بچوں کی تعلیم اور مادری زبان

 مادری زبان ہی ایسی زبان ہے جسے سیکھنے کے لیے کسی استاذ کی ضرورت نہیں ہوتی اور روانی سے بولنے کے لیے مشق نہیں کرنی پڑتی۔یہ ایسی زبان ہے جس کے ذریعے انسان اپنے مافی الضمیر کو بہت آسانی کے ساتھ دوسروں تک پہنچا سکتا ہے اور مرسل الیہ تک پیغام کی ترسیل میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی نہیں ہوتی اگر مرسل الیہ کی بھی مادری زبان وہی ہے جس میں پیغام بھیجا گیا ہے۔

ایک بچہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو وہ مادری زبان میں ہی بولتا ہے کیونکہ دو سال تک اس نے اپنے آس پاس کے ماحول میں وہی زبان سنی اور سمجھی ہوتی ہے اور اسی زبان میں اس کا سن شعور پروان چڑھتا ہے۔ اس کے ذہن اور حافظے میں مادری زبان کے ذخیرہ الفاظ جمع ہوتے رہتے ہیں اور جملوں کی ساخت سے شناسائی ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا جب وہ اپنی بات بول کر لفظوں کے سہارے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تویہ مادری زبان ہی اس کا ذریعہ اظہار ہوتی ہے اور زندگی کے آخری لمحوں تک یہ زبان اس کے ساتھ ہوتی ہے۔

بچے جب بولنے لگیں،  باتوں کو سمجھنے لگیں،  تمیز کرنے کی صلاحیت ان کے اندر پیدا ہوجائے اور اچھے اور برے کا فرق سمجھانے پر سمجھنے لگیں تو اس کے بعد اگلا قدم ان کی تعلیم کا ہوتا ہے۔ گویا کہ تین یا چار سال کی عمر میں بچوں کی باقاعدہ تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔ ابتدائی سطح پر بچوں کے سامنے مادری زبان کے حروف سے شناسائی، اس کی قرأت او رلکھنے کی مشق کے مراحل آتے ہیں اور اس میں انھیں کسی استاذ کی ضرورت ہوتی ہے جو مادری زبان میں ہی ان کی رہنمائی کر سکے۔ تاکہ وہ مادری زبان کے حروف کو سیکھ سکیں،  مادری زبان میں لکھی تحریر کو پڑھ سکیں اور پھر اسی زبان میں کچھ نہ کچھ لکھ سکیں۔ ان مراحل سے گذرتے وقت بعض اسکولوں میں بچے دوسری زبان بھی سیکھتے ہیں اور پھر نئے مضامین کی تعلیم و تدریس کا سلسہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب اس اسٹیج پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کی تعلیم کے لیے کس زبان کو وسیلہ بنایا جائے یعنی اس کی تعلیم مادری زبان میں ہو یا کسی اور زبان میں۔ اس سوال پرماضی میں بہت بحثیں ہو چکی ہیں اور اب بھی جاری ہیں۔ اس تعلق سے مختلف مکتب ہائے فکر کے لوگ اپنی اپنی دلیلوں کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہیں۔

بہر حال مادری زبان میں تعلیم کے موقف والے لوگوں کی اکثریت ہے اور دنیا کے بیشتر اسکول اسی پر عمل پیرا ہیں۔ بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی سے اعلی تعلیم تک ذریعہ تعلیم ان کی مادری زبان ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں یہ صورت کم نظر آتی ہے کیونکہ وہ ترقی کے حصول کو مدنظر رکھ کر عالمی سطح پر رابطے کی زبان یعنی انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے طورپر اپناتے ہیں تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ  قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔ ایسی صورت میں بچے کو پہلے ایک دوسری زبان سیکھنی پڑتی ہے جو اس کی مادری زبان نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد اس زبان میں دیگر مضامین کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور چونکہ غیر مادری زبان پر وہ قدرت حاصل نہیں ہو تی جو مادری زبان پر ہوتی ہے اس لیے اسے مضامین کو سمجھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے اور تعلیم و تدریس کا مقصد پوری طری حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔ نتیجۃً کامیابی کے منازل طے کرنے میں پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔

