بَن پھول

سالک جمیل براڑ

دن بھر آگ برسانے کے بعد سورج آرام کی جستجو میں پچھم کی طرف کوچ کررہا تھا۔ ایسے میں پنجاب کرکٹ اکیڈمی کے گراؤنڈ میں لگے نیٹس میں لڑکے پریکٹس کررہے تھے۔ کچھ بالنگ توکچھ بیٹنگ کررہے تھے۔ اسی بیچ ایک بلیک مرسڈی مین گیٹ سے ہوتے ہوئے گراؤنڈ میں آکر رکی۔ اورکوچ ہری ہرن اس میں سے نمودار ہوئے۔ سبھی لڑکے ایک دم حرکت میں آگئے۔ وہ وارم اپ ہونے کے لیے۔ ایکسرسائزکرتے ہوئے ان کی طرف چل دیئے اور جاتے ہی پریکٹس کررہے لڑکوں کو ڈاٹنا شروع کردیا۔

’’کیسے کھیل رہے ہو، قدموں کا ذرا بھی استعمال نہیں کررہے رمیش تم بیٹھے ہی رہتے ہو ……اوروکرم تمہیں گپیں ہانکنے کے سواکوئی کام ہے۔ اگرکچھ نہیں سیکھنا تو آرام سے گھر جاؤ کیوں ؟پیسہ اور وقت بربادکررہے ہو۔ ‘‘

سرکندھے میں درد ہو رہاہے۔ ‘‘رمیش نے بہانابناتے ہوئے کہا۔

’’ٹانگوں میں تونہیں جاؤ گراؤنڈ کے دس چکڑلگاؤ اقبال تمہاری یہ لگاتارتیسری ہاف پچ گیندتھی۔ ‘‘ان کے لہجے میں سختی تھی۔ بلیک ٹریک سوٹ جس میں سفید پٹیاں ایسے لگ رہی تھیں۔ جیسے افریقہ کے گھنے جنگلوں میں پگڈنڈیاں، سفیدسپورٹ شوزکلین شیو، سرپرچمکتی ہوئی میچ، ہلکا گندی رنگ، لمبا قد، چوڑی چھاتی اور گودام نما پیٹ، گرج دارآواز، کل ملاکراچھی پرسنیلٹی۔ ‘‘

کشن اب کیسی طبیعت ہے بھاگ پتی کی؟

 ’’جی ٹھیک ہیں‘‘

’’ڈاکٹرنے بیماری کے بارے میں کیابتایاہے؟‘‘

’’جی……وہ رپورٹ میں تو کچھ نہیں آیا……ہاں ……ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ کمزوری ہے۔ نیٹ سے گیندیں اٹھاکر بالرکو پکڑا رہے مالی کے لڑکے کشن سے کوچ صاحب نے بھاگ پتی مالی کی کی خیریت پوچھی۔ سولہ سالہ کشن، لمباقد، سانولی رنگت، دبلا پتلا جسم، سفید پاجامہ اور سفیدٹی شرٹ پہنے ہوئے کرکٹ کاجنون کی حدتک شوقین سکول سے چھٹی کے بعد سیدھاپنجاب سٹیٹ کرکٹ اکیڈمی پہنچتا، بھاگ پتی بھی اس کے یہاں آنے سے خوش تھا۔ کیونکہ کشن کے یہاں آنے سے اسے بھی کئی فائدے تھے۔ ایک تووہ کوچ صاحب اور دوسرے افسروں کے چھوٹے موٹے کام کردیتاتھا۔ جس سے بھاگ پتی کوان سے خوب شاباشی ملتی تھی۔ پریکٹس کررہے لڑکوں کو پانی پلادیتا اور نیٹ میں سے گیندیں اٹھاکرپکڑاتا رہتاتھا۔ شام کوبھاگ پتی کادن بھرکااکھٹّا کیاہواگھاس پھوس اور لکڑیوں کے ٹکڑے سائیکل پررکھ کر گھرلے جاتا تھا۔ اِس طرح کشن اکیڈمی کاکچھ نہ ہوکر بھی اہم جُز تھا۔

