بند راستوں کی ایک منزل

تبسم فاطمہ

’ ہاں …یہ دے دیجئے… پیک کر دیجئے۔‘

شاپ سے باہر نکلتے ہوئے بھی مجھے احسا س ہوا، دکاندار کی نظر یں مسلسل میری طرف دیکھ رہی تھیں — میں جینس اور ٹی شرٹ میں تھی — عام طور پر باہر نکلتے ہوئے میں یہی لباس پہنتی ہوں — مجھے اپنی آزادی پیاری ہے… وہ آزادی، جسے کچھ لوگ کھونٹوں سے باندھ کر خوش ہوجاتے ہیں … ایک جانور اپنی غلامی میں یہاں آرام کر رہا ہے—بکرے بکریاں … گائے بھینس… اور جوان ہوتی لڑکی… لیکن میں جانور نہیں تھی— میں بچپن سے عجیب تھی— مجھے یاد ہے— امّی تک چھپکلی اور کاکروچ کو دیکھ کر ڈر جایا کرتی تھیں — میں باضابطہ چھپکلی کو پکڑنے کے لئے اچھل کود مچانے لگتی امی کی ڈانٹ پڑ جاتی… پاگل ہوگئی ہے— خبط سما گیا ہے— خبط ہی تو سمایا تھا… باتھ روم سے نکلی توہاتھوں میں ایک چھٹپٹاتا ہوا کاکروچ تھا— چھوٹے بھائی صمد نے زور کی چیخ ماری—

امی نے کاکروچ کو میرے ہاتھوں میں تڑپتے دیکھا تو پیٹھ پر دھپ لگاتے ہوئے کہا… پھینک دواسے—

’نہیں — پھینکوگی اسے… یہ آپ لوگوں کو پریشان کرتا ہے یہ کاکروچ—‘

’میں کہتی ہوں … پھینک دو…‘

’لیجئے… پھینک دیا…‘

میں نے ہتھیلی پھیلادی— تتلی کے پنکھ ہوتے تو تتلی اڑ چکی ہوتی مگر کاکروچ سہما سا ٹوٹے پنکھ کے ساتھ زمین پر پڑا تھا۔ بے حس اور مردہ…

تم کو کیا ہوجاتا ہے…‘ امی کی آنکھیں غور سے میری طرف دیکھ رہی تھیں — تمہیں خوف نہیں لگتا—

’نہیں —‘ میں ہنس کر کہتی— مجھے خوف میں نہیں رہنا امی…

اُس دن دوپہر کے وقت بڑی امی سے امی کو باتیں کرتے ہوئے سنا…’شبّو سے ڈر لگتا ہے— بڑی ہو کر ناک کٹائے گی… اُس کوڈر ہی نہیں لگتا— کبھی سنا ہے کوئی چھوٹی سی لڑکی چھپکلی کی پونچھ تھام لے… کاکروچ کو ہاتھوں میں لے کر نچائے— یہ لڑکی تو پاگل لگتی ہے—خدا جانے اس کا کیا ہوگا…‘

’ڈر تو بیٹھانا پڑے گا— آخر کو لڑکی ہے— اونچ نیچ سیکھنا ہے— زمانے کے طور طریقے جانتے ہیں …‘

میں بارہ سال کی تھی اور میرے لئے سمجھنا مشکل تھا کہ سب کچھ شبّو کو ہی کیوں سیکھنا ہے— صمد کو کیوں نہیں — صمد مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا— ڈرپوک… کتے، بلیوں سے ڈر جانے والا… مگر اس وقت میں یہ کہاں جانتی تھی کہ یہی ڈرپوک چہرے بعد میں مرد بننے کی کوشش میں کیسے کیسے خوفناک مکھوٹے چڑھا کر سامنے آجاتے ہیں —

