انسان اور زمین کی حکومت (قسط 52)

رستم علی خان

چنانچہ وہ لوگ حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں پنہچے اور کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ طوفان ہم پر تمہارے جادو کی وجہ سے آیا ہوا ہے پس ہم پر سے اسے ہٹا دو- تب جناب موسی نے فرمایا کہ یہ ہرگز کوئی جادو نہیں بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ایک آفت ہے جو تمہارے ظلم و ستم اور کفر و شرک کی وجہ سے نازل ہوئی ہے- تب انہوں نے کہا اے موسی آپ اپنے رب سے دعا کریں جیسا کہ اس نے آپ کو سکھایا ہے- پس اگر آپ ہمیں اس عذاب سے نجات دلائیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ پر ناصرف ایمان لائیں گے بلکہ قوم بنی اسرائیل کو بھی آپ کے ساتھ بھیج دیں گے-

تب حضرت موسی علیہ السلام نے ان کے اس عہد کے بعد اللہ سے دعا کی تو اللہ کے حکم سے بارشیں اور طوفان تھم گیا- نیل بھی اپنے کناروں پر واپس ہوا- بعد اس کے جناب موسی علیہ السلام نے انہیں ان کا عہد یاد دلایا تو انہوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے کہا اے موسی یہ سب تمہارے جادو کی وجہ سے تھا اور تم تو بہت بڑے جادوگر ہو- پس یہ جو طوفان تھما ہے یہ تمہاری دعا سے نہیں بلکہ یہ تو ہم پر ہمارے خداوں کی مہربانی سے ہوا کہ ہمیں تمہارے جادو سے نجات دلائی-

چنانچہ جب فرعون اور اس کی قوم نے بجائے ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کے الٹا عہد شکنی کی اور نبی اللہ پر جادوگر ہونے کا الزام بھی لگایا- تب اللہ تعالی نے سرکشوں پر قحط کی آفت نازل فرمائی- بارشیں ہونا بند ہو گئیں اور بارشوں کے نا ہونے کی وجہ سے ان کے باغات سوکھ گئے، ان کی فصلیں اور کھیت برباد ہونے لگے- بھوک پیاس اور طرح طرح کی بیماریوں سے لوگ اور جانور مرنے لگے-

تب لوگ دوڑے ہوئے فرعون کے پاس گئے اور گریہ زاری کرنے لگے کہ اس آفت سے نجات کا راستہ نکالے-

تب فرعون نے سرائے خانے بنائے اور لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام وہاں خوب ہوتا- کچھ عرصہ تک تو ایسے ہی چلتا رہا لیکن جب شاہی خزانے بھی خالی ہونے لگے تو تنگ آکر فرعون نے وہ طعام داری تمام بند کی- لوگوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے یہ آفت بھی ہم پر موسی کی بددعا سے ہی آئی ہوئی ہے- چونکہ ہم نے پچھلی بات میں اس سے عہد شکنی کی تھی- تب فرعون نے کہا کہ دوبارہ موسی کے پاس جاو اور دعا کرواو- تب وہ لوگ دوبارہ حضرت موسی کی خدمت میں پنہچے اور دعا کی فریاد کی- اور وہی تمام باتیں اور وعدے دہرائے جو پہلے کر چکے تھے- پس جناب موسی نے دعا کی تو اللہ کے فضل سے بارش خوب ہوئی اور سارے مصر میں خوب بارش برسی جس سے قحط جاتا رہا- زراعت خوب ہوئی اور ہر چیز میں تازگی اور خوشحالی لوٹ آئی- پھر جب جناب موسی نے انہیں کا وعدہ یاد دلایا تو پھر سے اپنی بات سے مکر گئے اور کہا کہ یہ سب تو ہمارے بتوں کی وجہ سے ہے-

