آہ! گوپال داس نیرج

ڈاکٹر خالد مبشر

ایک تو یوں ہی یہ دیش انسانوں سے خالی ہوتا جارہا ہے، آپ بھی چل بسے.

آپ کتنے ٹھیٹھ آدمی تھے:

بس یہی اپرادھ میں ہربار کرتا ہوں

آدمی ہوں، آدمی سے پیار کرتا ہوں

آپ کو بڑھتے تشدد پہ کتنا غصہ آتا تھا:

پھول بن کر جو جیا ہے، وہ یہاں مسلا گیا

زیست کو فولاد کے سانچے میں ڈھلنا چاہیے

آپ سچے بھکتی بھاؤ کے سنت تھے:

جتنا کم سامان رہے گا

اتنا سفر آسان رہے گا

آپ کتنی سادگی سے اتنے انمول موتی رولتے تھے:

اس سے ملنا ناممکن ہے

جب تک خود کا دھیان رہے گا

آپ نے کتنی بیباکی سے مذہبی چولے میں ڈھونگ اور پاکھنڈ کے ساتھ دھرم کے نام پہ انسانیت کے خون کی گنگا بہانے والوں کو ننگا کیا ہے:

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے

جس میں انسان کو انسان بنایا جائے 

جس میں مذہب کے ہر اک روگ کا لکھا ہے علاج

وہ کتاب ہم نے کسی رند کے گھر دیکھی ہے

آپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی چکاچوند میں آتما کے نور کو دھندلاتے دیکھ کر  کس کرب کا اظہار کیا ہے:

چاند کو چھوکے چلے آئے ہیں وگیان کے پنکھ

دیکھنا یہ ہے کہ انسان کہاں تک پہنچے

آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اخلاق ایک داخلی اور باطنی نور ہے، خارج سے اس کو اپنے اندر درآمد نہیں کیا جاسکتا:

میرے ہونٹوں پہ دعا اس کی زباں پر گالی

جس کے اندر جو چھپا تھا وہی باہر نکلا

آپ کو اصلی بادشاہ اور اصلی بھکاری کا فرق بھی معلوم تھا:

روکھی روٹی بھی سدا بانٹ کے جس نے کھائی

وہ بھکاری تو شہنشاہوں سے بڑھ کر نکلا

آپ کو ہندوستان کے لٹ جانے کا درد ہی نہیں تھا بلکہ آپ ان لٹیروں کواچھی طرح پہچانتے بھی تھے:

جیوں لوٹ لیں کہار ہی دلہن کی پالکی

حالت یہی ہے آج کل ہندوستان کی

آہ گوپال داس نیرج!

 آپ جیسے اچھے اور سچے شاعر بہت یاد رہیں گے. آپ نے باکل ٹھیک کہا تھا:

جب چلے جائیں گے ہم لوٹ کے ساون کی طرح

یاد آئیں گے پرتھم پیار کے چمبن کی طرح

تبصرے بند ہیں۔