بودِ تاباں

بنت امین

"ک۔۔ کہاں۔۔ گ۔۔ ئ۔۔”
اسنے ساری دراز چھانٹ لی۔ مگر وہ گولی کہیں نہیں ملیں۔

"یہیں تو رکھی تھی صبح!”

اسکا دل کیا اپنے بال نوچ لے۔ اار اسنے یہی کیا۔ اسکے سیاہ ریشم بال جو کھل کر اسکے کاندھوں پر بکھڑے ہوئے تھے۔ اسکی

انگلیوں میں پڑ کر اور الجھ گئے۔

"کیا کروں۔۔۔ کہاں جاؤں۔۔ "

وہ بے چینی سے اپنے آس پاس دیکھنے لگی مگر اسے کوئ مناسب جگہ سمجھ نہ آئ جہاں وہ اپنا کام سر انجام دے سکتی۔

"ہاں۔۔ پنکھا!”

اسکے دماغ میں شیطانی خیال آتے ہی اسنے اسکی پیروی کرنے کی سوچی۔ اور بیڈ پر کرسی رکھ کر وہ پنکھے پر رسی ڈالنے لگی۔

مسلسل دس منٹ کی جوڑ توڑ  کوشش کے بعد، بل آئر رسی پنکھے پر لٹک ہی گئ۔

"آہ اب ہوجائے گا! "

یہ کہتے وقت۔۔ اسکے چہرے کہ چمک دیکھنے لائق تھی۔

اسنے جلدی سے رسی اپنے گلے میں ڈالی اور کرسی پر چڑھ کر کرسی کو لات مار دی۔

اس وقت۔۔۔ رات کا پہلا پہر شروع ہوا تھا۔

اک دھرام کی آواز سے سارا ماحوم گھوم گیا۔

کرسی تو پلنگ سے نیچے گری ہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ خود بھی گر گئ تھی۔۔۔۔

اف۔۔۔ اسکی کمر۔۔۔

رسی نے اسکا وزن برداشت ہی نہیں کیا۔۔۔

"دفعہ دور!”

زمین پر گڑے ہوئے ہی اسنے اپنی کمر کو سہلایا جس پر بہت زور سے کرسی لگی تھی۔ رسی کا آدھا حصہ ٹوٹ کر اسکے گلے میں پھندا بنا پڑا تھا۔

"ذرا سا وزن برداشت نہ ہوا تجھ سے!”
اسنے بےزاریت سے چھت پر ہلتے ہوئے پنکھے کو دیکھا۔ اس کو رونا آرہا تھا۔ وہ کیا کرے۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔

"افف! مجھے یہ خیال پہلے کیوں نہ آیا!
تب ہی۔۔۔ اچانک۔۔۔ شیطان نے تیسرا کام سکھایا۔۔۔
اور وہ۔۔۔ اُس طرف چل پڑی۔۔۔

"اف۔۔۔ کیسے ہوگا مجھسے۔۔۔! ”
منظر بلاشبہ خوبصورت تھا۔۔۔
نیوی بلو آسمان پر۔۔ جابجا چمکتے تاروں کے بیچ اک آدھا چاند۔۔ مسکرا رہا تھا۔۔۔ ہوا میں ہلکی ہلکی مٹی کی خوشبوں پھیلی ہوئ تھی۔۔۔ ایسا لگتا تھا۔۔ جیسے شبنم برس کر بند ہوگئ ہو۔

اسکے سیاہ رشمی بال۔۔۔ کھلے ہوئے فضا میں پرواز کر رہے تھے۔۔۔
مگر۔۔ وہ اس وقت  یہ سب دیکھنے نہیں آئ تھی۔۔۔
وہ تو۔۔۔ وہ تو۔۔۔ یہاں سے۔۔ اس پچسوئ فلور کی بیلکونی سے چھلانگ مارنے ائ تھی۔۔۔
اف۔۔ اسکی ہمت تو دیکھو۔۔۔ کتنی” بہادر ” تھی وہ؟۔۔۔