میں اُسی ماحول میں پیدا ہوئی جس ماحول میں عام ہندوستانی مڈل کلاس کی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایک دن سمجھوتے کے طور پر کسی بھی کھونٹ سے باندھ دی جاتی ہیں — محلّے کی ایسی کئی لڑکیوں کو میں جانتی تھی— ریحانہ …راشدہ… سعیدہ…عظمت پڑھنے میں بھی اسمارٹ اور گفتگو میں بھی ذہین— انہیں دیکھتے ہوئے محسوس کرتی تھی ، آسمان کے چمکتے ستارے قریب آگئے ہیں — یہ ہاتھ بڑھائیں گی اور قسمت کے چاند ستاروں کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیں گی… مگر ایسا ہوتا ہے کیا؟ یہ چمکتے چاند ستارے تو لڑکوں کا مقدر ہوتے ہیں … لڑکیوں کے ہاتھ تو بچپن میں ہی زخمی کر دئے جاتے ہیں — ریحانہ ،راشدہ اور سعیدہ بھی زخمی ہاتھوں سے آسمان کیا چھوتیں ، ناپسندیدہ کھونٹ سے باندھ دی گئیں — اور پھر شادی کے ایک سال بعد ہی ان مرجھائے چہروں سے زندگی کی رونقیں اوجھل ہو چکی تھیں … میں نے کم عمری میں ہی ایک بات جان لی— رشتہ مرضی اور پسند کا نہ ہو تو نصیب کے پھول پانی دینے کے باوجود بھی کھلے کھلے نہیں رہتے— مرجھا جاتے ہیں — میں صمد کی طرف دیکھتی تھی اور حیران ہوتی تھی کہ امّاں کا سارا لاڈ پیار صمد کے حصے میں کیوں آتا تھا— اورمیرے حصے میں صرف امی کی خوفزدہ آنکھیں آئی تھیں — بہت ہوتا تو یہی آنکھیں ناراضگی بن کر مجھ پر ٹوٹ پڑتیں — ’اب بڑی ہو رہی ہے— زندگی کو سمجھنا سیکھ۔ صمد سے مقابلہ مت کر— وہ لڑکا ہے— مرد ہے…‘

مجھے اسی بات پر غصہ آتا تھا— مرد ہے تو کیا ہوا؟ ہے تو ڈرپوک… باتھ روم جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے— رات میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جاتے ہوئے خوف کھاتا ہے— مجھے پاپا کی یاد آتی تھی— پاپا بھی مرد تھے— مگر بیحد پیار کرنے والوں کا ساتھ زیادہ دنوں تک کہاں رہتا ہے— پاپا کہتے تھے— میرا اصل بیٹا تو شبو ہے— وہ ہنستے ہوئے امی کی طرف دیکھتے تھے… مجھے شبو پر ناز ہے—

نہیں معلوم ، پاپا کو شبو پر اتنا پیار کیوں آتا تھا— مگر پاپا کے انتقال تک صمد سے زیادہ اس گھر میں میری حکومت چلتی تھی— میری ہر بات سنی جاتی تھی… مجھے یاد ہے… پاپا کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی… میں نو سال کی تھی— ابّو نے مجھے خوب پیار کیا— پاس بیٹھایا— میرے ہاتھوں کو تھاما— ان کی آنکھوں میں نمی تھی… وہ آہستہ آہستہ بول رہے تھے…

’شبو … اپنے فیصلے خود لینابیٹا… جو مضبوط ہوتے ہیں وہ اپنے فیصلے خود لیتے ہیں … کمزور رہوگی تو جینا مشکل ہو جائے گا— زمین تنگ ہو جائے گی… کبھی ڈرنا مت… ایک دن تم بڑی ہو جائو گی— بچے بڑے ہو جائیں تو ماں باپ کو صرف ایک گائیڈ کے طور پر سامنے آنا چاہئے… شبو میری بات سجھ رہی ہو نا… یہاں کوئی نہیں ہے، جو تمہارے فیصلے لے سکے… تمہیں کمزور کرنے والے سو لوگ ملیں گے، تمہیں مضبوطی دینے والے ایک نہیں ہوں گے… ثابت قدم رہنا اور اپنے فیصلے خود لے نا…‘

