بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام غیر طرحی مشاعرہ

 سید فیاض بخاری

اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے کوشاں با کمال شاعروں اور ادیبوں کی منفرد تنظیم، بزمِ اردو قطر (قائم شدہ  1959 ء ) کی جانب سے غیر طرحی مشاعرے کا انعقاد بروز جمعہ، بتاریخ  17/  مارچ  2017ء  بمطابق 18 /جمادی الآخر، 1438ھ بمقام ٹی ین جی اسکول،دوحہ میں کیا گیا۔ شعرائے کرام اور سخن فہم سامعین کی ایک بڑی تعداد نے اس پروگرام میں شرکت کی۔

 بزم اردو قطر کے سینئر  سرپرست جناب  سیّدعبدلحئی نے مسندِصدارت کوجلا بخشی۔ جناب سیّد عبدالحئی کی پر وقار ، حلیم و بردبار شخصیت سے قطر کا پورا اردو حلقہ واقف ہے ۔ آپ کی اردو دوستی اور ادب نوازی اپنی مثال آپ ہے۔  جناب ڈاکٹر توصیف ہاشمی بطورِ مہمانِ خصوصی پروگرام کی زینت بنے۔ آپ کی شخصیت بھی محتاجِ تعارف نہیں ہے۔  آپ ایک ماہر طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ اردو  ادبی پروگراموں سے  کافی انس رکھتے ہیں ۔  جناب فیروز خان  اور جناب حسیب الرحمان مہمانان اعزازی کی  مسندپر فائز  ہوئے اور بزم  کے اس پروگرام کو اعزاز بخشا۔  جناب فیروز خان  ادب نواز شخصیت کے مالک ہیں اور  بزم اردو قطر  کے نائب صدر  ہیں  اور بغیر کسی نمود و نمائش کے اردو کی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں ۔ جناب حسیب الرحمان صاحب،  کاروانِ اردو قطر کے نائب صدر ہیں ۔ آپ سنجیدہ مزاج کے مالک ہیں اور  زبان و بیان پر کافی عبور رکھتے ہیں ۔ شیریں گفتار ایسے کہ جب گفتگو کریں تو جی کرے سنتے رہا جائے۔

گزشتہ چند مہینوں سے بزم اردو، قطر کے نمائندوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ منفرد نوعیت کے ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے۔  زیرِتذکرہ "غیر طرحی مشاعرہ” بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔  ماضی میں برسوں تک تسلسل کے ساتھ طرحی مشاعروں  کے انعقاد نے جہاں شعرا ئے کرام کے ذوقِ شاعری کو ایندھن فراہم کرنے کا کام کیا ہے،  وہیں اس "غیر طرحی مشاعرہ” نے سامعین کرام کی دلچسپی کو ابھارنے اور ان کی باوقار سماعتوں میں رس گھولنے کا کام کیا ۔

  نشست کا باقاعدہ آغاز پر تکلف ظہرانہ (دعوتِ طعام) کے بعد ، بزم  کے دیرینہ رفیق، جناب حافظ سیف اللہ محمدی کی زبانی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ اس کے بعد جناب مقصود سلطان پوری کو نعت گوئی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے  خوش الحانی کی دولت کو بھرپور طور سے بروئے کار لاتے ہوئے ، بڑے ہی دلکش انداز  اورمنفرد ترنم میں  نعت  شریف پیش فرمائی۔ عشق رسولؐ  سے لبریز نعتیہ اشعار کو سن کر سامعین  جھوم اٹھے اور جناب مقصود سلطان پوری کو  اپنی دعاؤں سے نوازا۔ اسی نعت شریف کے چند اشعار تبرکاً حاضر ہیں :

ہنستے ہوئے رہتے ہیں انسان مدینے میں

ہر وقت چمکتا ہے ایمان مدینے میں

اس طرح سے پورا ہو ارمان مدینے میں

کعبے میں مرا دل ہو اور جان مدینے میں

 بزمِ  اردو قطر کے صدر ِ باوقار، صاحبِ شیریں گفتار، شاعر و نثر نگار،  جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے، پرلطف انداز میں استقبالیہ کلمات پیش کیے۔  جس میں بزم کے نصف صدی سے زائد ادبی سفر کے تذکرے کے ساتھ ساتھ متقدمین رفقائے بزم کا بھی ذکرِخیر فرمایا۔