بہت دیر تک سوچنے کے بعد۔۔۔ اسنے اپنا پہلا قدم الیمونیم گرل پر رکھا۔۔۔
پھر دوسرا۔۔۔
قریب تھا کے وہ نیچے لڑھک جاتی۔۔۔
مگر۔۔۔ اسے چکر ہی تو آگیا۔۔۔
اور۔۔۔
پھر اسے ہونش نہیں رہا۔۔۔
آنکھیں تریکی میں جانے لگی تھیں۔۔۔
ہر طرف خاموشی پھیلنے لگی تھی۔۔۔
ایسا لگتا تھا۔۔۔ جیسے۔۔۔
جیسے اسے کسی نے بہت گہرے  پانی میں ڈبو دیا ہو۔۔۔
جہاں سے نکلنا چاہے بھی۔۔ تو نہ نکل سکے۔۔۔
اف۔۔۔ اسکی سانس۔۔۔۔
جیسے ہو ہی نہیں۔۔۔
ہوا ساکت ہوگئ ہو۔۔۔
یہ سکونت۔۔۔۔ نہیں تھی۔۔۔
یہ تو۔۔ دہشت والے ہو کا عالم تھا۔۔۔

اچانک اسکی آنکھیں کھل گئ۔۔۔
مگر یہ کیا۔۔۔
یہاں تو کچھ تھا ہی نہیں جو وہ دیکھتی۔۔۔
نہ نیلگو آسمان۔۔۔ نہ چرند پرند۔۔ نہ تنگ و روپ۔۔۔ نو مہک نہ وہ چاند۔۔۔ تارے۔۔۔ نہ وہ پھول۔۔۔
اف۔۔۔ یہاں کتنا اندھیرا تھا۔۔۔
کالی سیاہ۔۔۔
جانےطیہ رات تھا یا دن۔۔۔
مگر سیاہ تھا۔۔ دہشت ناک۔۔۔

"کوئ ہے۔۔۔۔۔ م۔۔ میری مدد کرو”اس خاموش سناٹے میں  اسنے  نجانے کس کو پکارا؟۔۔۔
اسنے اپنے بے جان وجود کو لیے اٹھنے  کی ہمت کی۔
وہ اٹھ تو گئ۔۔۔
مگر وہاں کوئ نہیں تھا۔۔۔
وہ مر گئ تھی؟
یا زندہ تھی؟
اسے کچھ خبر نہیں تھی۔۔۔
وہ جاننا چاہتی تھی۔۔ کہ وہ کہاں ہے۔۔۔

وہ اسی آسناں میں اس سیاہی والی جگہ میں اپنے قدم آگے برھاتی گئ۔
وہ چلتی گئ۔۔۔ دور دور تک کوئ نہیں تھا۔۔۔ نہ آواز۔۔ نہ شور۔۔ نہ اک کرن۔۔۔

اسکو رونا آیا۔۔۔ بہت چیخ چیخ کر رونا آیا۔۔۔
مگر آواز۔۔۔ جیسے گھٹ رہی ہو اندر۔۔۔

وہ بولنا چاہتی تھی۔۔۔ امی۔۔ بابا۔۔۔ بھائ۔۔ بہن۔۔۔دوست۔۔۔یار سبکو۔۔۔ وہ سبکو آواز دے کر بولنا  چاہتی تھی۔۔ کہ پلیز۔۔۔ کوئ ہے۔۔ جو مجھے اس اندھیری نگری سے باہر لے جائے۔۔۔ مجھے پھر سے اسی دنیا میں لے چلوں جہاں اسنے جلد بازی میں وہ کام کردیا۔۔۔ جسکے لیے اب وہ شدید ترین پچھتا رہی تھی۔۔۔ مگر یہاں۔۔۔
اسکی آواز سننے والا کوئ نہیں تھا۔۔۔

وہ بین کرنے لگی۔۔۔ بے آواز بین۔۔۔
کیسا لگتا ہے۔۔۔ سب کچھ مل جانے کے باوجود کچھ نہ ملنا؟ وہ یہی تو چاہتی تھی۔۔۔ کہ اسکی اُس دنیا کے جھمیلوں سے جان چھوٹ جائے۔۔۔ اسے خودکشی آسان لگی تھی۔۔۔ اسنے وہی کرڈالی۔۔۔ مگر۔۔۔ اب اس ازیت سے بچنے کہ لیے وہ کیا کرے؟ اب تو خودکشی کا چانس بھی نہیں؟ اب تو مر کر جان نہیں چھڑا سکتی؟ اب کیا کرے گی؟ کیسے حساب دے گی۔۔۔۔ اگر اللہ نے مانگا۔۔۔

