بلراج  مینرا – کہاں سے آیا کدھر گیا وہ 

ڈاکٹر  زمرد مغل 

آپ اور ہم اچھے سے جانتے ہیں کہ ایک سنگ تراش کس طرح ایک پتھر کو تراشتا ہے اپنی باریک بینی سے پتھر کے اس حصہ کو الگ کردیتا ہے جو اس میں ذاہد ہوتا ہے اور اس طرح وہ ایک حسین و جمیل مورت خلق کر کرپاتا  ہے۔ بلراج مینرا بھی اپنی کہانیوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں ایسا لگتا ہے ایک لفظ بھی زاہد نہیں ہے۔ بلراج مینرا کی کہانی میں کہیں نہ کہیں ہم اپنی زندگی کو تلاش کررہے ہوتے ہیں سب کچھ اپنا اپنا سا محسوس تو ہوتا ہے مگر گرفت سے باہر بہت کچھ ایسا ہے بلراج مینرا کی دنیا میں جو ہمیں اپنے بہت قریب محسوس ہوتا ہے مگر اس دنیا میں جب ہم داخل ہوتے ہیں تو وہ عالم ایک ایسا عالم معلوم ہوتا ہے جو اس سے پہلے ہمار ے سامنے نہیں تھا ایک نئی د نیا کی تلاش بلراج مینرا کی کہانیوں کا خاصہ ہے ان کہانیوں ـــــ میں مقتل، بھاگوتی، آتمارام، اور جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص آپ کی نظر میں ایک یسے کردار کی شکل و صورت اختیار کر لیتا ہے جسے وہ کسی داستان یا اساطیری کہانیوں کا کردار معلوم ہونے لگے۔ بلراج مینرا میرے لئے کسی اساطیری کہانی کے کردار سے کم نہیں ہے۔ اور جب میری ملاقات اس شخص سے ہوتی ہے تو اور زیادہ پر اسرار معلوم ہونے لگتا ہے۔ ملاقات سے پہلے والا بلراج ملاقات  کے وقت والے مینرامیں کوئی فرق نہیں تھا۔ لگتا ہے کسی اور  درد کا آدمی غلطی سے ایک ایسے عہد میں پیدا ہو گیا ہے جہاں تخلیق اور تخلیق کار دوسرے درجے کی کوئی چیز بن کر رہ گیا ہے۔

1971 کے بعد بلراج مینرا نے کوئی افسانہ نہیں لکھا مگر آج بھی وہ جیتے کہانی میں ہی ہیں اردو میں کم مغربی ادب میں زیادہ کہ وہاں ان کی ملاقات دوستوئکی سے ہوتی ہے۔ جین آسٹین سے ہوتی ہے۔ کہانی کے علاوہ بلراج مینرا کی پہچان کا ایک حوالہ ہے ان کی ادارت میں شائع ہونے  والا رسالہ ’’شعور‘‘ ہے جس کی اپنی ایک ادبی اہمیت ہے۔

بلراج مینرا کی کہانی کا جنم  ایک ایسے معاشرے کا جنم تھا جس نے اپنے عہد سے آنکھ ملانے کی کوشش کی تھی مگر اس کوشش میں بہت کچھ چھوٹ  بھی گیا ہے۔ انسان باہر کی دنیا کا کتنا بھی مطالعہ کرے اسے وہ تجربہ کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتا جو اس کا اپنی وجود اسے فراہم کرتا۔ تو یہاں سے شروع ہوتی ہے باہر اور اندر کی دنیا کی کشمکش۔ ایک تخلیق کار جو کچھ باہر سے لیتا ہے اسے اپنے اندر جذب کرتا ہے ان تجربات کو اپنی تخلیق کا حصہ بناتا ہے مگر انسان کی اندر کی دنیا کے بھی بہت سے مسائل ہیں جن کو بیان کرنے کی کوشش میں کبھی کبھی زندگی کم لگنے لگتا ہے۔

بلراج مینرا ا ہماری کہانی کا ایسا نام ہیں جس نے اردو فکشن کو بے شمارلازوال کہانیاں تو دیں مگر ایک ایسے دور میں جب اس کی ہر کہانی کا بے صبری سے انتظار ہتا  ہو ہر کہانی اردو میں بحث و مباحثہ کے کئی دروارہ کر رہی ہو ہر کوئی اس کی کہانی کا منتظر ہو ایسے میں ان کے قلم کا خاموش ہو جانا دراصل زندگی کے خاموش ہوجانے سے عبارت کیا جاسکتا ہے کہ اب زندگی میں کچھ ایسا نہیں ہے جسے بیان کیا جاسکے یا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اس کا اظہار آپ سے بہتر کررہا ہو اور آپ محسوس کرنے لگیں کے اور لوگ آپ سے بہتر لکھ رہے ہیں یا بہت بہتر۔ ممکن ہے بلراج مینرا کے ساتھ ایسا ہوا ہو کہ دنیائے ادب کا جتنا مطالعہ بلراج مینرا نے کیا اردو میں تو ایسے لوگ خال خال ہی ملیں گے