  اس مشاعرے کی نظامت ، بزم اردو قطر کے  جنرل سیکریٹری ، جناب افتخار راغبؔ  نے کی۔’ لفظوں میں احساس‘، ’ خیال چہرہ‘  اور ’ غزل درخت‘ کے اس شاعر کی شہرت کا اندازہ آپ اس بات سے  بھی لگاسکتے ہیں کہ "فیس بک”  پر آپ کے چاہنے والوں اور پیروی کرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ آپ کی شاعری کی  "اینڈروائڈ ایپ ” بھی تیار ہو چکی ہے جو ” پلے اسٹور” سے  مفت میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ جناب افتخار راغبؔ   نے  درمیانِ نظامت متعدد شعراء کے چنندہ اشعار کی خوبیوں سے سامعین کو روشناس کروایا۔ جس پر شعرائے کرام نے اظہارِ تشکر کیا وہیں سامعیں کرام  نے بھی اشعار کی باریک بینی پر توجہ دلانے کے لیے خوشی کا اظہار فرمایا۔

 ناظمِ مشاعرہ نے سب سے پہلے، دوحہ قطر کے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر جناب ظریفؔ بلوچ کو دعوتِ سخن دی۔  بقول  ِناظمِ مشاعرہ،  "۔۔۔ ایک بڑے اچھے شاعر کا اضافہ قطر کے ادبی حلقے میں ہوا ہے؛ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے؛ اور بڑی اچھی شاعری کرتے ہیں ۔  بعض اوقات ان کے اشعار چوکانے والے ہوتے ہیں ۔۔۔”.  آئیے ہم بھی ان کے چند اشعار سے محظوظ ہوں :

نہ سر پہ تاج ہے کوئی نہ ساتھ میں لشکر

تمہاری بزم میں ہم خالی ہاتھ آئے ہیں

ابھی نہ چھیڑ دلِ مضطرب کے تار ٹھہر

ابھی انہیں کہاں جی بھر کے دیکھ پائے ہیں

وہ دوسروں کے مکاں کیا بچا سکیں گے ظریفؔ

جو اپنے گھر کو ہی آتش فشاں بنائے ہیں

 ناظمِ  مشاعرہ نے  ایک اور نئے شاعر جناب سانول عباسی  کو اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی۔ آپ عرصۂ  دراز سے اردو دوست کی حیثیت سے پہچانے جاتے  رہے ہیں ۔ مگر ادبی محفلوں میں بطورِ شاعر آپ نے حال ہی میں اپنا جوہر دکھانا شروع کیا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ قطر کی ادبی محفلوں میں بطورِشاعر ایک اور نیا اضافہ ہیں ۔  آپ نے ایک چھوٹی سی غزل پر اکتفا کیا جس کے چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں :

کہوں جو میں کروگے کیا

مرے دل میں بسو گے کیا

ملا جو گر کبھی تم سے

تو حالِ دل سنو گے کیا

 راقم الحروف  (سید فیاض بخاری کمالؔ)  جناب افتخار راغبؔ  کا بہت ہی ممنون ہے کہ آپ  نے اس ناچیز کو بڑے محبت آمیز جملوں  سے تعارف کروایا۔اور آخر میں چند اشعار پر ایک مختصر اور جامع تبصرہ فرماکر اس طالبِ علم  کی حوصلہ افزائی  کی۔ویسے تو مناسب تھا کہ اپنے اشعار شامل نہ کرتا لیکن   اس رپوٹ کے تقاضے کے مطابق چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں :

ہیں مخاطب وہ چشم و ابرو سے

واہ کیا خوب یہ تکلّم ہے

ان کی خاموشیاں اشارہ ہیں

آنے والا کوئی تلاطم ہے

خود میں ڈھونڈیں کمالؔ کو اپنے

ہو نہ ہو آپ ہی میں وہ گم ہے

سر پہ پلو کی درستی کے بہانے ہی سہی

روئے مہتاب کا کروایا نظارا تم نے

چشمِ حیراں کو کہاں تابِ نظارہ لیکن

شعلۂ حسن کا دکھلایا شرارا تم نے

 راقم الحروف کے بعد ایک جانی پہچانی شخصیت جناب راشد عالم راشدؔ  کو دعوت سخن دی گئی، جو کہ اچھے شاعر  ہی نہیں بلکہ ایک اچھے نثر نگار بھی  ہیں ؛ کاروان ِ اردو قطر کے نائب ِصدر ہیں اور عالمی مشاعروں کی شوکت بھی بنتے رہے ہیں ۔ آپ کے کلام کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :

کون دنیا میں مرا غم خوار ہے

جانتا ہوں میں وفا دشوار ہے

دل ہے بسمل آہ کی فرصت کہاں

مستقل تیرِ نظر کا وار ہے

لوگ ہیں مصروف اپنی واہ واہی میں مگر

وقت راشدؔ اس طرح اپنا زیاں مت کیجئے

مسائل پہ ہم نے بہت بات کرلی

مجھے رہبرو کوئی رستہ دکھا دو

 جناب ڈاکٹر وصی بستوی  ایک سنجیدہ مزاج اور کم گو طبیعت کے حامل ہیں ۔  بہت ہی اچھے اشعار کہتے ہیں ۔  آپ تحت اور ترنم دونوں میں اپنا کلام پیش کرتے ہیں ۔ آپ کے کلام کی بالیدگی اور آپ کے خیالات کی پختگی کے لیے سامعین نے بھر پور داد سے نوازا۔  چند اشعار آپ کی خدمت میں حاضر ہیں :

اسے مدِّ مقابل مل گیا ہے

چلو جاہل کو جاہل مل گیا ہے

ہر اک شئے ہے اسیرِِِِ دشتِ امکاں

حدوں سے ماورا بس دل گیا ہے

عجب دورِ تماشہ ہے کہ اس میں

خرد میں بھی جنوں گھل مل گیا ہے

اس کی محفل میں پرایا تھا میں

کتنا مظلوم خدایا تھا میں

بہہ جو نکلا تو سمندر کم ہے

ورنہ کوزے میں سمایا تھا میں

  باری تھی ہر دلعزیز، خوش گلو شاعر  جناب وزیر احمد وزیرؔ کی۔  جناب وزیر ؔ  بزم کے رابطہ سیکریٹری ہیں اور کئی عالمی مشاعروں میں اپنا کلام سناکر خوب داد حاصل کر چکے ہیں ۔ آپ اکثر بہترین اور منفرد ترنم میں اپنا کلام سنایا کرتے ہیں ۔  زیرِ تذکرہ مشاعرے میں بھی آپ نے اپنا  کلام ترنم میں پیش کیا۔   چند اشعار قارئین کے ذوق ِ مطالعہ کی نذر کیے دیتے ہیں :

ترے فراق میں آنکھوں کو اشک بار کروں

یہی ہے تجھ کو گوارا تو بار بار کروں

پکاروں ان کو کہ شاید گٹھن ہو دور مری

یا شامِ غم ترے ڈھلنے کا انتظار کروں

اجالے اپنے ہیں ظلمت کی سازشوں کے شکار

تو کیوں نہ رات کی چلمن کو تار تار کروں

کچھ اس طرح سے سمائے مرے وجود میں تم

کوئی بھی دل کے دریچوں سے پھر گزر نہ سکا

نہ جانے کونسی منزل تھی جستجو میں مری

کسی مقام پہ قائم کبھی ٹھہر نہ سکا

 ناظمِ مشاعرہ کو دعوتِ سخن دینے کے لیے صدرِ بزم جناب محمد شاد رفیق اکولوی  خود مائک پر تشریف لائے اور دل کو چھونے والے انداز میں جناب افتخار راغب کی پذیرائی کی۔  آپ کے کلامِ  بلاغت نظام کے چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :

کیا عشق ہے جب ہوجائے گا تب بات سمجھ میں آئے گی

جب ذہن کو دل سمجھائے گا تب بات سمجھ میں آئے گی

میں اوروں کو سمجھاتا تھا لیکن مجھ کو معلوم نہ تھا

جب کچھ نہ سمجھ میں آئے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی

راغبؔ چاہت کا روگ ہے کیا، اظہارِ محبت کیا ہے بلا

اک لفظ نہ منھ تک آئے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی

اچھا لگتا ہے تم کو اگر کھیلنا میرے جذبات سے

کچھ نہ بولوں گا میں عمر بھر کھیلنا میرے جذبات سے

آرہا ہے مجھے بھی مزہ، خوب ہے یہ ترا مشغلہ

مجھ کو تکلیف میں دیکھ کر کھیلنا میرے جذبات سے

مست مگن ہیں خود کو بے پروا کر کے

خود جلتے ہیں دھوپ میں ہم سایہ کر کے

گھر والے مصروفِ دعا ہو جاتے ہیں

گھر سے نکلتے ہیں ہم بھی صدقہ کرکے

تیرے ملنے والوں سے مل لیتا ہوں

تھوڑی خوشی مل جاتی ہے ایسا کر کے

            جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی صاحب، زیرِ تذکرہ مشاعرے کے آخری شاعر تھے۔ آپ بزم اردو، قطر کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ادیب و  شاعر ہیں ۔ آپ کے کلام کی جامعیت اور موزوں الفاظ کا سنگم آپ کے کلام کو منفرد  بناتے ہیں ۔ درجِ ذیل اشعار آپ کی شاعری کے  عمدہ نمونہ ہیں :

چلتے تو مصلحت کی ہیں بے ساکھیاں لیے

اور ہم سے یہ گلہ کہ رویہ بدل گیا

اکیسویں صدی کا یہ دورِ اباہیت

اک اژدہے کی شکل میں کیا کیا نگل گیا

درد و غم، رنج و الم، بغض و حسد، حرص و ہوس

اس کہانی میں مری جان نیا کچھ بھی نہیں

بحر و بر، شمس و قمر، ارض و سماء آب و ہوا

شادؔ اک کن کے اشارے کے سوا کچھ بھی نہیں

دل کے ارمان کب نکلتے ہیں

آپ آئے نہیں کے چلتے ہیں

 اسٹیج پر جلوہ فرما مہمانانِ اعزازی، مہمانِ خصوصی اور صدرِمحترم نے مختصر مگر جامع تبصرے فرماے اور اپنی رائے اور مفید مشوروں سے  نوازا۔

جناب فیروز خان  نے فرمایا کہ "۔۔۔بہت ہی شاندار مشاعرہ رہا اور وقت پر اختتام پذیر ہوا۔۔۔”.  جناب حسیب الرحمٰن صاحب نے  مختصر مگر جامع تقریر کی جس سے سامعیں بہت متاثر ہوئے۔  انہوں نے فرمایا کہ "۔۔۔ایک بات اگر بہت ہی بسیط انداز میں کہہ  دی جائے اس کی تاثیر وہ نہیں ہوتی جب اسی بات کو پورے جذبات کے ساتھ، احسات کے ساتھ، اچھے الفاظ میں اور اچھی تراکیب میں کہا جائے۔  ہمارے درمیاں شعراء  و  ادباء  موجود ہیں ۔  جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیتیں رکھی ہیں ۔  اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ  جو کچھ بھی ہم نے تم کو  دیا ہے تم  اس میں سے خرچ کرو۔۔۔۔۔ شعرائے کرام نے آج اچھے اچھے اشعار سنائے،  اچھے اچھے پیغام دئے۔ بعض شعر تو ایسے ہیں کہ جن کو "ٹرنڈ”  مل جانا چاہئے۔  اور بعض میں اتنی شگفتگی تھی کہ کوئی دل بغیر محسوس کیے نہیں رہ سکا ہوگا۔۔۔۔”۔