یہ خیال ہی تھا۔۔۔ کہ اک ہلکی سی کرن  دور بہت دور نظر آئ۔۔۔۔

"آؤ۔۔۔ قریں آؤ۔۔۔”
اسے ایسا لگا۔۔۔ جیسے  پیاسے کو پانی کا کنواں دکھ گیا ہو۔۔۔ اندھے کو روشنی ملنے لگی ہو۔۔۔ بھٹکے ہوئے کو راہ دی جارہی ہو۔۔۔۔ وہ دوڑی دوڑی اس نور کے قریب جانے لگی۔۔۔

"یا اللہ! یہ کیا!”
وہ جیسے ہی قریب پہنچی۔۔۔۔
دنگ رہ گئ۔۔۔
اتنا لمبا انسان۔۔۔۔
اسکے سمانے اسی کا جسم پڑا تھا۔۔۔
سویا ہوا جسم۔۔۔۔
مگر۔۔۔  اسکی جسمت اتنی بلند تو کبھی نہ تھی۔۔۔
یہ تو اسی بلنڈگ جتنا بڑا دکھائ دے رہا تھا۔۔۔
وہ بے سدھ پڑا ہوا تھا۔۔۔ اور روشنی اسکے اسکے قریب سے اٹھ رہی تھی۔۔۔
وہ اپنے ہی مردہ وجود کے قریب گئ۔۔۔
یہ کیا۔۔۔
اسکے دل کی جگہ یہاں دروازہ تھا۔۔۔ جہاں سے تیز روشنی باہر پھوٹ رہی تھی۔
اسنے بڑھ کر آگے قدم بڑھا دیے۔۔۔۔
دروازے کو ہلکی سے چھوا۔۔ تو وہ کھلتا ہی چلا گیا۔۔۔
وہ اندر قدم رکھنے لگی۔۔۔۔
اسے آواز آئ۔۔۔۔ ” آؤ اور قریں آؤ”
اسے نہیں پتہ یہ آواز کس کی تھی۔۔۔
وہ اور آگے بڑھ نے لگی۔۔۔۔
یہ کیا۔۔۔
یہاں تو بہت سے کمرے بنے تھے۔۔۔۔
اسنے آگے بڑھ کر پہلے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔
اندر کا منظر عجیب تھا۔۔۔۔
جگہ جگہ پر بے شمار بو دار لعنشیں ایک کے اوپر ایک لگی پڑی تھی۔ وہ سب آگ میں جھلس رہی تھیں۔ مگر اس جلنے سے انکے جسم خراب نہیں ہورہے تھے۔ بلکہ اسی کمرے کی دیواریں سیاہ ہورہی تھیں۔ وہ حیران ہوگئ۔

"یہ کیا ہے۔۔۔ یہ کانسی جگہ ہے”
اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔
اسے  غائبانہ جواب ملا۔۔۔ ” یہ تمہارے دل کا وہ کمرہ ہے جہاں حسد رہتا تھا”

وہ شرمندہ ہوگی۔۔۔۔ وہ دیکھ چکی تھی۔۔۔ اس آگ سے صرف اسکی اپنی ہی دیواریں سیاہ ہورہی تھیں۔۔۔  اور بو پیدا کر رہی تھیں۔۔۔ ورنہ اس جلنے سے لوگ تو محفوظ تھے۔۔۔۔

"آؤ۔۔ اور قریں آؤ”
آواز  پھر ابھری۔۔۔ اس بار اسے دوسرے کمرے میں بلایا گیا۔۔۔ نہ جانے دکھانے والا کیا دکھانا چاہتا تھا۔؟۔۔

یہ کمرہ پہلے کمرے کے مقابلے کچھ اور سیاہ تھا۔۔۔
اسنے آہستہ سے دروازہ کھولا۔۔۔
وہ چیخ اٹھی۔۔۔۔
سامنے ہی خون اور گوشت اور پیپ کی نہر بہہ رہی تھی”
” اسے کھانا پسند کروگی؟ "

