بنیادی تعلیم کی خستہ حالی: سب سے بڑے سروے کا سچ

مظفر حسین غزالی

بھارت کی بڑی آبادی گاؤں میں رہتی ہے، جہاں آزادی کے ستر سال بعد بھی عام طور پر بنیادی سہولیات کی کمی پائی جاتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کی حالت اور زیادہ خراب ہے۔ اس کا اندازہ رضاکار تنظیم پرتھم کے ساتھ مل کر اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (اسر) کی جنوری میں آئی سروے رپورٹ سے ہوتا ہے۔ یہ دیہی بھارت کے اسکولوں میں بچوں کے اندراج اور ان کی تعلیمی ترقی پر کیا جانے والا سب سے بڑا سروے ہے۔ اس میں ملک کی چوبیس ریاستوں میں 28 اضلاع کے 1641 گاؤں کے 25 ہزار گھروں میں رہنے والے تیس ہزار سے زیادہ 14سے 18سال کے نوجوانوں کو شریک کیا گیا تھا۔ سروے کے نتائج انتہائی چونکانے والے ہیں۔

یہ رپورٹ نہ صرف ابتدائی تعلیم کی بد حالی کو بیاں کرتی ہے بلکہ تعلیمی نظام میں پائی جانے والی بنیادی خامیوں اور اس کے گرتے معیار کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ اس نے پالیسی سازوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ سروے سے جو تصویر سامنے آئی ہے اس کے مطابق چودھ فیصد نوجوانوں کو بھارت کے نقشہ کی صحیح معلومات نہیں ہے، جبکہ اکیس فیصد اپنے صوبہ کا نام نہیں بتا پائے۔ چھتیس فیصد کو اپنے ملک کی راجدھانی کا علم نہیں اور ساٹھ فیصد کمپیوٹر، انٹرنیٹ سے لا علم ہیں۔ سروے میں نوجوانوں سے عام معلومات، ریاضی اور روزمرہ کی زندگی سے جڑے سوال بھی پوچھے گئے تھے۔ ان کے جواب میں 25 فیصد اپنی زبان میں ایک آسان سبق کو روانی کے ساتھ نہیں پڑھ سکے جبکہ آدھے سے زیادہ نوجوان ایسے تھے جنہیں ضرب، تقسیم میں دشواری پیش آئی۔ کیا یہ تعلیمی وشوگرو بننے کا خواب پورا کر پائے گی ؟

ابتدائی تعلیم ملک کے تعلیمی نظام کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس کو درست کئے بغیر مڈل اور اعلیٰ تعلیم کے روشن مستقبل کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی تعلیم کو معیاری بنا کر ہی ملک اور عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے گاندھی جی نے ملک میں ابتدائی تعلیم کا تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے 1937 میں وردھا کی آل انڈیا تعلیمی کانفرنس میں ’ نئی تعلیم‘ کے نام سے ابتدائی تعلیم کا مکمل خاکہ شرکاء کے سامنے رکھا تھا جسے بعد میں ’بنیادی تعلیم‘ اور’وردھا یوجنا‘ کہا گیا۔ انہوں نے بچوں کو پورے ملک میں بنیادی تعلیم مفت اور لازمی طور پر دینے کی وکالت کی تھی۔ وہ معیاری تعلیم مادری زبان میں دیئے جانے کے حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم روزگار دینے والی ہونی چاہئے۔ گاندھی جی کی مفت اور لازمی تعلیم کی تجویز پر سرکار نے 2009 میں تعلیم کا حق (آر ٹی ای) قانون بنا کر کیا۔ اس کے تحت چھ سے چودہ سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کے آئینی نظام کو نافذ کیا گیا۔

حق تعلیم قانون تو نافذ ہو گیا لیکن بچوں کو اسکول سے جوڑنے اور اساتذہ کی خالی آسامیوں کو بھرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ہندی روزنامہ جن ستا میں شائع سدھیر کمار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اب بھی نو لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہے۔ کئی ریاستوں میں استادوں کی تقرریاں اٹکی ہوئی ہیں، جنہیں بھرنے میں صوبائی سرکاریں ڈھل مل رویہ اپناتی رہی ہیں۔ ان کی جگہ شکچھا متروں (تعلیم دوست) اور عارضی استادوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ انہیں بھی وقت پر اعزازیہ نہیں دیا جاتا۔ اس کی وجہ سے اکثر ان کے احتجاج اور مظاہرے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ سرکار نے طلبہ اور اساتذہ کا تناسب 1:40 کا مقرر کیا ہوا ہے، لیکن کئی اسکولوں میں یہ تناسب انتہائی تشویشناک ہے۔ کہیں ضرورت بھر کے اساتذہ نہیں ہیں تو کہیں طلبہ کی تعداد ہی کم ہے۔ وقت پر طلبہ و اساتذہ کا اسکول نہ پہنچنا اور اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں میں لگانا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ نجی اسکول آر ٹی ای سے مستثنیٰ ہیں یا پھر وہ قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔

تعلیم کے بازاری کرن سے گلی محلے میں کھلے نجی اسکول اور سرکار کی غفلت کی وجہ سے بنیادی تعلیم لگا تار حاشیہ پر جا رہی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی اور لکھائی پڑھائی کے معیار میں گراوٹ کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کیلئے نجی اور کانوینٹ اسکولوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سرکاری اسکولوں کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج انہیں کمزور اور محروم طبقات کے بچوں کے پڑھنے کی جگہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کم آمدنی والے لوگ بھی اپنے بچوں کو نجی اسکول میں بھیجنا بہتر سمجھتے ہیں۔ مفت کتابیں، وظیفہ اور مڈ ڈے میل(دوپہر کا کھانا) بھی بچوں کو اسکول میں روک کر رکھنے میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ جانچکرنے پر معلوم ہوا کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھائی کا ماحول نہیں ہے۔ اس کی وجہ اسکول کے اساتذہ کا لکھائی پڑھائی پر دھیان نہ دینا، بچوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا، ان کی حوصلہ شکنی کرنا اور بچوں کے والدین کے کاموں کے حوالے سے مثلاً کوئی رکشہ چلانے والے کا، مزدور کا، میکینک کا، میسن کا یا کسی چھوٹے موٹے کام کرنے والے کا بچہ ہے تو اس سے اس کے باپ کے کام کا نام لے کر کہا جاتا ہے کہ تجھے بڑے ہو کر یہی کرنا ہے تو پڑھ لکھ کر کیا کرے گا اور انہیں بے عزت کرنا ہے۔ کئی اسکولوں میں تو اساتذہ بچوں کے ساتھ گالم گلوچ کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں۔ استادوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے بچے ان کی عزت نہیں کرتے۔ اسکولوں میں لڑکیوں کیلئے الگ بیت الخلا نہ ہونے یا بری حالت میں ہونے کی وجہ سے لڑکیاں وہاں جانے سے کتراتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں اسکول چھوڑنے والے طلبہ کی دنوں دن بڑھ رہی تعداد بھی تشویشناک ہے۔

سرکاری اسکول تمام طرح کی سرکاری مدد اور ٹیچنگ ایڈ کے باوجود اپنی چمک کھوتے جا رہے ہیں۔ ان میں بدعنوانی کی شکایتیں بھی جابجا سامنے آتی رہتی ہیں۔ حاشیہ پر زندگی گزار رہے لوگوں کے بچوں کی اسکول میں گھٹ رہی تعداد بھی پالیسی سازوں کا سر درد بنی ہوئی ہے۔ سرکار کی کوشش کے باوجود معیاری تعلیم بچوں کی پہنچ سے کوسوں دور ہے جبکہ بھارت کی بڑی دیہی آبادی انہیں سرکاری اسکولوں پر منحصر ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم کی بحالی کیلئے غیر معمولی تجویز پیش کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ سرکاری ملازمین، افسران، سیاستدان اور نوکر شاہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں تو ان کی حالت سدھر سکتی ہے۔ در اصل تعلیم سرکاری و غیر سرکاری زمروں میں بٹ گئی ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے، وہ اچھی تعلیم خرید سکتا ہے۔ اس تفریق سے سماج دو حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ اور امیر غریب کا فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس کی فکر کسے ہے، جن کے ذمہ اسکولوں کے رکھ رکھاؤ، تعلیم کے معیار اور انتظام کی جانچ کرنا ہے وہ اپنی ذمہ داری ٹھیک سے نہیں نبھاتے، انہیں اس سے بھی سروکار نہیں کہ اساتذہ روز اسکول آتے ہیں یا نہیں، آتے ہیں تو کیا پڑھاتے ہیں اور بچے کتنا سمجھ پاتے ہیں۔ سرکار کی ترجیحات میں تعلیم سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔ اسر کی رپورٹ سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔

بھارت اپنے تعلیمی نظام پر جی ڈی پی کا 3.83 فیصد خرچ کرتا ہے، جبکہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں یہ حصہ داری بالترتیب 5.22، 5.72 اور 4.95 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کے مقررہ پیمانے کے مطابق ہر ملک کو اپنی تعلیم پر جی ڈی پی کا چھ فیصد خرچ کرنا چاہئے۔ ملک کے تعلیم میں سدھار کیلئے ایس ڈی کوٹھاری کی صدارت میں 1964 میں بنے کوٹھاری کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں ملک کی کل آمدنی کا چھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کی سفارش کی تھی۔ ایسوچیم کی رپورٹ کہتی ہے کہ بھارت اگر اپنے موجودہ تعلیمی نظام میں بڑی اور اثر کن تبدیلیاں نہیں کرتا تو ترقی یافتہ ممالک کی برابری کرنے میں اسے چھ نسلیں یعنی سواسو سال لگ جائیں گے۔ بنیادی تعلیم کو معیاری اور بہتر بنانے کیلئے ملک کے تعلیمی نظام میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے ساتھ سرکار کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ سب کیلئے یکساں بنیادی تعلیم لازمی ہو جائے تو اس کے نتائج جلد برآمد ہونے کا امکان ہے۔

تبصرے بند ہیں۔