بزمِ صدف: ایک مشن

شہاب الدین احمد
چیئرمین بزمِ صدف

ادبی اور سماجی، تہذیبی اور ثقافتی انجمنوں کے بغیر ہماری سماجی زندگی کا آسانی سے تصور ممکن نہیں۔ انسان جیسے ہی شعور اور دانش کے سہارے اگلی منزلوں تک پہنچتا ہے،اسے نئے نئے افکار اور نظریات کی تعبیر و تشریح اور ان پہ لوگوں کی ہموار راے کی ضرورت پڑتی ہے، اسی سے دنیا کا کاروبار اور دانش وروں کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ جیسے ہی ہم ادب لفظ کا استعمال کرتے ہیں، اس کا پہلا معنی اصولوں پر عمل درآمد، احترام اور سلیقہ مندی ہوتا ہے۔ اس کے بعد نثر اور نظم کی خدمات ہوتی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ادب کے سلسلے سے کسی انجمن کا قیام کرنا اور اسے فروغ دینے کا مطلب یہ ہوا کہ نظم ، غزل، افسانہ اور تنقید و تحقیق یا کتابوں کی اشاعت جیسے کام تو اس کے دائرۂ کار میں ہیں ہی لیکن اسی کے ساتھ تعلیم ، تہذیبی اور ثقافتی انعقادات، مظلوم اور بے زبان افراد کی خدمت اور بالآخر سماج کو پورے طور پر مضبوط کرنا ہوتا ہے۔
’بزمِ صدف‘ ایک ادبی تنظیم ہے جو ہندستان اور ہندستان سے باہر کے ملکوں بالخصوص دوحہ،قطر میں اردو زبان و ادب کی ترقی میں عملی کوششوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ’بزمِ صدف‘ کے منصوبے کثیر جہاتی ہیں۔ ادبی رسالہ، کتابوں کی اشاعت اور ادبی ایوارڈ کی تقسیم کے ساتھ ہم نے تہذیبی اور ثقافتی نیز ادبی پروگراموں کے انعقاد کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہندستان کے مختلف شہروں میں ہم نے سے می نار کی بنیادیں رکھ دیں ہیں اور بین الاقوامی معیار سے بڑے بڑے سے می نار اورمذاکرے ، مشاعرے وغیرہ منعقد کرنے کا ہمارا سلسلہ ہے۔
اپریل 2014ء میں’ بزمِ صدف‘ کے تاسیسی پروگرام کے موقعے سے پٹنہ(ہند) میں یہ ایک لاکھ روپے کا بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ اور اکیاون ہزار کے بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ دینے کااعلان ہوا تھا۔ بین الاقوامی ایوارڈ اُس شخص کے لیے مقرّر ہے جس کی علمی اور ادبی خدمات کو عالمی طور پر قبول کیا جاتاہو، جس کی خدمات گراں مایہ ہو ں اور جس کی تصانیف کو عام طور پر اعتبار حاصل ہو۔ اِسی طرح بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ کے لیے یہ نشانہ مقرّر کیا گیا کہ پچاس برس سے کم عمر کے ایسے اہلِ علم کو اس ایوارڈ کے لیے منتخب کیا جائے جس نے اپنے ادبی کاموں سے ایک عالَم کو متوجہ کر لیا ہے۔ جس کے یہاں بہت سارے امکانات ہوں اور جس کی کتابوں کو بزرگ مصنّفین بھی اہمیت کے ساتھ مطالعے کا حصّہ بناتے ہوں۔ ہماری بین الاقوامی جیوری نے مشہور ڈراما نگار اور شاعر و ادیب جناب جاوید دانش (کینیڈا) کو ’بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ‘ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ڈاکٹر واحد نظیر کو ’بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ‘ دینے کے لیے فیصلہ کیا ہے۔
دسمبر 2015ء میں رسالہ ’صدف‘ کا پہلا شمارہ آیا۔ اب تک اس کے چار شمارے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے برادرِ بزرگ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے ’صدف‘ نام سے یہ رسالہ ایک دہائی پہلے نکالنا شروع کیا تھالیکن ان کی ناگہانی موت سے یہ رسالہ بند ہو گیا تھا۔ مَیں خود دوحہ میں سکونت گزیں تھا۔ اس دوران میں نے یہ ذہن بنایاکہ رسالہ ’صدف‘ کا دوبارہ رجسٹریشن ہو اور اِسے پھر سے شایع کیا جائے۔ خدا کا فضل ہے کہ اس میں ہمیں کامیابی ملی۔ رسالہ ’صدف‘ اردو کا بین الاقوامی رسالہ ہے اور ہم نے کوشش کی ہے کہ اس میں اُن تمام ممالک کی رفتہ رفتہ نمایندگی ہو سکے جہاں اردو بولی جاتی ہے اور جہاں اردو کے اہلِ قلم موجود ہیں۔ اِسی غرض سے اس کی مجلسِ مشاورت میں بارہ ملکوں کے افراد شامل ہیں اور اب تک ہم پندرہ سے زیادہ ممالک کی تخلیقات شایع کر چکے ہیں۔ اردو کے علمی حلقوں میں اِسے نہایت سنجیدہ ادبی رسالے کے طور پر قبول کیا جاتاہے اور بڑے اداروں یا یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں اس پر توجہ دی جاتی ہے۔
