بلٹ ٹرین، ضرورت نہیں عیاشی ہے!

حفیظ نعمانی

ملک کے حالات رفتہ رفتہ اتنے بگڑتے جارہے ہیں کہ اب تک جو زبانیں اس لئے تالو سے لگی تھیں کہ بی جے پی نہیں تو کون؟ اب وہ بھی تکلف اور شرم چھوڑکر یہ کہنے پر مجبور ہورہی ہیں کہ پیٹرول ڈیزل کی جو قیمت 2014 ء میں تھی بین الاقوامی بازار میں آدھی ہونے کے باوجود ہندوستان میں وہی ہے۔ اور ان کی تائید میں بولنے والے بول رہے ہیں کہ سب سے بڑے ڈاکو تو مرکزی وزیر اور صوبائی وزیر ہیں جو اپنا ٹیکس لے لیتے ہیں اور ہر لیٹر سے 38  روپئے ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ جب ملک کے حالات کمزور ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ڈیزل پیٹرول کے ٹھکانوں کو جنگ کا میدان بنایا جاتا ہے اس لئے کہ وہی جگہ ہے جہاں مڈل کلاس اور اپر کلاس کو ہر حال میں آنا پڑتا ہے۔ اور یہ ہر حکومت میں ہوا ہے کہ جب  پیٹرول مہنگا ہوا تو بیل گاڑیاں ، ٹھیلے، ٹرالی اور سائیکلوں میں بیٹھ کر احتجاج کرنے والے آئے ہیں ۔

وزیر اعظم نے اپنے تین سال میں حالات کو سنبھالنے کے بجائے شعبدے دکھائے ہیں ۔ اور اپنے ہر اقدام کو ہر مرض کا علاج بناکر پیش کیا ہے۔ وہ شروع تو ہوئے تھے 2014 ء میں کالے دھن، مہنگائی اور بے روزگاری دور کرکے اچھے دن لانے سے لیکن انہوں نے ہر قدم غلط اٹھایا اور دلوں میں نفرت کے علاوہ وہ اور کوئی کام نہ کرسکے۔

آٹھ نومبر کو نوٹ بندی کا فیصلہ اور اس کے بھیانک انجام کو دیکھ کر رو روکر یہ کہنا کہ مجھے بس 50  دن دے دو پھر نہ سنبھلا تو جس چوراہے پر چاہو سزا دے دینا وہ بچکانہ بات تھی جو صرف کہنے کی تھی۔ اور وہ جو کام کررہے ہیں اس میں ایک ڈرامہ ٹانک دیتے ہیں ۔ جو جی ایس ٹی میں کیا کہ آدھی رات کو پارلیمنٹ کے ہال میں دس فیصد کا اعلان اور وہ بھی سب کی موجودگی میں اور آج اس کی الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں اپنے کو ناکام پاکر اپنے شہر احمد آباد میں ایک گڈھا کھودکر ایک پتھر رکھ دیا کہ یہ بلٹ ٹرین کا سنگ بنیاد ہے۔ اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے جاپان کے وزیر اعظم کے ساتھ روڈشو کردیا جیسے گجرات کے الیکشن کے لئے ووٹ مانگ رہے ہیں ؟

مودی جی بھی اسی دنیا کے آدمی ہیں جس کے ہم ہیں ۔ پھر وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر ملک میں کہیں میٹرو چلنے لگے گی تو پورے ملک کا ہر آدمی خوش کیوں ہوگا؟ اس ملک میں ہر طرف ہوائی جہاز اُڑ رہے ہیں دہلی، راجستھان، لکھنؤ اور دوسرے شہروں میں میٹرو چل رہی ہے۔ ممبئی میں لوکل ٹرینیں چل رہی ہیں ان میں سفر کرنے والوں کے علاوہ کون خوش ہورہا ہے اور کیوں خوش ہو؟ مسافر ٹرین ایک ہی ہوتی ہے اس میں اے سی کوچ بھی ہوتے ہیں سلیپر بھی اور جنرل بھی۔ جو لوگ اے سی میں سفر کررہے ہیں وہ ٹھنڈی ہوا میں سو رہے ہیں اور ٹرین کے ہزاروں مسافر خوش ہونے کے بجائے انہیں گالی دے رہے ہیں ۔ وہ اس دن خوش ہوں گے جس دن پوری ٹرین اے سی ہوجائے یا پوری ٹرین  جنرل بن جائے۔