چنانچہ جب قحط دور ہوا اور وہ لوگ اپنی بات سے مکر گئے اور کہا یہ خوشحالی تو ہمارا بت ہمیں ہر سال دیتا ہے اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہے- چنانچہ اللہ تعالی نے ان پر ٹڈیوں کی آفت نازل کی- جھنڈ کے جھنڈ ٹڈیوں کے آسمان سے اترے اور ان کی ساری فصلیں اور کھیت برباد کر گئیں- سبزیاں تمام خراب کر دیں اور لوگوں کے کپڑے تک کاٹ دئیے- الغرض اس آفت سے پریشان ہو کر پھر سے حضرت موسی کی خدمت میں پنہچے اور دعا کے لیے کہا- اور ہر بار آفت ٹل جانے کے بعد اپنی بات سے مکر جاتے اور کہتے کہ یہ سب موسی کے جادو سے ہے وہ کوئی رسول نہیں-

بعد اس عذاب کے ان پر چیچڑیوں (جووں) کی آفت اتری- وہ چیچڑیا ان لوگوں کے سروں اور سارے جسموں میں پڑ گئیں اور تمام مال مویشیوں کو بھی پڑ گئیں- ان کے کاٹنے سے ان لوگوں کے جسموں پر اور سروں میں زخم ہونے لگے- اور ایک بار پھر حضرت موسی سے دعا کی فریاد کی-

اس آفت سے نجات پانے کے بعد بھی جب منکر ہوئے اور ایمان قبول نہ کیا تو اللہ تعالی نے ان پر مینڈکوں کی آفت نازل کی۔ پس جب دوبارہ سے منکر ہوئے اپنی بات سے اور عہد شکنی کی رسول اللہ سے تب ان پر مینڈکوں کا عذاب نازل ہوا- اور مینڈک اس قدر ہوئے کہ ان کے کھانے پینے کے برتنوں میں اور بستروں میں اور کپڑوں وغیرہ میں- غرض ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک نظر آتے اور کوئی جگہ ان کے اٹھنے بیٹھنے تک کو باقی نہ رہی- اور اگر ایک مینڈک کو مارتے تو بدلے ایک کے دس اور پیدا ہو جاتے- تب وہ عاجز آئے اس آفت سے اور جا کر فرعون سے کہا ہم موسی کی ان آفتوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں- ایک بلا ٹلتی نہیں کہ دوسری پیدا ہو جاتی ہے-

تب فرعون نے کہا کہ تم نہ ڈرو یہ سب موسی کے جادو کی وجہ سے ہے- پس اب کی بار بھی موسی کے پاس جاو اور اس سے وہی عہد دہراو کہ اگر اس آفت سے نجات دلائے گا تو ہم اس کی بات پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو اس کے ساتھ بیجھجے کی اجازت دیں گے-

چنانچہ قوم کے چند سردار حضرت موسی کلیم اللہ کی خدمت میں پنہچے اور دوبارہ فریاد کی اور عہد و پیمان باندھے- تب آپ نے اللہ سے دعا کی تو پانی آیا اور تمام مینڈکوں کو بہا لے گیا- اور ان کو اس آفت سے نجات ملی- پھر جب حضرت موسی نے انہیں ان کا عہد نبھانے کو کہا تو ہمیشہ کی طرح پھر اپنی بات سے مکر گئے- اور کہنے لگے یہ پانی تو دراصل ہمارے بتوں نے ہماری نجات کے لیے بھیجا تم تو صرف ایک جادوگر ہو-

تب آپ نے دوبارہ دربار الہی میں مناجات کی کہ الہی یہ نہیں مانتے تو انہیں دوبارہ آفت میں مبتلا فرما- تب اللہ کے حکم سے تمام پانی ان کا خون بن گیا- تمام ندی نالے اور دریا کا پانی لہو ہوا- اور جو پانی گھروں میں استمعال کے لیے رکھا تھا وہ بھی سارا خون ہوا- بنی اسرائیل جب پانی کو استمعال کرتے تو وہ پانی ہوتا- لیکن قبطیوں کے لیے وہ پانی خون بن جاتا- تب ظالم لوگ بھوک پیاس سے مرنے والے ہو گئے- اور فرعون سے جا کر پھر سے شکایت کی- کہنے لگے ہم عاجز آ گئے موسی کی سحر سازیوں سے- ہمارا تمام پانی خون بن گیا ہے نا خود پی سکتے ہیں نہ استمعال کر سکتے ہیں- نہ اپنے مال مویشیوں کو ہی پلا سکتے ہیں اور ہر چیز پیاس سے مری جاتی ہے- اور بنی اسرائیل کا پانی پانی ہے جب کہ ہمارا لہو- تب فرعون نے کہا تم بنی اسرائیل والوں کے برتنوں سے لیکر پانی استمعال کرو- چنانچہ جب ان لوگوں نے ان برتنوں سے پانی لیا تب پھر پانی لہو ہو گیا- یہاں تک کہ جس برتن سے پانی لینا چاہتے لہو بن جاتا- جب بنی اسرائیل والے پیتے تو پانی ہوتا- پھر کہا کہ بنی اسرائیل والوں کے منہ سے لیکر استمعال کرو- جب ایسا کرنا چاہا تب بھی جب تک بنی اسرائیل والوں کے منہ میں ہوتا پانی رہتا جیسے ہی فرعون کی قوم لیتی تو خون بن جاتا اور رنگ اور ذائقہ بدل جاتا اور کسی طرح پانی استمعال نہ کر پاتے-