یہ آواز اسے کیا کہنا چاہتی تھی؟
” ن۔۔ ننہیں۔۔۔ کبھی۔۔ ننہیں۔۔۔۔۔ ”
اسنے اپنے منہ پر دونوں ہاتھ ایسے رکھ دیے جیسے زبردستی کھلادے گا اسے کوئ۔۔۔۔۔

” ی۔۔ یہ کیا ہے! ”
اسنے چیخ کر پوچھا۔ ۔۔۔

” یہ تمہارا وہ کمرہ ہے جہاں تم نے غیبت کو پروان چڑھایا ہے”

اسی طرح۔۔۔ اس نا معلوم آواز نے۔۔۔ اسے ہر کمرہ دکھایا۔۔۔۔
جہاں ایک سے بڑھ کر ایک۔۔۔
بُڑائ تھی۔۔۔ گناہ تھا۔۔۔ سیاہی تھی۔۔۔۔
بس اس نے ابھی تک وہ اک کمرہ نہیں دکھایا تھا۔۔۔
جہاں سے روشنی نے شمار ہھوٹ رہی تھی۔۔۔۔
اور یہی روشنی اسکے لیے دور کی کرن ثابت ہوئ تھی۔۔۔

” یا اللہ۔۔۔ م۔۔ مجھے معاف کردے۔۔۔۔”
وہ زارو قطار رونے لگی۔۔۔۔
اسکی چیخو پکار گونجنے لگی۔۔۔۔
اسے لگا اسے معافی اب نہ ملے گی۔۔۔۔
اسے لگا اکے لیے توبہ کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔۔۔۔
کیونکہ وہ تو زبردستی خودکشی کر چکی تھی۔۔۔
اب توبہ کس منہ سے کرےگی؟ اب کیسے اللہ کو راضی کرےگی؟

مولائے کل۔۔ 
کردیگا توں۔۔ جو اک نظر
سارے گناہ۔۔ جائنگے۔۔۔ دھل۔۔ 
اے۔۔ مولائے۔۔ کل۔۔ 

” وہ کمرہ دیکھنا چاہوگی؟”
آواز پھر آئ۔۔۔۔

"نننہیں۔۔۔۔”
اسنے زاروقطار روتے ہوئے انکار کردیا۔۔۔ وہ اور سیاہ اعمال نہیں دیکھنا چاہتی تھی اپنے۔۔۔۔۔ وہ پہلے ہی شرم کے اُس مقام پر تھی۔۔۔۔ جہاں موت بھی نہیں آسکتی۔۔۔۔
اور جیا بھی نہیں جاسکتا۔۔۔۔

"آؤ۔۔۔ قریں آؤ۔۔۔۔ ”
آواز اس بار پھر اسے بلانے لگی۔۔۔
اسنے ناچار قدم بڑھا دیے۔۔۔۔

دروازے کے قریب پہنچ کر اسنے دروازہ دھکیلا۔۔۔
اندر اتنی تیز روشنی تھی۔۔۔ کہ اسکی آنکھیں چندھیا گئ۔

یہ کیا۔۔۔!
اندر تو  ہر طرف خوشبوں مہک رہی تھی۔۔۔
اتنا پر سکون مقام۔۔۔ اتنا  منور  کمرہ۔۔۔۔ اسکے اندر؟ کہاں سے آیا۔۔۔ وہ سوچ میں پڑ گئ۔۔۔

وہ اور اندر گئ۔۔۔
سامنے اک کانچ نما شیلف تھا۔۔۔
جسکے اندر۔۔۔ قرآن رکھا ہوا تھا۔۔۔ اور ساری روشنی ہی یہاں سے پھوٹ رہی تھی۔۔۔۔

اسی کے آس پاس۔۔۔ اتنے سارے معوصوم بچے  ادھر اودھر  سفید نورانی لباس پہنے  بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔۔۔
کوئ وضو کر رہا تھا۔۔۔  کوئ نماز پڑھ رہا  تھا۔۔ کوئ ذکر اللہ کر رہا تھا۔۔۔  اور کچھ بچے۔۔۔ بیمار پڑے تھے۔۔۔۔