پنڈت نہرو نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ یہ نہیں دیکھا کہ غریب ملک کی غریب آبادی کے لئے چھوٹی چھوٹی صنعتیں ہوں جن میں ہر آدمی کو کام مل جائے۔ انہوں نے بڑے بڑے کارخانے لگوائے جن کی مشینوں نے آدمیوں کو بیکار کردیا اور دہلی میں بڑی بڑی عمارتیں بنوادیں جس سے غریب آدمی کٹ گیا۔ ہمارا اگر خاندان بڑا ہے تو ہمیں وہ کام کرنا چاہئے جس سے سب کو کام بھی ملے اور حصہ بھی۔ ایک بات اور ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ملک کا ہندو ہو یا مسلمان وہ اس ملک کو اپنا ملک نہیں سمجھتا نہ کسی صوبہ کو اپنا صوبہ اور نہ شہر کو اپنا شہر۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ ملک آزاد ہوا تو وہ تلوار اور بندوق کی گولی سے نہیں ہوا بلکہ ہندوئوں مسلمانوں کے بڑے لیڈروں اور انگریزوں کے درمیان سمجھوتہ سے ہوا۔ ترقی پسند تحریک بھوپال کانفرنس میں مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا کہ 15  اگست کو کوئی انقلاب نہیں ہوا ہے۔ اوپر کے طبقہ کے ہندوئوں اور مسلمانوں نے انگریزوں سے مشورہ کرکے ان کی موجودگی میں ملک کی تقسیم کرنے کا سمجھوتہ کیا۔ اس سے زندگی کا اقتصادی نظام نہیں بدلا صرف چند چہرے ضرور بدل گئے۔

ملک کی پہلی بلٹ ٹرین کو ممبئی احمد آباد کے درمیان چلاکر مودی جی صرف گجرات کا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں ۔ اگر اس کا روٹ ممبئی دہلی اور ممبئی کلکتہ ہوتا تو ملک کے لاکھوں لوگ تھے جو خوش ہوتے۔ احمد آباد کے لئے چلانے سے صرف مودی جی کی عیاشی ہوجائے گی کہ وہ احمد آباد سے ناگ پور کے دن میں دو چکر لگالیا کریں گے۔ بی جے پی کی معاون پارٹی شیوسینا کے اودھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ بلٹ غریبوں کے لئے نہیں امیروں کیلئے ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ملک کی ہر اچھی چیزوں اچھے ہوٹل ہوں اچھی سڑکیں ہوں اچھی سواریاں ہوں اچھے مکان ہوں اچھا کھانا ہو یا اچھے کپڑے سب امیروں کے لئے ہوتے ہیں غریبوں کے لئے نہ پہلے ہوتا تھا اور نہ اب جبکہ ایک چائے والے کا بیٹا وزیر اعظم ہے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ وہ ہمارے دُکھ دور کرنے کا دعویٰ کرتا ہوا آیا ہے اب وہ سب سے بڑا امیر تھا اور وہ بابا جس کے پاس دو دھوتیاں تھیں اسے اتنا بڑا کاروباری بنوا دیا ہے کہ اپنے ملک میں کسی نے تیس برس میں اتنی دولت نہ کمائی ہوگی جتنی تین برس میں بابا نے کمالی۔