میں اُس وقت نہیں سمجھ سکی تھی کہ آخرپاپا کہنا کیا چاہتے ہیں — مگرپاپا اپنی موت کا سراغ پا چکے تھے— اور اس کے ٹھیک پانچویں دن پاپا نے آخری ہچکی لی… اب سوچتی ہوں ، پاپا نے اُس وقت، آخری دنوں میں مجھے فیصلہ لینے کی آزادی کیوں دی تھی—؟ شاید پاپا ہوتے تو وہ صمد اور مجھ میں کوئی فرق نہیں کرتے— مگر پاپا سماج، معاشرہ، امی اور صمد کو بخوبی سمجھتے تھے— وہ جیسے ان لمحوں میں ساری دنیا کی دھوپ اور تمازت کو محسوس کر رہے تھے… وہ جانتے تھے کہ کمزور فیصلوں کی آگ میں نہ صرف میری آزادی جلے گی بلکہ یہ لوگ میرے مستقبل کو بھی تباہ کر دیں گے—

چھوٹی عمر سے ہی میں اپنے فیصلے لینے لگی… پاپا کے جانے کے بعد بکھرائو تو آیا مگر پاپا کی دعائوں کی برکت ایسی تھی کہ راستے بنتے چلے گئے— ادھر گزرتے وقت کے ساتھ تبدیلیاں بھی اس گھر کا مقدر بن رہی تھیں — صمد نے شاپ کھول لی تھی— اب وہ پرانا صمد نہیں تھا— پنج وقتہ نمازی— بڑھی ہوئی داڑھی— سر پر ٹوپی— نگاہیں نیچی کر کے گفتگو کرنا— چھوٹا ہونے کے باوجود اس کے لب ولہجہ سے غصے اور نفرت کی بو آنے لگی تھی۔ آپ کو شرم نہیں آتی۔ یہ لباس پہن کر جائیں گی…؟‘

’اس میں برا کیا ہے؟‘

’براہی برا ہے۔‘

’مہربانی۔ تم مجھے ٹوکا نہ کرو۔‘ میں صاف کہہ دیتی

لیکن امی صمد کے ساتھ تھیں ۔ امی کو بھی میرے طور طریقے پسند نہیں تھے۔ صمد کی گستاخیاں بڑھتی رہیں تو امی کی نفرت بھی جوان ہوتی رہی۔ میں انجینئرنگ کررہی تھی۔ اور میں جانتی تھی، مجھے کیا کرناہے—پاپا نے مجھے میرے فیصلوں کے لیے آزاد کردیا تھا۔ اس لیے اس دن صمد نے جب اپنا فیصلہ سنایا کہ اب آپ گھر میں رہیں ۔ تو میں زور سے چیخ پڑی۔ اتنے زور سے کہ صمد کے ساتھ امی تک ڈر کر پیچھے ہٹ گئیں ۔

میں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا—’ صمد کی اپنی زندگی ہے۔ یہ زندگی مجھے گوارہ نہیں ۔ اور نہ ہی یہ بندھی ہوئی زندگی میرا خواب ہے۔ اور آئندہ میری آزادی پر پہرہ بیٹھانے کی کوشش نہ کی جائے۔‘

میری اس چیخ کا اثر ہوا تھا۔ امی نے گفتگو کم کردی تھی۔ میرے لیے تعجب کا مقام یہ تھا کہ تعلیم حاصل کرنے والی اور گھر سے باہر جانے والی لڑکی بے شرم اور بے حیا سبھی ہوتی ہے۔ مگر لڑکے شریف رہتے ہیں ۔ لڑکی اگر جاب کرتی ہے تو تنگ ذہنیت اسکے بارے میں ہزاروں افسانے قائم کرلیتی ہے… اور مرد…؟

تب سیاست نے لو جہاد کا نعرہ نہیں دیا تھا۔ میں آپ کو اس بھیانک حادثے کے لیے تیار کررہی ہوں …

