بس یوں ہی آس لگانے میں برائی کیا ہے

آپ انصاف دلائیں گے بھروسا تو نہیں

پھر بھی زنجیر ہلانے میں برائی کیا ہے

عیب جوئی کو جو اوروں کی سمجھتا ہے ہنر

اُس کو آئینہ دکھانے میں برائی کیا ہے

خوش فکر شاعر جناب مظفر نایابؔ نے جناب جلیلؔ نظامی کے فن اور شخصیت کی دلکش عکاسی کرتی ہوئی اپنی نظم پیش کی اور خوب داد لوٹی۔ نظم کے چند بند پیشِ خدمت ہیں :

ہے ساحرِ الفاظِ فسوں کار نظامی

معروف سخنور ہے تغزّل کا ہے حامی

اسلوب بھی عمدہ ہے ترنّم بھی نرالا

چرچا ہے مروّت  کا محبت کا وفا کا

کیا خوب گلستانِ سخن تم نے سنوارا

ہو تم کو مبارک یہ سدا مست خرامی

ہے ساحرِ الفاظِ فسوں کار نظامی

احساس کو اشعار کی مسند پہ بٹھایا

جدّت سے تراکیب سے غزلوں کو سجایا

نقّاد کے ہاتھوں میں کبھی کچھ بھی نہ آیا

اوزان و قواعد میں کوئی عیب نہ خامی

ہے ساحرِ الفاظِ فسوں کار نظامی

ہے اُس کی غزل جیسے کوئی حسن کا پیکر

دلکش ہے حسیں تر ہے حسیں تر سے حسیں تر

کمیاب ہے کمیاب ہے اب ایسا سخنور

نایابؔ انھیں کا ہے جلیلؔ اسم گرامی

ہے ساحرِ الفاظِ فسوں کار نظامی

 ناظمِ تقریب جناب ڈاکٹر فیصل حنیف، جو مہمانِ اعزاز جناب جلیلؔ نظامی کے عمدہ منتخب اشعار پیش کرتے ہوئے اور اپنے پُر کشش انداز میں موصوف کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے، نے جناب جلیلؔ نظامی کو دعوتِ سخن دی اور جلیلؔ صاحب نے متعدد غزلیں تحت الفظ اور ترنم میں پیش فرمائیں ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

چھید کشتی میں ہو تلاطم ہو

ظلم کا کیسے پار قلزم ہو

چاند سورج شفق دھنک تارے

سب اندھیرے ہیں روشنی تم ہو

اے خداوندِ غالبؔ و اقبالؔ

کچھ عطا مجھ کو بھی تکلّم ہو

داد کی بھیک کیوں وہ مانگے جلیلؔ

جس کے ہاں فکر ہو ترنّم ہو

محدود نہیں فکرِ سخن لفظ و بیاں تک

بن جاتے ہیں کچھ زیر و زبر نوکِ سناں تک

جس شہر کی مٹّی کو لہو میں نے پلایا

اس شہر کو کھلتا ہے مرا نام و نشاں تک

پھیلا ہوا اک سلسلۂ بیم و رضا ہے

اُس کوچۂ قاتل سے مری سرحدِ جاں تک

برسرِ عام مرا حالِ زبوں پوچھتے ہیں

بات گھر کی ہے تو بازار میں کیوں پوچھتے ہیں

آرزو مند وہی ہیں مری بربادی کے

جو مری خیریتِ سوزِ دروں پوچھتے ہیں

خواہشیں ختم ہوئیں پھیڑ میں گم ہونے کی

اب تو سنٹاوں سے ہم راہِ سکوں پوچھتے ہیں

 جلیلؔ صاحب کے بعد ناظمِ اجلاس نے محفل اور بزمِ اردو قطر کے صدر محترم محمد رفیق شادؔ اکولوی کو مضمون پیش کرنے کی دعوت دی۔ جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی کا شمار جہاں صفِ اول کے شعرا میں ہوتا ہے وہیں نثر نگاری میں بھی اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔ آپ نے جناب جلیلؔ نظامی  پر ایک بھر پور تعارفی مضمون بہ عنوان ’’ ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں ‘‘  پیش کیا اور ان کے فن اور شخصیت کے مختف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ جناب جلیلؔ نظامی نے سو سے زیادہ بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی ہے۔ قطر میں تشریف لائے بے شمار قدیم و جدید مہمان شعراے کرام نے ان کے کلام کو سراہا ہے جن کے ساتھ ان کو مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جلیلؔ نظامی کی شاعری میں جہاں زبان و بیان کا رچائو اور سلاست وروانی ہے وہیں حمد ونعت کے علاوہ غزلوں میں بھی قرآن و سنت اور دینی سرمایہ کی گہری چھاپ موجود ہے، غمِ جاناں بھی ہے اور غمِ زمانہ بھی۔