 مہمانِ خصوصی جناب توصیف ہاشمی  نے اپنے ادبی ذوق کا اظہار کیا۔  انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ  سعودی عرب کی پینتیس سالہ قیام کے دوران اتنے مشاعروں میں شریک نہیں ہوسکے  جتنا گزشتہ تین سال  میں قطر میں منعقدہ مشاعروں میں شریک ہوسکے ہیں ۔

جناب سید عبد الحئی صاحب نے اپنے مفید صدارتی کلمات سے نواز۔ آپ نے سارے شاعروں کے چنندہ اشعار کا تذکرہ فرمایا  اور کئی اشعار کے متعلق اپنے مختصر مگر جامع تبصرے سے نوازا۔ یہاں پر آپ کے مکمل تبصرے کو شامل تو نہیں کیا جاسکتا مگر تبصروں کے علاوہ چند اہم باتیں جو انہوں نے پیش کیں ، ان کا تذکرہ  کر دینا مناسب رہے گا۔  مثلاً  ان کا یہ پیغام :” جو صحیح ہے وہی طاقتور ہے، مگر ہمارے ہاں یہ ہے کہ جو طاقتور ہے سب اسی کی طرف جاتے ہیں گویا کہ طاقتور ہی صحیح ہے۔یعنی

 Right is might, might is not right.

 آپ نے مزید فرمایا کہ "۔۔۔ کہ میں یہاں پر ہمیشہ طالب علم کی حیثیت سے آتا ہوں اور کچھ سیکھ کر جاتا ہوں ۔  ‘وہ دن بیکار ہے جس دن آپ نے نہ کچھ سیکھا نہ دوسروں کو سکھایا’۔۔۔”.

 بزم کے میڈیا سیکریٹری جناب ارشاد احمد صاحب نے شعراء ، سامعین اور مہمانان اور ٹی این جی اسکول کی انتظامیہ کا  شکریہ ادا کیا۔ آپ نے بہت ہی مختصر مگر جامع انداز میں اظہارِ تشکر کیا۔ آپ نے جناب افتخار راغبؔ کے چار مصرع بھی پیش کیے:

دوستوں کی دوستی کا شکریہ

چاہتوں کی روشنی کا شکریہ

آپ ہی کے دم سے دم ہے بزم میں

سب کی تشریف آوری کا شکریہ   بزم کے اس پروگرام میں کئی معزز ہستیوں اور دوسری  تنظیموں سے وابستہ اراکیں و عہدیداران کی تشریف آوری نے پروگرام کی رونق کو دوبالاکیا۔ جن میں معروف ادب نواز  جناب سید شکیب  ایاز، "انڈین ایسوسی ایشن فار بہار اینڈ جھارکھنڈ” کے چیئرمین جناب محمد فاروق احمد، صدر جناب سجاد عالم ,  چیرمین بزم اردو قطر و چیرمین اقبال اکادمی مڈل ایسٹ و صدر گزرگاہِ خیال فورم جناب ڈاکٹر فیصل حنیف ، کاروانِ اردوقطر  کے جنرل سیکریٹری جناب محمد  شاہد خان ،  بزم کے خازن جناب غلام مصطفے انجم ،  جناب اشرف صدیقی،  جناب محمد غفران صدیقی، جناب قاضی عبد الملک ، جناب عبد المجید، جناب شمس الدین رحیمی  وغیرہ  کے اسماے گرامی شامل ہیں ۔  بزم اردو قطر ان تمام حضرات اور ان تمام احباب کی شکرگزار ہے جنہوں نے اس محفل میں اپنی شرکت سے وابستگی کا اظہار کیا اورجن کا نام رپوٹ کی طوالت کے خدشے سے شامل نہیں کیا گیا  ہے۔

لطیفہ:  مشاعرے کے اختتام پر صدارتی خطبے میں محترم سید عبدالحئی نے راقم الحروف(فیاض بخاری کمالؔ) کی غزل کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی غزل سن کر ہم جیسوں کو بھی اپنی جوانی یاد آگئی۔ اس پر ناظمِ مشاعرہ جناب افتخار راغبؔ نے کہا کہ شکر ہے کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا شاعر موجود نہیں ہے جس کا کلام سن کر نانی یاد آجاتی۔

تبصرے بند ہیں۔