        بلراج مینرا ایک ایسا نام جو کہانی لکھتے لکھتے خود کہانی بن گیا لگ بھگ ۲۵ سال سے کوئی کہانی نہیں لکھی۔ کسی ادبی محفل میں وہ آپ کو نظر نہیں آئیں گے نہ ہی کسی ادبی گروہ میں شامل ہوئے۔ فکشن کے اس عہد کو جو ترقی پسند تحریک کے بعد نمودار ہوا ہم بلراج مینرا کا عہد کہہ سکتے ہیں جب کہ اسی دور میں انور سجاد، عبداللہ حسین، سریندر پرکاش، یہ تمام حضرات لکھ رہے ہیں۔ بلراج مینرا کی کہانیاں چونکاتی بھی ہیں، مگر ایسی کہانیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بلراج مینرا ایک تہہ دار کہانی کار ہے ان کی کہانی کی دنیا آپ پرایک دم سے نہیں کھلتی ہے۔ ایک عرصہ ہوا انہوں نے لکھنا چھوڑ رکھا ہے۔ مگر پڑھتے آج بھی وہ بہت ہیں اگر کبھی آپ کی ان سے ملاقات ہو اور ان کے گھر جانے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ آج بھی بلراج کی دنیاوہی دنیا ہے۔ جو انہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے علم کی نمائش نہیں کرتے نمائش تو دور کی بات آپ کبھی ان کی تعریف کریں تو وہ گفتگو کو  دوسری سمت موڑ دیتے ہیں۔

اردو میں مینرا منٹو کے دیوانے ہیں۔ منٹو پر ان کا کام ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ’’دستاویز‘‘  کی پانچ جلدیں ہندی میں شائع ہوئی۔ اس سے پہلے منٹو پر اس قدر تحقیقی کام ہندی میں نہیں ہوا تھا۔ سعادت حسن منٹو کو ہندی والوں سے متعارت کروانے میں بلراج مینرا کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن وہ انتظار حسین کو منٹو سے بڑا کہانی کار مانتے ہیں۔

بلراج مینرا ایسے زمانے میں کہانیاں لکھ رہے تھے جسے اردو میں تخلیق وفور کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔ ادب پڑھنے والوں کی تعداد بھی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی اور لکھنے والے تو اس زمانے میں کمال کے لوگ تھے اس  کے بعد کا ادبی منظر نامہ آہستہ آہستہ زوال پزیر ہوتا گیا اور آج کا زمانہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہم ایک دوسرے کو اچھے سے جاننے لگے ہیں دنیا میں کیا لکھا جا رہا ہے اس سے  باخبر ہیں مگر یہ باخبری اوپر اوپر تک ہی ہے ادب میں ڈوبنا نہ تو اب تخلیقی کار کا مسئلہ ہے اور نہ قاری کا ادب ڈوب کر لکھا نہیں جائے گا تو اسے محض تفریح کے لئے ہی پرھا جائے گا۔ معافی کے ساتھ آج ہم نے جتنی بھی ترقی کر لی ہو مگر ہمارا ادب اور زبان دن بہ دن سمٹتا جا رہا ہے جب کہ ہونا تو یہ  چاہیئے  تھا کہ ہم جدید ٹکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھا تے  مگر افسوس  ایسا ہو نہیں رہا ہے۔

           بلراج مینرا ایک ایسا  علامتی افسانہ نگار ہے جو ہماری روایتی کہانی سے بھی واقف ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں لکھے جانے والے ادب پر بھی اس کی گہری نظر ہے آپ کبھی دلی آئیں تو اس درویش سے ملئے گا ضرور کہ کس طرح ایک آدمی سراپا ادب بنا ہوا ہے جو ہر وقت ادب کی باتیں کرتا ہے جس نے اپنے چاروں اور ایک ایسی دنیا بنا رکھی ہے جو صرف اور صرف ادب کی دنیا ہے  اس دنیا کی سیر ادب کے قاری کو کرنی چایئے اسے بھی جو ادب تخلیق کرتا ہے اور اسے بھی جو ادب پڑھتا ہے۔ ممکن ہے اس میل ملاپ سے ایک ایسی دنیا اپنا وجود منوا سکے آخر ہم سب کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی تو ہے تو پڑھئے بلراج مینرا کو اور داخل ہویئے کہانی کی دنیا میں جہاں سب کچھ کم سے کم ہماری دنیا سے تو بہتر  ہی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