اس بیچ ملک کی سیاست میں کتنے ہی طوفان آئے اور گزر گئے۔ کتنی ہی آندھیاں آئیں اور رخصت ہوگئیں ۔ سیاست بھی مردوں کا حصہ ہے۔ عورت صرف کٹھ پتلیاں ۔ مردوں کے پیچھے نعرہ لگانے والی عورتیں — آزادی کے بعد سیاست میں کتنے ہی رنگ آئے مگر ایک رنگ قائم رہا۔ نفرت کا رنگ۔ بابری مسجد سے گودھرہ کے سنگین حالات تک یہ نفرت کبھی فرقہ وارانہ دنگوں میں تبدیل ہوجاتی اور کبھی گینگ ریپ جیسی سیاست میں مرد کا خونخوار چہرہ نظر آجاتا… مگر اس سیاست میں مذہب کے ساتھ محبت کے حسین جذبے کو بھی داغدار کیا جاسکتا ہے، یہ سوچنا میرے لیے ناممکن تھا۔ انجینئرنگ کالج میں ہی وجے کارت سے ملاقات ہوئی تھی۔ انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ مگر ہاتھوں میں دبی ہوئی لٹریچر یا پوئٹری کی کوئی بک… کبھی کسی گوشے میں کتابیں پڑھتا ہوا… اور کبھی پتھر کے اسٹچوکے پاس، جو اس کی مخصوص جگہ تھی۔ ’یہ ضرور فیل کرے گا‘۔ میرا پہلا تاثر اس کے بارے میں یہی تھا۔ مگر شاید یہ عمر ایسی ہوتی ہے جب آپ فطرت کی آغوش میں ہوتے ہیں ۔ چڑیوں کے چہچہانے سے پھولوں کے کھلنے اورادب سے شاعری تک معصوم جذبوں میں پناہ لینے لگتے ہیں ۔ وجئے کارت سے پہلی گفتگو کب ہوئی، یاد نہیں ۔ ناموں کا بھی تبادلہ ہوا تھا۔ میں نے اپنا نام بتایا تھا۔ شبانہ عارف… مگر اس کا چہرہ تاثرات سے عاری تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی گفتگو مجھے اچھی لگنے لگی… انجینئرنگ کے پہلے سال میں جب اسے نمایاں کامیابی ملی تو یہ میرے لیے حیرت کی بات تھی… وہ ملا تو میں نے سوال داغ دیا۔

’تم یہ کیسے کر گئے۔ میں تو سمجھتی تھی کہ فیل کرجائو گے۔‘

وہ زور سے ہنسا۔ ’ادب… ادب سے راستے نکلتے ہیں …‘

’وہاں بھی ادب لکھ کر چلے آئے…؟‘

اس بار وہ سنجیدہ تھا۔ زندگی کا کوئی بھی راستہ ادب سے الگ ہوکر نہیں جاتا۔ انجینئرنگ کیا ہے۔ آڑے ترچھے سوالات… نقشے… عمارتیں … برج… مال… زندگی… یہ راستہ بھی تو ادب دیتا ہے… وجے کارت نے مسکرا کر دیکھا… لیکن اس بار اس کی مسکراہٹ بھی تبدیل ہوگئی تھی…

’تم مسلمان ہو؟‘

اس نے اچانک سوال کیا تو میں چونک گئی… ہاں کیوں ؟

’شبانہ کسی ہندو کا نام کیوں نہیں ہوتا۔ جیسے وجئے کسی مسلمان کا۔ نام میں مذہب کیوں چھپا ہوتا ہے۔؟‘میں مذہب کو نہیں مانتا… سوچتا ہوں وجے کی جگہ عامر نام رکھ لوں … عامر کارت… کارت میرا خاندانی نام ہے۔ اسے بدل نہیں سکتا۔ عامر خاں مجھے پسند ہے… اس نے پلٹ کر پوچھا۔ کافی پئیں گی میرے ساتھ…؟

مجھے پہلی بار احساس ہوا، محبت اک چیخ کا نام ہے اور اس چیخ کو روکنا یادبانا آسان نہیں ۔ اس دن گھر پہنچنے میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی۔ دروازہ کھولنے والا صمد تھا، اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں …

’اب آپ نے دیر سے آنا بھی شروع کردیا۔؟‘

’موبائل میں وقت دیکھ لو… سات بج رہے ہیں ۔‘

’سات؟ سات کم ہوتے ہیں ۔ کہاں گئی تھی…؟‘

’جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی۔‘

’جواب دینا ہوگا۔‘

’میں اس بکواس کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔‘

میں اپنے کمرے میں آگئی لیکن اس دن صمد کی نگاہوں سے جن بجلیوں کو کوندتے ہوئے دیکھا، وہ بجلیاں مجھے جلا گئی تھیں ۔ اس دن میں دیر تک اپنے کمرے میں روتی رہی۔ پھر ایسا لگا۔ پاپا پاس میں کھڑے ہیں ۔ مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے آنسو خشک کیے۔ اب میں پھر سے اپنی دنیا میں لوٹ آئی تھی۔