تب بھی ملعون کو حق بات کی سمجھ نہ آئی اور نہ ہدایت پکڑی بلکہ سرکشوں کی طرح کہا کہ بس کچھ دن اور صبر کر لو ہم موسی کا کام تمام کئیے دیں گے- ابھی موسی کے پاس جاو اور پھر سے اس بلا سے نکلنے کی دعا کرنے کو کہو- چنانچہ وہ لوگ پھر سے گئے اور ویسا ہی کیا جیسا وہ کرتے آ رہے تھے اور وہ سدھرنے والے ہر گز نہ تھے-

اور آخری آفت جو اللہ کی طرف سے اس ظالم قوم پر نازل ہوئی وہ طمس کی تھی- یعنی ان کی ہر چیز جو ضروریات زندگی کی تھی سب پتھر کی ہو گئی- درہم دینار سے لیکر ان کے میوے اور پھل سبزیاں، فصلیں ہر چیز پتھر کی ہو گئی- یہاں تک کہ اگر مرغی انڈا دیتی تو وہ بھی زمین پر گرتے ہی پتھر کا ہو جاتا- الغرض جب ان کو کھانے پینے کے لالے پڑے- کچھ سامان کھانے کا نہ بچا- بلکہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے وہی پتھر ہوتی- تب پھر دوڑے حضرت موسی کے پاس اور گریہ و فریاد کرنے لگے کہ ہمیں اس بلا سے نجات دلا دیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائیں گے- تب حضرت موسی نے دعا کی تو ہر چیز جیسی پہلے تھی ویسی ہی ہوئی- اور وہ ہر بار ایسا ہی کرتے جب کوئی آفت نازل ہوتی تو دوڑے حضرت موسی کے پاس جاتے اور عہد و پیمان باندھ لیتے- اور جب آفت ٹل جاتی تو اپنی بات سے پھر جاتے اور ہرگز ایمان نہ لاتے اور حضرت موسی کو جادوگر ٹھہراتے-

چنانچہ جب ان پر یہ نو علامتیں اول عصا، دوسرا ید بیضاء، تیسرا طوفانی بارشیں، چوتھا قحط، پانچواں ٹڈیاں، چھٹا چیچڑیاں، ساتواں مینڈک، اور آٹھواں لہو، اور نواں طمس، پوری ہو چکیں اور پھر بھی ایمان نہ لائے اور بار بار وعدہ شکن ہوئے- اور جناب موسی اور بنی اسرائیل کو نقصان پنہچانے کے در پہ ہوئے تو رب تعالی کی طرف سے حضرت موسی پر وحی نازل ہوئی کہ آپ راتوں رات اپنی قوم کو لیکر یہاں سے نکل جائیں- اور دریا کے کنارے جا کر ٹھہر رہیں- اور کسی کو آپ کے جانے کے بارے خبر نہ ہونے پاوے- پھر آپ کو آپ کی قوم کے ساتھ سلامتی سے دریا پار کروا دوں گا اور فرعون اور اس کے لشکر کو پانی میں ڈبو کر ماروں گا- تب تم اور تمہاری قوم ان کے ظلم اور شر سے مکمل نجات پاو گے۔

تبصرے بند ہیں۔