’بزمِ صدف‘ نے دنیا کے اہم اردو مصنّفین کی نئی اور تازہ کتابوں کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ کئی شعرا کے کلیات ، بہت سارے لکھنے والوں کے انتخابات اور مجموعی قدر و قیمت کے پیمانے پر شخصیات اور کتب کو رکھتے ہوئے ابتدائی طور پر ہم نے بیس کتابوں کو شایع کیا ہے۔ آیندہ برسوں میں اس میں بہ ہر طور اضافہ ہوگا۔ ہم نے بعض بزرگ اور معتبر شعرا اور نقّادوں سے یہ گزارش کی کہ وہ اپنی کتابیں شایع کرنے کے لیے ہمیں موقع دیں۔ بعض ایسے لکھنے والے بھی ہیں جن کی کتابیں آسانی سے نہیں شایع ہو پاتی ہیں۔ ہماری یہ بھی کوشش رہی کہ اُن کی کتابوں کو پہلی فرصت میں شایع کر دیا جائے۔آگے کتابوں کی اشاعت کے لیے اور بھی کئی منصوبے ہیں جن پر رفتہ رفتہ ہم عمل کریں گے۔ خاص طور پر کلاسیکی اہمیت کی کتابوں اور درس میں شامل نایاب یا کم یاب تحریروں کو خاص طور پر پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ ایسی شخصیات جن کی بہت اہمیت تھی لیکن ان پر کتابیں نہیں لکھی گئیں، ان کی خدمات پر کتابیں مرتّب کرکے شایع کرنا بھی ہمارا خاص پروگرام ہوگا۔
تعلیم کے بغیر ہم دنیا کے اندھیرے کو اُجالے میں بدل نہیں سکتے۔ تعلیم کے بغیر نہ ہم اپنی زبان کو بچا سکتے ہیں اور نہ تہذیب کو۔ اِسی لیے بزمِ صدف نے تعلیم کے کئی امور پر سنجیدگی سے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے اور ان کاموں کی باضابطہ تیّاریاں چل رہی ہیں۔مختلف اداروں اور تنظیموں کے عملی تعاون سے ہم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ رہائشی تربیتی مرکز (Residensial Coaching & Counseling) قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اعلا مقابلہ جاتی امتحانات خاص طور سے سِوِل سروِس کے امّیدواروں کے لیے رہائشی کوچنگ کا نظم کرنا آج کی اہم ضرورت ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہندستان کے مختلف شہروں میں ہم ایسی تربیت کا انتظام کر سکیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ سارے کام مفت انجام پائیں تاکہ اقلیت آبادی بڑی نوکریوں میں اپنے لیے جگہیں پا سکے۔ بیوروکریسی میں جب تک اردو آبادی کا تناسب نہیں بڑھے گا، تب تک ہمارے مسائل الجھے ہی رہیں گے۔ اِسی لیے ہم ایسی پیش رفت کے لیے سنجیدہ ہیں اور مختلف طرح کے وسائل کے انتظام میں سرگرداں ہیں۔
اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا۔بزمِ صدف کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ ساتھ ہندستان اور مختلف صوبوں کے لیے الگ الگ افراد کی قیادت میں کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ نشر و اشاعت کا کام، رسالے کی ادارت کا کام، سے می نار ، سمپوزیم اور دیگر علمی سرگرمیوں کے لیے بھی ہمارے پا س ٹیمیں موجود ہیں۔ چیرمین کی حیثیت سے میرا کا م پالیسی بنا دینا اور اپنے سر پرستوں اور انتظام کاروں سے مل کر ضروری وسائل اُس خاص کام کے لیے مہیّا کر دینا ہے۔ پھر یہ سلسلہ اپنے آپ بڑھنے لگتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ مواصلاتی انقلاب کے اس زمانے میں آپ دنیا کے کسی گوشے میں رہتے ہوئے کسی دوسرے خطّے کی ساری سرگرمیوں پر نظر بھی رکھ سکتے ہیں اور اسے مزید رفتار عطا کر سکتے ہیں۔
میری خوش نصیبی ہے کہ میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جسے اردو کے ادیبوں اور شاعروں کا گھرانا کہہ سکتے ہیں۔اردو میری مادری زبان ہے اور مادری زبان کسے عزیز نہیں ہوتی۔ وطن سے دور رہتے ہوئے اور وقفے سے جب وطن جانا ہوتا ہے تو اور آسانی سے اپنی زبان اور اُس کے حقیقی تقاضوں کی طرف نگاہ جاتی ہے۔ اسی لیے بزمِ صدف میری زندگی کا مِشن ہے اور میں چاہتاہوں کہ اپنی زندگی کاایک ایک لمحہ اپنی زبان اور اِس ادارے کے لیے وقف کر دوں۔ اگر یہ میرے لیے مشن نہیں ہوتا تو ہرگز اتنے کم وقت میں یہ ادارہ اتنی ترقی نہیں سکتا تھا۔
’بزمِ صدف‘ کے مقاصد واضح ہیں ۔ اپنی مادری زبان کے سلسلے سے وہ تمام کام جو دیگر ادارے نہیں کرپارہے ہیں، ہم سب کے اشتراک اور تعاون سے تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ بزمِ صدف سے محبت کرنے والوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ہمارے تمام خواب ایک نہ ایک دن ضرور اپنی تعبیر حاصل کریں گے۔ دانش ور اور حساس طبقہ ہماری بھرپور مدد کررہا ہے اور ہماری گزارش پر ہمیں دعائیں دینے کے لیے ہمارے پروگراموں کی رونق بڑھاتا ہے، اس لیے ہم اپنی کوششوں کو کامیابی کی سطح تک انشاء اللہ پہنچائیں گے اور بزمِ صدف اور اس سے متعلقہ اداروں کی کوششیں رنگ لائیں گی۔

تبصرے بند ہیں۔