نہ نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے

ڈاکٹر سلیم خان

معروف حدیث کا درمیانی ٹکڑا ہے ’’اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی بھی عبادت مجھے اس عبادت سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے‘‘۔ اس حدیث فرض عبادات کی روح  تقرب الٰہی کی سعی بتائی گئی ہے۔ فرض عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں تقریباً ۷۰۰  مرتبہ اس کا ذکر ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ  بندہ اپنی روح کو پاک صاف کرنے کے لیے اپنے رب کے حضور حاضر ہو اور اس کا جسم ناپاک ہو۔ جسمانی نجاست سے پاک جسم کے لیے نماز کی اولین شرط وضو ہے۔  نبی رحمت ؐ نے فرمایا ’’جب کوئی مومن وضو کرتا ہے اور جس وقت چہرہ دھوتا ہے تو جیسے ہی چہرہ سے پانی گرتا ہے، یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کیے تھے۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو جیسے ہی ہاتھوں سے پانی کے قطرے گرتے ہیں یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے ہاتھوں سے کیے تھے اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو جیسے ہی اس کے پاؤں سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنے پاؤں سے کیے تھے، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘

ایک مرتبہ میں وضو کرنے کے لیے بیٹھا تو ایک ضروری فون آگیا۔  نماز کے لیے کافی وقت تھا اور آس پاس کئی نلکے خالی تھے۔ میں موبائل نکال کر بات کرنے جارہا تھاکہ ایک شخص نے نہایت کرخت انداز میں ڈانٹ دیا۔ وضو کرتے ہوئے بات کرنا  حدیث میں منع ہے اس سے نیکیاں جھڑ جاتی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے درمیان یہ  اہانت آمیز رویہ   مجھے بہت برا لگا۔  میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا وہ  صاحب من گھڑت بات کو حدیث سمجھ رہے تھے۔ یہ حدیث بھی میری نظروں سے گزری کہ  حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ  موزے اتارنے کے لئے جھکے تو  نبی کریم ﷺنے فرمایا ! انہیں چھوڑ دو میں نے جب انہیں پہنا تھا اس وقت میں وضو سے تھا، ، پھر آپ ؐ نے ان پر مسح کر لیا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی  کریم ؐ نے  دوران وضو کلام کیا۔ میں نے سوچا کسی دن موقع ملا تو اس بزرگ کو دیکھ لوں گا۔

ایک مرتبہ نماز جمعہ میں مجھے تاخیر ہوگئی۔ خطرہ تھا کہ خطبۂ ثانی شروع ہوچکا ہوگا لیکن مسجد میں پہنچا تو امام صاحب کی تقریر جاری تھی۔ مسجد میں لوگ وضوگاہ کے قریب  تک صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا  پانی کا نلکا کھلا ہوا ہےدونوجوان باتیں کررہے ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں بولا یہ پانی کا بہنا دکھائی نہیں دیتا۔ ان دونوں نے فوراً نل بند کردیئے مگر بات چیت جاری رہی۔ میرے علاوہ اور بھی لوگ وضو کے منتظر تھے۔ ایک شخص جھنجھلا کر بولا جلدی ہاتھ چلاو۔ بات بعد میں کرلینا۔ میرا وضو ہوگیا مگر تقریر ختم نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا چلو سنت پڑھ لیتے ہیں۔ نماز کے دوران دو اور لوگ وضو کرتے ہوئے کھسر پسر کرنے لگے۔ میری نماز میں دوہرا خلل پڑ رہا تھا۔ ایک تو تقریر اور دوسرے  وہ بات چیت۔ نماز کے بعد اس شخص کا خیال آیا جس نے مجھے ڈانٹا   تھا۔ میں نے سوچا اس کی بات درست تو نہیں مگر غلط بھی نہیں تھی۔ اب میرا نقطۂ نظر بدل گیا اور میں اسے مختلف زاویہ سے دیکھنے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ جو لوگ وضو کرتے ہوئے باتیں کرتے ہیں کیا وہ بھی اس حدیث کی بشارت کے مستحق ہوں گے ’’ قیامت کے دن تم اس حال میں اٹھو گے کہ تمہارا چہرہ اور ہاتھ، پاؤں وضو کرنے کی وجہ سے سفید اور چمک رہے ہوں گے، لہٰذا جو شخص تم میں سے طاقت رکھتا ہو وہ اپنے ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کی سفیدی اور چمک کو زیادہ کرے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