مودی جی ملائم سنگھ کے اوپر اعتراض کرتے تھے کہ انہوں نے سیفئی کو پیرس بنا دیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مودی جی کی نظر کرم اب احمد آباد پر رہتی ہے چین کے صدر کو احمد آباد لے جانا اور ہر بڑے آدمی کی منزل احمد آباد۔ وہ آج اسے ملک کا ایک مرکزی شہر ضرور بنا دیں گے لیکن ان کے بعد وہ ہوگا جو رائے بریلی میں ہورہا ہے کہ اندراجی نے درجنوں پیپرمل لگوادیئے تھے اور آج بس ان کی دیواریں کھڑی ہیں یا کوڑا ہے۔

حکومت کو تو فکر ہوگی ہی لیکن ایسا اندازہ ہورہا ہے کہ اب عام آدمی نے مودی سے جو توقع کی تھی وہ اب مایوس ہونے لگے اور پہیہ جب  اُلٹا چلتا ہے تو اس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے سپریم کورٹ کو شکایت ہے کہ داغی ممبروں کے بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ ایک سال میں ان کے مقدموں کا فیصلہ کردیا جائے گا اس کے بجائے اور زیادہ داغیوں کو عہدے دیئے گئے بے روزگار اب پوری طرح مایوس ہوکر مرنے مارنے پر آمادہ ہیں ۔ ملک کے مسائل کو پٹری پر لانے سے زیادہ مودی کی دلچسپی تین طلاق اور بابری مسجد کے مقدمہ سے ہیں ۔ دو دنوں میں کتنے لوگوں نے کہا ہے کہ مودی اپنی بیوی کو دیکھیں آخر انہیں کس بات کی سزا دی ہے؟ اور اگر انہوں نے یہ غلطی کی ہے تو عوام کو معلوم ہونا چاہئے آخر یہ کون سی سزا ہے کہ تم بیوی ہو مگر نہیں ہو اور مسلمانوں کی ایک وقت میں تین طلاق کو انہوں نے ایسا مسئلہ بنالیا جیسے پورے ملک کی خوشحالی اور بدحالی کا انحصار طلاق پر ہی ہے۔

یہ بات مودی جی ہی نہیں ہر سربراہ کے اندر رہی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ اگر ہم نے کوئی بڑا کام کردیا تو پورا ملک ہمارے ساتھ ہوجائے گا۔ آج ملک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے کل مذاکرہ میں بتایا جارہا تھا کہ مودی کی منظور نظر کمپنیوں نے بینکوں سے جتنا قرض لے رکھا ہے اس کا 30  فیصدی ہی واپس آنے کی اُمید ہے جس کے نتیجے میں تین لاکھ کروڑ حکومت کو دینا پڑے گا۔ ان حالات میں بلٹ ٹرین کا شوق جس میں سوا لاکھ کروڑ روپئے دینا اور 68  ہزار کروڑ جو جاپان قرض دے گا یعنی یہ ایک چھوٹی سی عیاشی دو لاکھ کروڑ میں پوری ہوگی وہ بھی منصوبہ کے مطابق پانچ سال کے بعد۔ اور اس میں صرف وہ لوگ سفر کریں گے جن کا وقت اتنا قیمتی ہے کہ ہوائی جہاز کے سفر میں بھی وہ خراب ہوتا ہے۔ اور یہ آدمی وہ ہوں گے جنہیں دیکھنے والے اصلی بھارتی ایسے دور سے دیکھیں گے جیسے فلموں کے ہیرو اور ہیروئنوں کو دیکھتے ہوں گے۔

تین سال کی کارکردگی کے بعد کہنا پڑتا ہے کہ اگر 2019 ء میں تبدیلی نہیں ہوئی آزادی کا 75  واں جشن بھیک کی کٹوریاں ہاتھ میں لے کر منانا پڑے گا یوں بھی وہ لوگ جو 15  اگست 1947 ء کی رات کو زندہ تھے ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے وہ رات سوکر گذاری تھی کیونکہ آزادی نہیں ہونا تھی آزادی کا اعلان ہونا تھا تو لوگ جاگ کر کیا کرتے۔ اور ایسی آزادی کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے کہ مٹھی بھر آدمی بلٹ میں چلیں گے اور باقی ایک مٹھی چنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