بچوں کو مادری زبان میں تعلیم کیوں دی جائے اس کے کئی اسباب ہیں۔ آئیے ایک نظر ان اسباب پر بھی ڈال لیتے ہیں تاکہ اس تصور کی مزید وضاحت ہو سکے۔ جب ایک بچہ اسکول میں جانے لگتا ہے تو اسے وہاں ایک نیا ماحول ملتا ہے۔ نئے نئے لوگ ملتے ہیں اور انھیں سکھانے والا یعنی استاذ بھی بچوں کے لیے اجنبی ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں تمام بچوں کو جو چیز ایک ڈور میں باندھتی ہے وہ مادری زبان ہے۔ مادری زبان ہی انھیں وہاں اپنے پن کا احساس دلاتی ہے۔ اگر یہ زبان بھی بدل جائے اور کسی اور زبان میں گفتگو کی جانے لگے تو پہلے تو بچوں کو سمجھنے میں دشواری ہوگی اور پھر ان کی تدریس کی رفتار بھی دھیمی پڑ جائے گی۔ اسی طرح مادری زبان کے ذریعے بچوں کو تعلیم میں دلچسپ طریقوں سے مشغول کیا جاسکتا ہے۔ بچوں سے ان کی مادری زبان میں باتیں کی جائیں اور اسی زبان میں سوال و جواب کیے جائیں۔ اس سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی اور وہ نئی نئی چیزوں کو سیکھنے کا شوق پیدا ہوگا اور تدریس و آموزش کی رفتار میں بھی اضافہ ہوگا۔ مادری زبان کے استعمال سے بچے سیکھنے کے عمل میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گے۔

عالم نقوی صاحب اپنے ایک مضمون ’’مادری زبان میں تعلیم کا مسئلہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’دنیا کے تمام لسانی سائنسداں اور ماہرین نفسیات آج اس پر متفق ہیں کہ ’مادری زبان کی تعلیم‘ اور ’مادری زبان میں تعلیم ‘ دونوں لازمی ہیں اس کے بغیر دماغ کی تمام Facultiesکا فطری فروغ ناممکن ہے۔ سترہویں، اٹھاریویں اور انیسویں صدی میں یورپ یعنی برطانیہ،  اٹلی، فرانس، پرتگال او راسپین (ہسپانیہ) وغیرہ نے ایشیاء اور افریقہ کے جتنے ملکوں کو اپنا غلام بنایا، ’مادری زبان کی تعلیم‘او رمادری زبان میں تعلیم دونوں سے اعراض، اجتناب بیزاری بلکہ تنفر ان ہی غلام ملکوں کی خصوصیت ہے۔ سبھی ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو ابتدائی چار پانچ سال تک صرف مادری زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔اور وہ ابتدائی اسکول گرامر اسکول کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد جب ان کی ثانوی تعلیم کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو جو کچھ بھی وہ پڑھتے ہیں ’اپنی مادری زبان ’میں ‘ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا وہ سب کے سب آج ہم سے آگے ہیں۔ ‘‘

عالم نقوی صاحب اپنے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ جو بچہ اپنی مادری زبان ہی میں چھ سال کی عمر تک بولنا سوچنا پڑھنا اور لکھنا سیکھتا ہے تو وہ بعد میں دنیا کی کوئی بھی زبان بآسانی سیکھ سکتا ہے۔ اور اگر چار یا چھ سال کی عمر کے بعد اس کو بقیہ علوم سکھانے کا میڈیم، ذریعہ تعلیم ا س کی مادری زبان ہی کو بنایا جائے تو وہ ان بچوں سے کئی گنابہتر Performکرتا ہے جن کی تعلیم کا میڈیم ان کی مادری زبان کے بجائے کوئی اور زبان ہوتی ہے۔ ‘‘