  بزم کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے محترم جلیلؔ نظامی کو منظوم خراجِ تحسین پیش کی جسے حاضرین نے خوب پسند فرمایا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

اے افتخارِ شعر و سخن جانِ شاعری

اے شاعرِ خلیج! ہے تجھ سا کہاں کوئی

دوحہ قطر میں گلشنِ اردو کی جاں ہے تو

اردو سوسائٹی کی بھی روحِ رواں ہے تو

تجھ سے ہیں بزمِ اردو قطر میں یہ رونقیں

کشتہ چراغ کیوں نہ ترے نور سے جلیں

شہکار تیری غزلیں ہیں صد رشک حمد و نعت

نوکِ قلم سے نکلی ہے بے خوف سچی بات

فتنہ گروں کی چال کا انجام بھول کر

قائم رہا ہمیشہ ہی اپنے اصول پر

نازاں ترے کلام پہ ہے جوہرِ سخن

غزلوں میں تیری شعر ہیں یا گوہرِ سخن

صد شوق کرتے ہیں ترے شہرِ سخن کی سیر

فن کے ہیں معترف ترے اپنے ہوں  یاکہ غیر

بزمِ خیال و فکر، گزرگاہِ آگہی

پوری نہ کر سکے گی کبھی بھی تری کمی

روئیں گے تیرے ہجر میں دشمن بھی زار زار

تقدیر ہی سے ملتا ہے ایسا عدو بھی یار

راغبؔ کریں گے اہلِ سخن کس کا اتباع

کیسے کہیں جلیلؔ نظامی کو الوداع

اے افتخارِ شعر و سخن جانِ شاعری

اے شاعرِ خلیج، ہے تجھ سا کہاں کوئی

اظہارِ خیال کرتے ہوئے جناب افتخار راغبؔ نے فرمایا کہ جلیلؔ صاحب کی کمی قطر کی ادبی محفلوں میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ انھوں نے جو شاعری کا معیار قائم کیا ہے دوسرے شعرا ء کے لیے وہ مشعلِ راہ ہے۔ جلیلؔ صاحب کے ایک شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کی:

غیر سے پہنچی ہوئی تکلیف کیا

دوستوں کی مہربانی اور ہے

 مہمانِ خصوصی محترم سید عبد الحئی نے فرمایا کہ جلیلؔ نظامی صاحب کی اتنی خوبیوں سے میں واقف ہوں کہ ان کا بیان کرنے کے لیے اچھا خاصہ وقت درکار ہے۔ معیاری شاعری کے علاوہ آپ کا ترنم اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی خوش خطی لاجواب ہے۔ یاد داشت ایسی کہ پورا کا پورا مشاعرہ سنا دیا کرتے تھے۔ آپ کے متعدد  شعرا ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں ۔ آپ نے کئی اشعار پیش کرکے ان پر گفتگو بھی فرمائی جن میں  یہ اشعار بھی شامل تھے:

کاجل جو تیری آنکھ کے حلقے میں آگیا

رنگِ سہہ بھی حسن کے زمرے میں آگیا

ماہِ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز

شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

مہمان شاعر و مہمانِ خصوصی جناب عادلؔ مظفر پوری نے اس خصوصی محفل میں مدعو کیے جانے کے لیے بزمِ اردو قطر کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میں کئی ملکوں کی شعری محفلوں میں شرکت کر چکا ہوں لیکن جو معیار یہاں قائم ہے میں نے ایسا معیار کہیں نہیں دیکھا۔ آپ نے جلیلؔ نظامی صاحب کی شاعری کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور فرمایا کہ جو اشعار میں نے جلیلؔ صاحب کے یہاں سنے ایسی شاعری آج کل بہت ہی کم سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے۔

مہمانِ خصوصی جناب فرتاشؔ سید نے فرمایا کہ بزمِ اردو قطر کی جانب سے آج قطر کے سب سے بڑے شاعر کی الوداعی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ قطر میں اردو ادب کے لیے یقیتاً یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آج کے اس گلوبلازیشن کے دور جلیلؔ صاحب یہاں کے احباب سے ضرور منسلک رہیں گے اور اپنی عمدہ تخلیقات سے نوازتے رہیں گے۔