پہلی بار وجئے کارت نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا۔ مجھے اپنے گھر والوں سے ملانا چاہتا تھا… میں نے شروع میں تو انکار کیا لیکن مجھے ایسا لگا، جیسے کارت میری باتوں سے بجھ گیا ہو۔ میرے لیے یہ فیصلہ لینا آسان نہیں تھا۔ کارت نے بتایا۔ دلی سے صرف دو ڈھائی گھنٹے کا راستہ ہے۔ وہ علاقہ ہریانہ میں پڑتا ہے… میں راضی ہوگئی تھی… مگر مجھے پتہ نہیں تھا کہ ایک خوفناک طوفان میرے تعاقب میں ہے… صبح آٹھ بجے مجھے گھر چھوڑنا تھا۔ وجے نے کہا تھا کہ ہم شام چھ بجے تک واپس آجائیں گے۔ ایڈونچر… میں ایڈونچر کی شروع سے شوقین رہی ہوں …اور یہ بھی سچ ہے کہ اس درمیان میں وجے کے بہت قریب آگئی تھی…

پہلا حادثہ تو یہی تھا کہ کار میں بیٹھتے ہوئے مجھے معز نے دیکھ لیا تھا۔ معزصمد کے گارمنٹس شاپ میں کام کرتا تھا۔ اکثر گھر بھی آجاتا تھا، میں نے موبائل بند کردیا۔ لیکن میرے چہرے کا سناٹا وجے محسوس کر گیا…

’تم پریشان ہو تو پھر پروگرام کینسل کرتے ہیں ۔‘

’نہیں ۔‘

میں خود کو سمجھارہی تھی۔ میں غلط ہی کیا کررہی ہوں ؟ میں وجے کے ساتھ کیوں نہیں جاسکتی… سیاست نے محبت کو جرم اور گناہ کیوں بنادیا ہے؟ کسی سے ملنا جرم ہے؟ دو باتیں کرنا جرم ہے؟ صدیوں کے بعد بھی ہماری آزادی گروی کیوں ہے؟

دوسرا حادثہ ٹھیک دو گھنٹے بعد پیش آیا۔ جب ہم ہریانہ کے اس کے گائوں میں داخل ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے سے وجے نے کار روک لی۔ شامنے 7۔8 نوجوان کھڑے تھے۔ انہوں نے وجے کو میرے ساتھ باہر آنے کے لیے کہا۔ میں نے وجے کا چہرہ دیکھا… اس وقت وہ ایک سرد لاش میں تبدیل ہوگیا تھا۔ میں اس وقت بھی جنس اور ٹی شرٹ میں تھی… میں سامنے ان خوفناک چہروں کو دیکھ کر دہشت زدہ تھی۔

باہر آتے ہی سوال کیا گیا۔

’کون ہے یہ…؟‘

’رینو کا… رینو کا چوہان…

’جائیے… ایک نوجوان نے اشارہ کیا…‘

وجئے نے دوبارہ ڈرائیونگ سنبھال لی… آگے جاکر اس نے کار کو بیک کرکے سڑک کی طرف موڑ دیا۔

’تم نے غلط نام کیوں بتایا۔؟‘

’ ہم واپس لوٹ رہے ہیں ۔‘

’گھر؟‘

’ارادہ بدل دیا…‘

’لیکن کیوں …؟‘

وجے کارت نے پلٹ کر میری طرف دیکھا… ’یہ لوگ جان گئے ہوتے کہ تم مسلمان ہو تو پھر جانے نہیں دیتے۔‘