’’کم آن بوائز’’کوچ ہری ہرن نے پریکٹس کررہے لڑکوں کوپکارا۔ کچھ ہی منٹوں میں سبھی لڑکے کوچ صاحب کے سامنے بیٹھے تھے۔ جیسا کہ سبھی کو معلوم ہی ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم بھارت کے دورے پرآرہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پتہ ہوگا۔ کہ پہلا ٹیسٹ موہالی کے گراؤنڈ پر کھیلا جائے گا۔ یہ سیریرز15جون سے شروع ہوگی۔

’’سر……وہ……میچ دیکھنے کے لیے پاس کا انتظام‘‘ رمیش نے پوچھا۔ ‘‘

ہاں ہاں، کیوں نہیں اچھّا……پہلے میری بات سنو اب جوبات میں بتانے والا ہوں۔ تم سب سن کر خوشی سے پاگل ہوجاؤ گے۔ ہمارے لیے بڑے فخرکی بات ہے۔ کہ بھارتی کرکٹ آف بورڈنے ہمیں اس قابل سمجھا ہے۔ اگلے ہفتے سے بھارت کے بیس(20) کھلاڑیوں کاایک کیمپ ہماری اکیڈمی میں لگایاجارہاہے۔ اس گروپ میں سے چودہ ممبری ٹیم چنی جائے گی۔

آسٹریلیا کی ٹیم ہرلحاظ سے مضبوط، ہرماحول میں ڈھل جانے والی ہے۔ بھارتی بورڈ چاہتاہے کہ بھارتی کھلاڑی پنجاب کے اس گرم ماحول میں پوری طرح ڈھل جائیں۔ تاکہ کم سے کم گھرمیں بلّی شیرکی کہاوت کوتوبرقرار رکھاجائے۔ اس گروپ کے ساتھ بورڈ کے سبھی عہدیدار کوچ، مینجراورسلیکٹر آرہے ہیں توبچو! ایک مشکل امتحان کے لیے تیارہوجاؤ۔ موقعہ ہے کچھ کردکھانے کا، کچھ سیکھنے کا اورسلیکٹروں کی نظرمیں آنے کا۔ ‘‘

’’توسرکیاہم بھی ان کے ساتھ پریکٹس؟‘‘اقبال نے حیران ہوکرپوچھا۔

’’کیوں نہیں کیاتم کھلاڑی نہیں ہو؟ ارے یارہم بھی تو رانجی ٹرافی وجیتا ہیں۔ اِس گروپ میں کئی کھلاڑی توایسے ہیں جورانجی ٹرافی میں تمہارے مقابل تھے۔ دیکھوبوائز!کرکٹ ہمارے دیش کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل ہے۔ یہ کہتے ہوئے میری چھاتی چوڑی ہوجاتی ہے کہ ہمارے دیش کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے۔ مگر افسوس ایک ارب آباد ی والادیش آج تک ایک بھی فاسٹ بالرپیدانہیں کرسکا۔ کیاہمارے ملک میں شعیب اختربریٹ لی، مارشل اور وسیم اکرم جیسے گیند باز پیدانہیں ہوتے۔ جن کانام سن کراچھّے اچھّے بلے بازکانپ اٹھتے ہیں۔ سوری! میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیاتھا۔ ہاں توتمہارے پاس موقع ہے سنہری موقع اسے ہاتھ سے نہ جانے دو……‘‘

’’ہاں رمیش تم تونہیں کھیلوگے۔ ‘‘

’’کیوں سر؟‘‘

’’وہ تمہارے کندھے میں درد……‘‘

’’نہیں سرمیں بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ توذراسا درد……‘‘رمیش نے اپنابازوگھما کر دکھاتے ہوئے بولا۔