  مہمانِ اعزازی محترم جلیلؔ نظامی نے اپنی تقریر میں ان کے متعلق تاثرات و خراجِ تحسین پیش کرنے والے تمام احباب کی متعدد خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے نام بہ نام شکریہ ادا کیاجن میں جناب مظفر نایابؔ، جناب افتخار راغبؔ، جناب سید عبد الحئی، جناب ڈاکٹر فیصل حنیف، جناب شادؔ آکولوی، جناب وزیر احمد وزیرؔ جناب قاضی عبد الملک وغیرہ شامل ہیں ۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کی ادبی خدمات کو سراہا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے اِس کی ترقی و کامرانی کی دعا بھی فرمائی۔

 صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے محترم محمد رفیق شادؔ آکولوی نے فرمایا کہ آج کے دور میں ہر پروگرام میں مطلع سے مقطع تک پوری غزل سنانے والے بہت کم شعرا موجود ہیں جن جلیلؔ نظامی صاحب کا نام بہت نمایا ہے۔ آپ نے جلیلؔ صاحب کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حمد و نعت کی جو لفظیات جلیلؔ نظامی صاحب کے پاس ہے وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ آپ نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ  وطن واپسی سے جلیلؔ صاحب کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اب آپ اردو زبان و ادب کے لیے زیادہ وقت دے کر بہتر انداز میں خدمات انجام دے سکیں گے۔ آپ نے موصوف کی کامیابی و کامرانی کی دعا فرمائی۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کے نائب سکریٹری جناب فیاض بخاری کمالؔ کے والد بزرگوار حکیم سید محمود بخاری کے لیے دعائے مغفرت بھی فرمائی جن کا انتقام چند روز قبل ہوا تھا۔

  بزم ِ اردو قطر کے میڈیا سکریٹری جناب ارشاد احمد نے بزم کی طرف سے تمام معزز مہمانان و شعرا و سامعین کرام کو شکر گزاری کا فریضہ انجام دیا اور جلیلؔ نظامی صاحب کا یہ معروف شعر بھی پیش فرمایا:

شہر میں صورتِ دیوارِ تماشا ہوں جلیلؔ

اشتہاروں کی طرح لوگ ہیں چسپاں مجھ سے

ناظمِ اجلاس جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے دورانِ نظامت جلیلؔ نظامی صاحب کے فن اور شخصیت پر روشنی بکھیرتے ہوئے متعدد منتخب اشعار بھی پیش کیے۔ چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

ٹھوکر جو لگی ہے تو جلیلؔ آخری سمجھو

یہ عمر میاں گر کے سنبھلنے کی نہیں ہے

بزم وہ معتبر ہے جلیلؔ

آپ کی جس میں شرکت رہی

دل کی بستی میں ہوس باعثِ فتنہ ہے جلیلؔ

اِس یہودی کو مدینے سے نکالا جائے

مرے پہلو میں دل ہے دل میں تم ہو

جہاں تم ہو وہاں کوئی نہیں ہے

غیر  بیزار، خفا  آپ، وہ  نالاں  مجھ  سے

مطمئن پھر بھی نہیں گردشِ دوراں مجھ سے

آشیاں پھونک دیا میں نے گلوں کی خاطر

اور کیا چاہتے ہیں اہلِ گلستاں مجھ سے

جب غلط بات پہ منصف کوئی اَڑ جاتا ہے

اُس کو آئینہ دکھائو تو بگڑ جاتا ہے

اپنے احباب سے دوری کا سبب کیا پوچھیں

دھوپ ڈھلتی ہے تو سایا بھی بچھڑ جاتا ہے

ایسے دو راہے پہ لے آئی محبت تیری

سر کی دستار بچاتا ہوں تو دھڑ جاتا ہے

نوجواں لگنے سے کیا ہوگا جلیلؔ

جس کو کہتے ہیں جوانی اور ہے

اتنا سج دھج کے عیادت کو نہ آیا کیجیے

ورنہ کچھ سوچ کے یہ جان نکل جائے گی

دل کی بستی میں ہوَس باعثِ فتنہ ہے جلیلؔ

اِس یہودی کو مدینے سے نکالا جائے

دستار کی ہوس تھی اُسی کو بہت جلیلؔ

کاندھے پہ جس کے سر تھا مگر سر میں کچھ نہ تھا

تختی گلے میں ڈال کے اردو کے نام کی

شہرت خریدنے چلی دولت حرام کی

تبصرے بند ہیں۔