’کیوں ؟‘

’وہ کہتے۔ اس کا شدھی کرن کرو۔ شادی کرو اورہندو بنائو۔‘

میں چونک گئی تھی… لیکن کیوں ؟‘

وجئے کی آواز سرد تھی… ’لوجہاد… اس گائوں میں ایسے دو حادثے ہوچکے… دونوں لڑکیاں ہندو تھیں اورلڑکے مسلمان… میں بھول گیاتھا…ساری…‘

اچانک وجئے زور سے چیخا… ان میں ایک لڑکے کو مار دیا گیا… کیوں پوچھ کر محبت کرنی چاہئے۔ کہ تم ہندو یا مسلمان؟ دلوں پر ہندو یا مسلمان کیوں نہیں لکھا ہوتا۔ پیدا کرنے والا بھگوان پیدا ہوتے ہی بچے کی پیشانی پر ہندو اور مسلمان لکھ کر کیوں نہیں بھیجتا…‘

وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ میں نے جھوٹ بولا… میں شرمندہ ہوں … ہم آج کے بعد نہیں ملیں گے… میرے اندر ہمت نہیں تھی کہ سچ بول کر ان ۷۔۸ لوگوں سے تمہیں محفوظ رکھ سکوں …وہ بہت آہستہ سے بولا… آنے والے وقت میں مذہب ہوگا… محبت نہیں ہوگی…‘

ایک آندھی گزر چکی تھی۔ لیکن دوسری آندھی ابھی باقی تھی۔ میں سارے راستہ روتی آئی تھی۔ گھر پہنچنے سے پہلے تک میں نے حواس پر قپاپا تو پا لیا لیکن میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں ۔ گھر کے دروازے پرقدم رکھتے ہی میں چونک گئی۔ مجھے احساس نہیں تھا کہ مذہب میں تشدد بھی شامل ہوسکتا ہے۔ مذہب کا ایک چہرہ میں نے وہاں دیکھا تھا۔ اور ایک خوفناک چہرہ یہاں ۔ مجھے دیکھتے ہی صمد نے مجھ پر ہاتھ اٹھادیا تھا۔

’وہ لڑکاہندو تھا… تم ایک ہندو لڑکے سے ملنے گئی تھی…؟‘

’ہندو ہونا جرم ہے؟‘ میں زور سے چیخی…

 مجھے اس حملے کی امید نہیں تھی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے، اس سے پہلے کہ وہ مغلظات پر آکر میری روح کو شرمندہ کرتا، میں کچن سے سبزیاں کاٹنے والا چاقو لے آئی تھی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹا… میں غصے میں چیخ رہی تھی۔

’کاٹ ڈالوں گی…‘

’میری بات سنو…‘ صمد خوفزدہ سا پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اس کی آواز کمزور تھی… کیا وہ لڑکا مسلمان ہوسکتا ہے؟‘

’نہیں ۔‘

’کیوں …؟‘

’مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے… دوستی اورمحبت میں فرق ہے۔ عام دنوں میں بھی ہم ہزاروں لوگوں سے ملتے ہیں … لیکن سب سے شادی کے بارے میں نہیں سوچتے…

صمد خوفزدہ تھا… ’معز بتا رہاتھا…‘

’میں معز کو نہیں جانتی… میں اس وقت تم کو بھی نہیں جانتی…‘ میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔

امی سہم کرپیچھے ہٹ گئی…

میرے چہرے سے شعلے اٹھ رہے تھے…میں کانپ رہی تھی… ’مجھ پر ہاتھ اٹھایا تم نے۔ بڑی بہن پر… صمد خوفزدہ ہوکرمیری طرف دیکھ رہا تھا…  میں کہتے کہتے رک گئی… میں نے امی کی طرف دیکھا… پاپا نے مرنے سے پہلے مجھے میرے فیصلوں کے لیے آزادی کا حکم دیا تھا… مجھ پر کوئی پہرہ بیٹھانے کی کوشش نہ کیجئے گا۔‘

’ میں اپنے کمرے میں آگئی۔ ذہن میں تیز آندھیاں چل رہی تھیں … محبت کے محافظ دونوں دھرموں کے لوگ تھے… میں ہنس رہی تھی… مذہب کے محافظ اور ٹھیکیداروں نے محبت کی رسم بھی ختم کردی… یہ وہی لوگ ہین جو ویلن ٹائن ڈے پر پہرہ بیٹھاتے ہیں اور محبت کے نام پر انسانوں کو ذبح کرتے ہیں …