اسکا دل چاہا وہ یہاں سے کبھی نہ جائے۔۔۔

"یہ کمرہ پتا ہے کونسا کمرہ ہے”
آواز پھر اسکے قریب سے ابھری۔۔۔۔
اسنے کہا "کونسا۔۔۔”

جواب آیا۔۔۔ ” یہ” بودِ تاباں” وہ  کمرہ ہے۔۔ جہاں تمہارا ایمان بستا ہے۔۔ جہاں تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرتی ہو۔۔۔  تم جب جب کوئ نیکی کرتی رہی ہو وہ سب اس کمرے کا نور بنتی رہی ہیں۔۔۔۔  اور یہ بچے۔۔۔ یہ وہ نیکیاں ہیں۔۔۔ جو  تمنے کی تھیں۔۔۔۔۔  مگر جب سے تم نے شیطان کی  سننا شروع کی۔۔۔ اور اپنے رب سے نا امید ہو کر حرام کو گلے لگایا۔۔۔ یہ نیکیاں کمزور پڑ گئ۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔ یہ بچے بیمار ہوگئے ہیں۔۔۔ "

” اب۔۔۔ کیا۔۔۔ ہوگا۔۔۔ ”
اسنے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔

” اب تمہیں ہی انکو بچانا ہوگا مرنے سے۔۔۔ اس کمرے کو سیاہ ہونے سے روک لو۔۔۔۔   اب بھی امید باقی ہے۔۔۔ ”
آواز ابھری۔۔۔

” وہ کیسے۔۔۔؟ ”
اسنے پھر سوال کیا۔

” جاؤ۔۔۔ اپنے رب سے قریب ہوجاؤ۔۔۔
جاؤ نماز کی پاند ہوجاؤ۔۔۔
جاؤ اپنے رب کو راضی کرنے میں لگ جاؤ۔۔۔
جاؤ۔۔۔ حرام چھوڑ کر حلال اپنالو۔ ۔۔
جاؤ!۔۔۔۔۔ جاؤ!۔۔۔۔۔۔ جاؤوووووو!! "

یہ آواز اتنی تیز تھی۔۔۔۔
وہ پھر گنودگی میں چلی گئ۔۔

” اف۔۔۔ میں کہاں ہوں”
اسنے اپنے سر کی کنپٹی ہو دبایا۔
اسے پتا نہیں چلا اسے کیا ہوا تھا۔۔۔
یہ کیا۔۔۔
وہ تو ابھی تک اسی بیلکونی کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔
تو کیا۔۔۔۔ وہ حرام موت مرنے سے بچ گئ تھی؟
” یا اللہ! تیرا بے حساب شکر ہے۔۔۔ توں نے مجھے بچا لیا!”
وہ رات کہ اس پہر۔ ۔۔ اس آسمان کو دیکھے گئ۔۔۔ جسکے سایہ تلے اللہ نے اسے توبہ کا وقت دے دیا تھا۔۔۔۔
بندہ کیوں اس وقت کو زایع کردیتا کے؟۔۔۔

وہ زاروقطار رونے لگی۔۔۔۔
اور اسی وقت اٹھ کر  نماز شکرانہ پڑھنے چلے گئ۔۔۔۔
بس۔۔۔ بہت کرلیا گناہ۔۔۔ بہت بھرلی خود میں سیاہی۔۔۔
اب نور کو  روشن کرنا تھا۔۔۔
” بودِ تاباں”۔ ۔ ” نورانی وجود "۔ ۔۔
کا اک راز۔۔۔۔ وہ جان آئ تھی۔۔۔۔
اسے اب اسی سمت جانا تھا۔
جو سمت۔۔ اسے اللہ کی رحمت سے۔۔۔
اسکے ضمیر نے اس تک پہنچائ تھی۔۔۔۔
وہ تو جانے لگی تھی۔۔۔۔
مگر۔۔۔
اب۔۔۔ آپ بھی۔۔ سوچیے۔۔۔۔
کس سمت۔۔۔
جارہے ہیں آپ؟

ختم شد 

تبصرے بند ہیں۔