بس پھرکیاتھا۔ اگلے ہی دن سے اکیڈمی کی صفائی اورسجاوٹ شروع ہوگئی۔ پرانی پچوں کی مرمت کرائی گئی۔ نئے نیٹ لگائے گئے گراؤنڈ کے چاروں طرف نئی تاریں لگائیں، گھاس کی خوب اچھی طرح کٹائی ہوئی اورسوکھے ہوئے پودوں کی کٹنگ کی گئی، نئے پودے لگائے گئے۔ اسی طرح ایک ہفتہ بیت گیا۔ سبھی عہدیدار کھلاڑیوں کے گروپ کے ساتھ پہنچ چکے تھے۔ صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے۔ گراؤنڈ میں کئی نیٹ لگے ہوئے تھے۔ گراؤنڈ کے ایک طرف کھلاڑیوں کی کٹیں بکھری پڑی تھیں۔ ہرنیٹ میں ایک کھلاڑی بیٹنگ کررہاتھا۔ دوسری طرف سے چارچار بالربالنگ کررہے تھے۔ انڈین کوچ باربارکھلاڑیوں کوسمجھارہاتھا۔ کشن ہمیشہ کی طرح اپنے کا م میں مصروف تھا۔

کسی کو ڈرنک، کسی کو بیٹ، گلوزوغیرہ پکڑارہاتھا۔ تقریباً تین گھنٹوں سے لگاتار پریکٹس چل رہی تھی۔ اکیڈمی کے سبھی لڑکے تھک کرچور ہوچکے تھے۔ خاص طورپر بالراب سبھی گراؤنڈ کے ایک طرف پڑے سستا رہے تھے۔

’’یاراقبال! واقعی بہت مہان کھلاڑی ہے دیکھو ابھی تک تازہ دم ہے۔ ہم میں سے اسے کوئی بھی کلین بولڈ نہیں کرسکا۔ ’’رمیش کے لہجے میں افسوس تھا۔ کشن ابھی بھی اپنے کام میں لگا ہواتھا۔

’’سر‘‘کشن نے بوتل مہمان بلے بازایس۔ آر۔ ٹی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ انہوں نے ڈرنک کے دوتین گھونٹ پئیے اور اپنے منہ پرچھینٹے ڈال کرکشن کے کندھے سے ٹاول کھینچا اور منہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ ‘‘

’’کیانام ہے تمہارا‘‘

’’جی………کشن‘‘

’’تمہیں کھیلنا آتاہے؟‘‘

’’جی بس یوں ہی‘‘

’’بیٹنگ کرتے ہویابالنگ؟‘‘

’’جی کبھی کبھی بالنگ کرلیتاہوں۔ ‘‘

’’جاؤ پھربالنگ کراؤ‘‘

’’جی میں ……آپ کو بالنگ……نہیں ……نہیں ‘‘

’’کشن اگرتم کرسکتے ہوتوبالنگ کروSRT صاحب کا حکم تومانناپڑے گا۔ ‘‘کوچ ہری ہرن جوپاس ہی کھڑے تھے۔ کشن کی طرف گیند اچھالتے ہوئے بولے۔

کشن نے ایک دو گیندیں گھماکرکوچ صاحب کے پاس پھینکیں۔ شایدوہ وارم اپ ہونا چاہتاتھا۔ اب وہ سٹمپس سے لگ بھگ 20 قدم دورتھا۔ اس نے خوب اچھی طرح سے گیند کو اپنی پتلون سے رگڑااورآہستہ آہستہ سٹمپس کی طرف بھاگنے لگا۔ دوسری طرف بلے بازاتنا لمبا رن اپ دیکھ کر کھڑامسکرارہاتھا اب وہ بالکل سٹمپس کے قریب آچکاتھا۔ اس نے ایک لمبا جمپ لیااور تیزی سے گیند SRT کی طرف پھینکی۔ ابSRTکھڑاپھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی سٹمپ توکبھی کشن کے چہرے کی طرف، جو گھبرایاہوا کھڑاتھا۔ کوچنگ سینٹرکے لڑکے اورکوچ ہری ہرن دور پڑی درمیانی وکٹ کوآنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے جسے کشن نے پہلی ہی گیند میں اکھاڑدیاتھا۔

تبصرے بند ہیں۔