مجھے لگا، میں اپنے ہی گھر میں انجان ہوں ۔ ایک اجنبی لڑکی۔ مجھے احساس ہوا، پنکھ نکلتے ہی لڑکیاں اپنے ہی آشیانے میں اجنبی بنادی جاتی ہیں ۔ کیا میں امی کو پہچانتی ہوں …؟ مجھے یقین ہے، امی کے اس نئے چہرے سے میری کوئی انسیت، کوئی شناسائی نہیں ہے۔ کیا میں صمد کو جانتی ہوں ؟ بچپن میں صمد کے ساتھ گزارے گئے شرارتی لمحوں کی یاد آنکھوں میں نمی لے آئی۔ لیکن میں اس بھائی سے واقف نہیں … میں ان رشتوں میں کہاں ہوں …؟ میں خود سے سوال کررہی تھی۔ شبّو، میں ان رشتوں میں کہیں ہوں بھی یا نہیں ؟ کیا یہ گھر میرا ہے؟

میں نے نظریں اٹھائیں … اس کمرے میں سفیدی ہوئے زمانہ گزر چکا تھا۔ کئی جگہوں کی… پٹپریاں اجھڑ چکی تھیں … چھت سے جھانکتے پنکھے کی تیلیاں سیاہ پڑ گئی تھیں … میں نے دیوار کی طرف غور سے دیکھا… کبھی کبھی سفیدی جھڑنے سے دیواروں میں کچھ جان انجانی شکلیں نمودار ہوجاتی ہیں ۔ میں کھڑکی کے قریب والی دیوار کی طرف دیکھ رہی ہوں … وہاں ایک شکل نمایاں ہورہی ہے… اچانک چونک جاتی ہوں … چہرے تبدیل ہورہے ہیں … میں ان سب کو پہچان گئی ہوں … وہ ۷۔۸ لوگ جو ہماری گاڑی کو گھیر کر کھڑے ہوگئے تھے۔ مذہب کے محافظ… جو میرا شدھی کرن کرنا چاہتے تھے۔ ایک بھائی جو مذہبی رسوائی کے ڈر سے اس لڑکے کو مسلمان کرنا چاہتا تھا۔ اور ایک دوست، جس نے خاموشی سے اس ماحول میں اپنی ہار تسلیم کر لی تھی۔ اور ان سے الگ میں ہوں … سیاست مذہب سے محبت تک آگئی ہے… میں گھٹن محسوس کررہی ہوں …

اوراچانک میں چونک گئی ہوں … دیوار میں ایک نیا چہرہ ہے۔

میں غور سے دیکھتی ہوں …کوئی لڑکی ہے… میں ایک بار پھر غور سے دیکھتی ہوں … نہیں ایک چھوٹی سی بچی ہے… دیوار کی سفیدی میں دفن… یا بدرنگ دیوارمیں اچانک ایک چہرہ پیدا ہوگیا… میں اچانک چونک گئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس چہرے نے اپنی چھب دکھائی تھی۔ میری آنکھیں اس جگہ مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں … نہیں میرا وہم ہے… نہیں … اس بچی کا چہرہ ابھرا تھا…

میں غورسے دیوار کی طرف دیکھ رہی ہوں … اب وہ چہرہ نہیں ہے… وہ چہرہ غائب ہے…

میں ہار نہیں ماننے والی… مجھے ایک کھیل مل گیا ہے۔ کھڑکی کے باہر سے اسٹریٹ لائٹ کی روشنی کمرے تک آرہی ہے۔ میں نے کھڑکی پر پردے برابر کردیئے… آگے بڑھ کر لائٹ آف کردی… پردوں سے چھن کر دھیمی دھیمی روشنی کا عکس دیوار پر پڑرہا ہے… سارے راستے بند ہیں … کمرہ تاریکی میں ڈوب چکا ہے…

میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی… دیوار کی طرف بڑھتی ہوں … اوراچانک ٹھہر جاتی ہوں ۔

تبصرے بند ہیں۔