اگر ہم اپنے ملک ہندوستان کے اسکولوں کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اسکولوں میں دونوں صورتیں موجود ہے۔ یعنی بچوں کی تعلیم ان کی مادری زبان میں بھی دی جارہی ہے اور بعض اسکولوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی زبان بھی ہے۔ اسکول کے نتائج اور بچوں کی کارکردگی یہ بھی بتاتی ہے کہ دونوں میڈیم کے اسکولوں کے طلبا و طالبات الگ الگ میدان میں نمایاں کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے ذہین بچے آگے چل کر اپنی پسند کا مستقبل بنانے میں کامیاب ہیں لیکن جو طلبا انگریزی میڈیم سے پڑھ کر اسکول سے نکل رہیں ہیں ان میں اُن بچوں کی تعلیم زیادہ اچھی ہے جن کے گھروں میں مادری زبان کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کے ماڈرن دور میں بچے گھروں میں ایسی زبان سیکھ رہے ہیں جو کئی زبانوں کے الفاظ کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ انگریزی کے الفاظ کی اس قدر کثرت ہوتی ہے کہ اگر صرف جملوں کی ساخت بدل جائی اور ایک دو اور الفاظ شامل کردیے جائیں تو پورا جملہ انگریزی کا ہوجائے۔

مسئلہ اب بھی برقرار ہے کہ آج کل مادری زبان بھی خالص نہیں رہ گئی بالخصوص شمالی ہندوستان میں جہاں کے باشندوں کی مادری زبان ہندی،  اردو،پنجابی یا کوئی اور زبان ہے۔ جنوبی ہند میں تو پھر بھی صورت حال بہتر ہے کہ وہاں کی زبانوں میں ملاوٹ بڑے پیمانے پر نہیں ہے۔ اب ایسی صورت حال میں بچوں کی تعلیم میں مادری زبان کا کتنا رول ہو سکتا ہے یہ قابل غور ہے۔

بچوں کی تعلیم میں مادری زبان کا رول کتنا اہم ہے اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر زبان ایک کلچر اور ایک تہذیب کی نمائندہ بھی ہوتی ہے۔ اگر بچے اپنی مادری زبان کے توسط سے تعلیم حاصل کریں گے تو انھیں اپنے کلچر اور تہذیب سے بھی واقفیت اچھی طرح سے ہوگی۔ کیونکہ زبان کے اندر جو کہاوتیں ضرب الامثال اور محاوروں کا دخل ہے وہ تمام تر کلچر پر مبنی ہیں۔ اگر کلچر سے واقفیت نہیں ہوگی تو ان کہاوتوں ضرب الامثا ل اور محاوروں کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں بھی دشواری ہوگی۔

 بچوں کی تعلیم میں مادری زبان کی جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ثانوی تعلیم کی سطح تک بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے اور انگریزی زبان اس قدر سکھا دی جائے کہ اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول میں انگریزی ذریعہ تعلیم میں کوئی پریشانی لا حق نہ ہو۔

چلتے چلتے تھوری سی گفتگو اردو زبان کے حوالے سے۔

شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں اکثریت کی مادری زبان اردو ہے۔ لہٰذا ان کے بچوں کی تعلیم میں اردو زبان کا اہم رول ہوگا۔ کیونکہ ان کے گھروں میں اردو بولی جاتی ہے۔ اگر وہ اسکول میں جا کر انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ان کو پہلے انگریزی زبان پر قدرت حاصل کرنی ہوگی جو کہ ظاہر ہے کہ صرف اسکول میں پڑھ کر حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ بیشترگھروں میں انگریزی کا ماحول نہیں ہوتا اور زبان کے سیکھنے میں ماحول کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مسئلہ اردو میڈیم اسکولوں کا بھی ہے۔ بہت کم ہی تعداد میں اردو میڈیم اسکول ہیں جو کہ نہ کے برابر ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم بچوں کی اکثریت تعلیم کے میدان میں پیچھے ہے۔ اس معاملے میں مدارس کے بچے اس اعتبار سے بہتر ہوتے ہیں کہ ان کا ذریعہ تعلیم اردو ہوتا ہے۔ اسی لیے جب وہ مدارس سے نکل کر اعلی تعلیم کے میدان میں آتے ہیں تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی کارکردگی کے میدان محدود ہوتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